Fassarar Ma'anonin Alqura'ni - Fassara a Yaren Urdu * - Teburin Bayani kan wasu Fassarori

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Fassarar Ma'anoni Sura: Suratu Al'nazi'at   Aya:

سورۂ نازعات

وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا ۟ۙ
ڈوب کر سختی سے کھینچنے والوں کی قسم!(1)
(1) نَزْعٌ کے معنی، سختی سے کھینچنا، غَرْقًا ڈوب کر۔ یہ جان نکالنے والے فرشتوں کی صفت ہے فرشتے کافروں کی جان، نہایت سختی سے نکالتے ہیں اور جسم کے اندر ڈوب کر۔
Tafsiran larabci:
وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا ۟ۙ
بند کھول کر چھڑا دینے والوں کی قسم!(1)
(1) نَشْطٌ کے معنی، گرہ کھول دینا، یعنی مومن کی جان فرشتے بہ سہولت نکالتے ہیں، جیسے کسی چیز کی گرہ کھول دی جائے۔
Tafsiran larabci:
وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا ۟ۙ
اور تیرنے پھرنے والوں کی قسم!(1)
(1) سَبْحٌ کے معنی، تیرنا، فرشتے روح نکالنے کے لئے انسان کے بدن میں اس طرح تیرتے پھرتے ہیں جیسے غواص سمندر سےموتی نکالنے کے لئے سمندر کی گہرائیوں میں تیرتا ہے۔ یا مطلب ہے کہ نہایت تیزی سے اللہ کا حکم لے کر آسمان سے اترتے ہیں۔ کیونکہ تیز رو گھوڑے کو بھی سابح کہتے ہیں۔
Tafsiran larabci:
فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا ۟ۙ
پھر دوڑ کر آگے بڑھنے والوں کی قسم!(1)
(1) یہ فرشتے اللہ کی وحی، انبیا تک، دوڑ کر پہنچاتے ہیں تاکہ شیطان کو اس کی کوئی سن گن نہ ملے۔ یا مومنوں کی روحیں جنت کی طرف لے جانے میں نہایت سرعت سے کام لیتے ہیں۔
Tafsiran larabci:
فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا ۟ۘ
پھر کام کی تدبیر کرنے والوں کی قسم!(1)
(1) یعنی اللہ تعالیٰ جو کام ان کے سپرد کرتا ہے، وہ اس کی تدبیر کرتے ہیں اصل مدبر تو اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ کے تحت فرشتوں کے ذریعے سے کام کرواتا ہے تو انہیں بھی مدبر کہہ دیا جاتا ہے۔ اعتبار سے پانچوں صفات فرشتوں کی ہیں اور ان فرشتوں کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ جواب قسم محذوف ہے یعنی لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ (تم ضرور زندہ کیے جاؤ گے اور تمہیں تمہارے عملوں کی بابت خبر دی جائے گی)۔ قرآن نے اس بعث وجزاء کے لئے کئی مواقع پر قسم کھالی ہے جیسے سورۂ تغابں: 7 میں بھی اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر مذکورہ الفاظ میں اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے۔ یہ بعث وجزا کب ہوگی؟ اس کی وضاحت آگے فرمائی۔
Tafsiran larabci:
یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ ۟ۙ
جس دن کانپنے والی کانپے گی.(1)
(1) یہ نفخۂ اولیٰ ہے جسے نفخۂ فنا کہتے ہیں، جس سے ساری کائنات کانپ اور لرز اٹھے گی اور ہر چیز فنا ہو جائے گی۔
Tafsiran larabci:
تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ ۟ؕ
اس کے بعد ایک پیچھے آنے والی (پیچھے پیچھے) آئے گی.(1)
(1) یہ دوسرا نفخہ ہوگا، جس سے سب لوگ زندہ ہو کر قبروں سے نکل آئیں گے۔ یہ دوسرا نفخہ پہلے نفخہ سےچالیس سال بعد ہوگا۔ اسے رَادِفَةٌ اس لئےکہا ہے کہ یہ پہلے نفخے کے بعد ہی ہوگا۔ یعنی نفخۂ ثانیہ، نفخۂ اولیٰ کا ردیف ہے۔
