Check out the new design

Firo maanaaji al-quraan tedduɗo oo - Eggo maanaaji Alkur'aana e haala Urdu - Muhammad Gunakry. * - Tippudi firooji ɗii

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Firo maanaaji Simoore: Simoore nagge   Aaya:
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَا ؕ— اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۟
جس آیت کو ہم منسوخ کردیں، یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور ﻻتے ہیں، کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
Faccirooji aarabeeji:
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ؕ— وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ ۟
کیا تجھے علم نہیں کہ زمین و آسمان کا ملک اللہ ہی کے لئے ہے(1) اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔
(1) نسخ کے لغوی معنی تو نقل کرنے کے ہیں، لیکن شرعی اصطلاح میں ایک حکم کو بدل کر دوسرا حکم نازل کرنے کے ہیں۔ یہ نسخ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے۔ جیسے آدم (عليه السلام) کے زمانے میں سگے بہن بھائیوں کا آپس میں نکاح جائز تھا، بعد میں اسے حرام کردیا گیا، وغیرہ اسی طرح قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے بعض احکام منسوخ فرمائے اور ان کی جگہ نیا حکم نازل فرمایا۔ ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔ شاہ ولی اللہ نے ”الفوزالکبیر“ میں ان کی تعداد صرف پانچ بیان کی ہے۔ یہ نسخ تین قسم کا ہے۔ ایک تو مطلقاً نسخ حکم یعنی ایک کو بدل کر دوسرا حکم نازل کردیا گیا۔ دوسرا ہے نسخ مع التلاوۂ۔ یعنی پہلے حکم کے الفاظ قرآن مجید میں موجود رکھے گئے ہیں، ان کی تلاوت ہوتی ہے لیکن دوسرا حکم بھی، جو بعد میں نازل کیا گیا، قرآن میں موجود ہے، یعنی ناسخ اور منسوخ دونوں آیات موجود ہیں۔ نسخ کی ایک تیسری قسم یہ ہے کہ ان کی تلاوت منسوخ کردی گئی۔ یعنی قرآن کریم میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے انہیں شامل نہیں فرمایا، لیکن ان کا حکم باقی رکھا گیا۔ جیسے «الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَا زَنَيَا فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ»۔ (موطا امام مالک) ”شادی شدہ مرد اور عورت اگر زنا کا ارتکاب کریں تو یقیناً انہیں سنگسار کردیا جائے۔“ اس آیت میں نسخ کی پہلی دو قسموں کا بیان ہے «مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ» میں دوسری قسم اور «أَوْ نُنْسِهَا» میں پہلی قسم۔ «نُنْسِهَا» ”ہم بھلوادیتے ہیں“ کا مطلب ہے کہ اس کا حکم اور تلاوت دونوں اٹھا لیتے ہیں۔ گویا کہ ہم نے اسے بھلا دیا اور نیا حکم نازل کردیا۔ یا نبی (صلى الله عليه وسلم) کے قلب سے ہی ہم نے اسے مٹا دیا اور اسے نسیاً منسیا کردیا گیا۔ یہودی تورات کو ناقابل نسخ قرار دیتے تھے اور قرآن پر بھی انہوں نے بعض احکام کے منسوخ ہونے کی وجہ سے اعتراض کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی اور کہا کہ زمین وآسمان کی بادشاہی اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جو مناسب سمجھے کرے، جس وقت جو حکم اس کی مصلحت وحکمت کے مطابق ہو، اسے نافذ کرے اور جسے چاہے منسوخ کردے۔ یہ اس کی قدرت ہی کا ایک مظاہرہ ہے۔ بعض قدیم گمراہوں (مثلاً ابومسلم اصفہانی معتزلی) اور آج کل کے بھی بعض متجددین نے یہودیوں کی طرح قرآن میں نسخ ماننے سے انکار کیا ہے۔ لیکن صحیح بات وہی ہے جو مذکورہ سطروں میں بیان کی گئی ہے، سلف صالحین کا عقیدہ بھی اثبات نسخ ہی رہا ہے۔
Faccirooji aarabeeji:
اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْـَٔلُوْا رَسُوْلَكُمْ كَمَا سُىِٕلَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ ؕ— وَمَنْ یَّتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ ۟