Tafsiran larabci:
قُلُوْبٌ یَّوْمَىِٕذٍ وَّاجِفَةٌ ۟ۙ
(بہت سے) دل اس دن دھڑکتے ہوں گے.(1)
(1) قیامت کےاہوال اور شدائد سے۔
Tafsiran larabci:
اَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ ۟ۘ
جن کی نگاہیں نیچی ہوں گی.(1)
(1) یعنی أَبْصَارُ أَصْحَابِهَا، ایسے دہشت زدہ لوگوں کی نظریں بھی ( مجرموں کی طرح ) جھکی ہوئی ہوں گی۔
Tafsiran larabci:
یَقُوْلُوْنَ ءَاِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْحَافِرَةِ ۟ؕ
کہتے ہیں کہ کیا ہم پہلی کی سی حالت کی طرف پھر لوٹائے جائیں گے؟(1)
(1) حَافِرَةٌ، پہلی حالت کو کہتے ہیں۔ یہ منکریں قیامت کا قول ہے کہ کیا ہم پھر اس طرح زندہ کر دیئے جائیں گےجس طرح مرنے سے پیشتر تھے؟
Tafsiran larabci:
ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةً ۟ؕ
کیا اس وقت جب کہ ہم بوسیده ہڈیاں ہو جائیں گے؟(1)
(1) یہ انکار قیامت کی مزید تاکید ہے کہ ہم کس طرح زندہ کردیئےجائیں گے جب کہ ہماری ہڈیاں بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گی۔
Tafsiran larabci:
قَالُوْا تِلْكَ اِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ ۟ۘ
کہتے ہیں کہ پھر تو یہ لوٹنا نقصان ده ہے(1)
(1) یعنی اگر واقعی ایسا ہوا جیسا کہ محمد ( (صلى الله عليه وسلم) ) کہتاہے، پھر تو یہ دوبارہ زندگی ہمارے لئے سخت نقصان دہ ہوگی۔
Tafsiran larabci:
فَاِنَّمَا هِیَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ ۟ۙ
(معلوم ہونا چاہئے) وه تو صرف ایک (خوفناک) ڈانٹ ہے.
Tafsiran larabci:
فَاِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِ ۟ؕ
کہ (جس کے ظاہر ہوتے ہی) وه ایک دم میدان میں جمع ہو جائیں گے.(1)
(1) سَاهِرَةٌ سےمراد زمین کی سطح یعنی میدان ہے۔ سطح زمین کو سَاهِرَةٌ اس لئےکہا گیا ہے کہ تمام جانداروں کا سونا اور بیدار ہونا، اسی زمین پر ہوتا ہے، بعض کہتے ہیں کہ چٹیل میدانوں اور صحراوں میں خوف کی وجہ سےانسان کی نیند اڑ جاتی ہےاور وہاں بیدار رہتاہے، اس لئے سَاهِرَةٌ کہا جاتا ہے۔ ( فتح القدیر ) بہرحال یہ قیامت کی منظر کشی ہے کہ ایک ہی نفخے سے سب لوگ ایک میدان میں جمع ہو جائیں گے۔
Tafsiran larabci:
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ مُوْسٰی ۟ۘ
کیا موسیٰ (علیہ السلام) کی خبر تمہیں پہنچی ہے؟
Tafsiran larabci:
اِذْ نَادٰىهُ رَبُّهٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی ۟ۚ
جب کہ انہیں ان کے رب نے پاک میدان طویٰ میں پکارا.(1)
(1) یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) مدین سے واپس آگ کی تلاش میں کوہ طور پر پہنچ گئے تھے تو وہاں ایک درخت کی اوٹ سے اللہ تعالیٰ نےموسیٰ (عليه السلام) سے کلام فرمایا، جیسا کہ اس کی تفصیل سورۂ طہ کے آغاز میں گزری طُوَى اسی جگہ کا نام ہے، ہم کلامی کا مطلب نبوت ورسالت سےنوازنا ہے۔ یعنی موسیٰ (عليه السلام) آگ لینے گئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں رسالت عطا فرما دی۔
Tafsiran larabci:
اِذْهَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰی ۟ؗۖ
(کہ) تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے سرکشی اختیار کر لی ہے.(1)
(1) یعنی کفر ومعصیت اور تکبر میں حد سےتجاوز کر گیا ہے۔
Tafsiran larabci:
فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰۤی اَنْ تَزَكّٰی ۟ۙ
اس سے کہو کہ کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے.(1)
(1) یعنی کیا ایسا راستہ اور طریقہ تو پسندکرتا ہےجس سے تیری اصلاح ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اور مطیع ہو جا۔
Tafsiran larabci:
وَاَهْدِیَكَ اِلٰی رَبِّكَ فَتَخْشٰی ۟ۚ
اور یہ کہ میں تجھے تیرے رب کی راه دکھاؤں تاکہ تو (اس سے) ڈرنے لگے.(1)
(1) یعنی اس کی توحید اور عبادت کا راستہ، تاکہ تو اس کے عقاب سے ڈرے۔ اس لئے کہ اللہ کا خوف اسی دل میں پیدا ہوتا ہے جو ہدایت پر چلنے والا ہوتا ہے۔
Tafsiran larabci:
فَاَرٰىهُ الْاٰیَةَ الْكُبْرٰی ۟ؗۖ
پس اسے بڑی نشانی دکھائی.(1)
(1) یعنی اپنی صداقت کے وہ دلائل پیش کئے جو اللہ کی طرف سے انہیں عطا کئے گئے تھے۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو دیئے گئے تھے۔ مثلاً ید بیضا اور عصا اور بعض کے نزدیک آیات تسعہ۔
Tafsiran larabci:
فَكَذَّبَ وَعَصٰی ۟ؗۖ
تو اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی.(1)
(1) لیکن ان دلائل ومعجزات کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا اور تکذیب ونافرمانی کےراستے پر وہ گامزن رہا۔
Tafsiran larabci:
ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰی ۟ؗۖ
پھر پلٹا دوڑ دھوپ کرتے ہوئے.(1)
(1) یعنی اس نے ایمان واطاعت سےاعراض ہی نہیں کیا بلکہ زمین میں فساد پھیلانے اور موسیٰ (عليه السلام) کا مقابلہ کرنے کی سعی کرتا رہا، چنانچہ جادوگروں کو جمع کرکے ان کا مقابلہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) سےکرایا، تاکہ موسیٰ (عليه السلام) کو جھوٹا ثابت کیا جا سکے۔
Tafsiran larabci:
فَحَشَرَ ۫— فَنَادٰی ۟ؗۖ
پھر سب کو جمع کرکے پکارا.(1)
(1) اپنی قوم کو، یا قتال ومحاربہ کے لئے اپنے لشکروں کو، یا جادوگروں کو مقابلے کے لئے جمع کیا اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ربوبیت اعلیٰ کا علان کیا۔
Tafsiran larabci:
فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰی ۟ؗۖ
تم سب کا رب میں ہی ہوں.
Tafsiran larabci:
فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَالْاُوْلٰی ۟ؕ
تو (سب سے بلند وباﻻ) اللہ نے بھی اسے آخرت کے اور دنیا کے عذاب میں گرفتار کرلیا.(1)
(1) یعنی اللہ نے اس کی ایسی گرفت فرمائی کہ اسے دنیا میں آئندہ آنے والے متمردین کےلئے نشان عبرت بنا دیا اور قیامت کا عذاب اس کےعلاوہ ہے، جو اسے وہاں ملے گا۔
Tafsiran larabci:
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَنْ یَّخْشٰی ۟ؕ۠
بیشک اس میں اس شخص کے لئے عبرت ہے جو ڈرے.(1)
(1) اس میں نبی (صلى الله عليه وسلم) کےلئے تسلی اور کفار مکہ کو تنبیہ ہے کہ اگر انہوں نےگزشتہ لوگوں کے واقعات سے عبرت نہ پکڑی تو ان کا انجام بھی فرعون کی طرح ہو سکتا ہے۔
Tafsiran larabci:
ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ ؕ— بَنٰىهَا ۟۫
کیا تمہارا پیدا کرنا زیاده دشوار ہے یا آسمان کا(1) ؟ اللہ تعالیٰ نے اسے بنایا.