کیا تم اپنے رسول سے یہی پوچھنا چاہتے ہو جو اس سے پہلے موسیٰ ﴿علیہ السلام﴾ سے پوچھا گیا تھا؟(1) (سنو) ایمان کو کفر سے بدلنے واﻻ سیدھی راه سے بھٹک جاتا ہے۔
(1) مسلمانوں (صحابہ (رضي الله عنهم) ) کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ تم یہودیوں کی طرح اپنے پیغمبر (صلى الله عليه وسلم) سے از راہ سرکشی غیر ضروری سوالات مت کیا کرو۔ اس میں اندیشۂ کفر ہے۔
Faccirooji aarabeeji:
وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا ۖۚ— حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۚ— فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۟
ان اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہوجانے کے محض حسد وبغض کی بنا پر تمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں، تم بھی معاف کرو اور چھوڑو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰاپنا حکم ﻻئے۔ یقیناً اللہ تعالے ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
Faccirooji aarabeeji:
وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ ؕ— وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۟
تم نمازیں قائم رکھو اور زکوٰة دیتے رہا کرو اور جو کچھ بھلائی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے، سب کچھ اللہ کے پاس پالو گے، بےشک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔(1)
(1) یہودیوں کو اسلام اور نبی (صلى الله عليه وسلم) سے جو حسد اور عناد تھا اس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کو دین اسلام سےپھیرنے کی مذموم سعی کرتے رہتے تھے۔ مسلمانوں کو کہا جارہا ہے کہ تم صبر اور درگزر سے کام لیتے ہوئے، ان احکام وفرائض اسلام کو بجالاتے رہو، جن کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔
Faccirooji aarabeeji:
وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی ؕ— تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْ ؕ— قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۟
یہ کہتے ہیں کہ جنت میں یہود ونصاریٰ کے سوا اور کوئی نہ جائے گا، یہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں، ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو۔(1)
(1) یہاں اہل کتاب کے اس غرور اور فریب نفس کو پھر بیان کیا جارہا ہے جس میں وہ مبتلاتھے۔ اللہ تعالی نے فرمایا : یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں جن کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔
Faccirooji aarabeeji:
بَلٰی ۗ— مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ ۪— وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ ۟۠
سنو! جو بھی اپنے آپ کو خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے(1) ۔ بےشک اسے اس کا رب پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو کوئی خوف ہوگا، نہ غم اور اداسی۔
(1) «أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ» کا مطلب ہے محض اللہ کی رضا کے لئے کام کرے اور«وَهُوَ مُحْسِنٌ» کا مطلب ہے اخلاص کے ساتھ پیغمبر آخرالزمان (صلى الله عليه وسلم) کی سنت کے مطابق۔ قبولیت عمل کے لئے یہ دو بنیادی اصول ہیں اور نجات اخروی ان ہی اصولوں کے مطابق کئےگئے اعمال صالحہ پر مبنی ہے، نہ کہ محض آرزوؤں پر۔
Faccirooji aarabeeji:
 
Firo maanaaji Simoore: Simoore nagge
Tippudi cimooje Tonngoode hello ngoo
 
Firo maanaaji al-quraan tedduɗo oo - Eggo maanaaji Alkur'aana e haala Urdu - Muhammad Gunakry. - Tippudi firooji ɗii

Eggi nde ko Muhammad Ibrahim Gunakry. Saatiraa nde e ballal Ñiiɓirde Ruwwad ngam eggude. Eggo asli ngoo na waawi janngeede ngam ɓeydude miijo e ɓeto e ɓamtude.

Uddude