(1) یہ کفار مکہ کو خطاب ہے اور مقصود زجر وتوبیخ ہے کہ جو اللہ اتنے بڑے آسمانوں اور ان کے عجائبات کو پیدا کر سکتا ہے، اس کے لئے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا کون سا مشکل ہے۔ کیا تمہیں دوبارہ پیدا کرنا آسمان کے بنانے سے زیادہ مشکل ہے؟
Tafsiran larabci:
رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوّٰىهَا ۟ۙ
اس کی بلندی اونچی کی پھر اسے ٹھیک ٹھاک کر دیا.(1)
(1) بعض نے سَمْكٌ کےمعنی چھت بھی کیے ہیں، ٹھیک ٹھاک کرنے کا مطلب، اسےایسی شکل وصورت میں ڈھالنا ہے کہ جس میں کوئی تفاوت، کجی، شگاف اور خلل باقی نہ رہے۔
Tafsiran larabci:
وَاَغْطَشَ لَیْلَهَا وَاَخْرَجَ ضُحٰىهَا ۪۟
اسکی رات کو تاریک بنایا اور اس کے دن کو نکالا.(1)
(1) أَغْطَشَ أَظْلَمَ أَخْرَجَ کا مطلب أَبْرَز َ اور نَهَارَهَا کی جگہ ضُحَاهَا اس لئے کہا کہ چاشت کا وقت سب سےاچھا اور عمدہ ہے۔ مطلب ہے کہ دن کو سورج کے ذریعے سے روشن بنایا۔
Tafsiran larabci:
وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا ۟ؕ
اور اس کے بعد زمین کو (ہموار) بچھا دیا.(1)
(1) یہ حم السجدۃ:9 میں گزر چکا ہے کہ خَلَقَ ( پیدائش ) اور چیز ہے اور دَحَى( ہموار کرنا ) اور چیز ہے۔ زمین کی تخلیق آسمان سے پہلی ہوئی لیکن اس کو ہموار آسمان کی پیدائش کے بعد کیا گیا ہےاور یہاں اسی حقیقت کا بیان ہے۔ اور ہموار کرنے یا پھیلانے کا مطلب ہے کہ زمین کو رہائش کےقابل بنانے کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہے اللہ نے ان کا اہتمام فرمایا، مثلاً زمین سے پانی نکالا، اس میں چارہ اور خوراک پیدا کی، پہاڑوں کو میخوں کی طرح مضبوط گاڑ دیا تاکہ زمین نہ ہلے۔ جیسا کہ یہاں بھی آگے یہی بیان ہے۔
Tafsiran larabci:
اَخْرَجَ مِنْهَا مَآءَهَا وَمَرْعٰىهَا ۪۟
اس میں سے پانی اور چاره نکالا.
Tafsiran larabci:
وَالْجِبَالَ اَرْسٰىهَا ۟ۙ
اور پہاڑوں کو (مضبوط) گاڑ دیا.
Tafsiran larabci:
مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ ۟ؕ
یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لئے (ہیں).
Tafsiran larabci:
فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰی ۟ؗۖ
پس جب وه بڑی آفت (قیامت) آجائے گی.
Tafsiran larabci:
یَوْمَ یَتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰی ۟ۙ
جس دن کہ انسان اپنے کیے ہوئے کاموں کو یاد کرے گا.
Tafsiran larabci:
وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰی ۟
اور (ہر) دیکھنے والے کے سامنے جہنم ظاہر کی جائے گی.(1)
(1) یعنی کافروں کے سامنے کر دی جائے گی تاکہ وہ دیکھ لیں کہ اب ان کا دائمی ٹھکانہ جہنم ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مومن اور کافر دونوں ہی اسے دیکھیں گے، مومن اسےدیکھ کر اللہ کا شکر کریں گے کہ اس نے ایمان اور اعمال صالحہ کی بدولت انہیں اس سے بچا لیا، اور کافر، جو پہلے ہی خوف ودہشت میں مبتلا ہوں گے، اسے دیکھ کر ان کے غم وحسرت میں اور اضافہ ہو جائے گا۔
Tafsiran larabci:
فَاَمَّا مَنْ طَغٰی ۟ۙ
تو جس (شخص) نے سرکشی کی (ہوگی).(1)
(1) یعنی کفر ومعصیت میں حد سے تجاوز کیاہوگا۔
Tafsiran larabci:
وَاٰثَرَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا ۟ۙ
اور دنیوی زندگی کو ترجیح دی (ہوگی).(1)
(1) یعنی دنیا کو ہی سب کچھ سمجھا ہوگا اور آخرت کے لئے کوئی تیاری نہیں کی ہوگی۔
Tafsiran larabci:
فَاِنَّ الْجَحِیْمَ هِیَ الْمَاْوٰی ۟ؕ
اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے.(1)
(1) اس کےعلاوہ اس کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوگا۔ جہاں وہ اس سے بچ کر پناہ لے لے۔
Tafsiran larabci:
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی ۟ۙ
ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے(1) سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا.(2)
(1) کہ اگر میں نے گناہ اور اللہ کی نافرمانی کی تو مجھے اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا، اس لئے وہ گناہوں سے اجتناب کرتا رہا ہو۔
(2) یعنی نفس کو ان معاصی اور محارم کے ارتکاب سے روکتا رہا ہو جن کی طرف نفس کا میلان ہوتا تھا۔
Tafsiran larabci:
فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰی ۟ؕ
تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے.(1)
(1) جہاں وہ قیام پذیر، بلکہ اللہ کا مہمان ہوگا۔
Tafsiran larabci:
یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَا ۟ؕ
لوگ آپ سے قیامت کے واقع ہونے کا وقت دریافت کرتے ہیں.(1)
(1) یعنی قیامت کب واقع اور قائم ہوگی ؟ جس طرح کشتی اپنے آخری مقام پر پہنچ کر لنگر انداز ہوتی ہے اسی طرح قیامت کے وقوع کا صحیح وقت کیا ہے؟
Tafsiran larabci:
فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِكْرٰىهَا ۟ؕ
آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا تعلق؟(1)
(1) یعنی آپ کو اس کی بابت یقینی علم نہیں ہے، اس لئے آپ کا اس کو بیان کرنے سے کیا تعلق؟ اس کا یقینی علم تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے۔
Tafsiran larabci:
اِلٰی رَبِّكَ مُنْتَهٰىهَا ۟ؕ
اس کے علم کی انتہا تو اللہ کی جانب ہے.
Tafsiran larabci:
اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰىهَا ۟ؕ
آپ تو صرف اس سے ڈرتے رہنے والوں کو آگاه کرنے والے ہیں.(1)
(1) یعنی آپ کا کام صرف انذار ( ڈرانا ) ہے، نہ کہ غیب کی خبریں دینا، جن میں قیامت کا علم بھی ہے جو اللہ نے کسی کو بھی نہیں دیا۔ مَنْ يَخْشَاهَا اس لئے کہا کہ انذار وتبلیغ سے اصل فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے، ورنہ انذار وتبلیغ کا حکم تو ہر ایک کے لئےہے۔
Tafsiran larabci:
كَاَنَّهُمْ یَوْمَ یَرَوْنَهَا لَمْ یَلْبَثُوْۤا اِلَّا عَشِیَّةً اَوْ ضُحٰىهَا ۟۠
جس روز یہ اسے دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہوگا کہ صرف دن کا آخری حصہ یا اول حصہ ہی (دنیا میں) رہے ہیں.(1)
(1) عَشِيَّةً، ظہر سے لے کر غروب شمس تک اور ضحیٰ، طلوع شمس سے نصف النہار تک کے لئے بولا جاتا ہے۔ یعنی جب کافر جہنم کا عذاب دیکھیں گے تو دنیا کی عیش وعشرت اور اس کےمزے سب بھول جائیں گے اور انہیں ایسا محسوس ہوگا کہ وہ دنیا میں پورا ایک دن بھی نہیں رہے۔ دن کا پہلا حصہ یا دن کا آخری حصہ ہی صرف دنیا میں رہے ہیں یعنی دنیا کی زندگی، انہیں اتنی قلیل معلوم ہوگی۔
Tafsiran larabci:
 
Fassarar Ma'anoni Sura: Suratu Al'nazi'at
Teburin Jerin Sunayen Surori Lambar shafi
 
Fassarar Ma'anonin Alqura'ni - Fassara a Yaren Urdu - Teburin Bayani kan wasu Fassarori

ترجمة معاني القرآن الكريم إلى اللغة الاردية، ترجمها محمد إبراهيم جوناكري. تم تصويبها بمعرفة مركز رواد الترجمة، ويتاح الإطلاع على الترجمة الأصلية لغرض إبداء الرأي والتقييم والتطوير المستمر.

Rufewa