Check out the new design

Kur'an-ı Kerim meal tercümesi - Urduca Tercüme - Muhammed Conakri * - Mealler fihristi

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Anlam tercümesi Sure: Sûratu Yûsuf   Ayet:
فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَایَةَ فِیْ رَحْلِ اَخِیْهِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُهَا الْعِیْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ ۟
پھر جب انہیں ان کا سامان اسباب ٹھیک ٹھاک کرکے دیا تو اپنے بھائی کے اسباب میں پانی پینے کا پیالہ(1) رکھ دیا۔ پھر ایک آواز دینے والے نے پکار کر کہا کہ اے قافلے(2) والو! تم لوگ تو چور ہو.(3)
(1) مفسرین نے بیان کیا ہے کہ یہ سقایہ (پانی پینے کا برتن) سونے یا چاندی کا تھا، پانی پینے کے علاوہ غلہ ناپنے کا کام بھی اس سے لیا جاتا تھا، اسے چپکے سے بنیامین کے سامان میں رکھ دیا گیا۔
(2) الْعِير اصلاً ان اونٹوں، گدھوں یا خچر کو کہا جاتا ہے جن پر غلہ لاد کر لے جایا جاتا ہے۔ یہاں مراد اصحاب العیر یعنی قافلے والے۔
(3) چوری کی یہ نسبت اپنی جگہ صحیح تھی کیونکہ منادی حضرت یوسف (عليه السلام) کے سوچے سمجھے منصوبے سے آگاہ نہیں تھا یا اس کے معنی ہیں کہ تمہارا حال چوروں کا سا ہے کہ بادشاہ کا پیالہ، بادشاہ کی رضامندی کے بغیر تمہارے سامان کے اندر ہے۔
Arapça tefsirler:
قَالُوْا وَاَقْبَلُوْا عَلَیْهِمْ مَّاذَا تَفْقِدُوْنَ ۟
انہوں نے ان کی طرف منھ پھیر کر کہا کہ تمہاری کیا چیز کھوئی گئی ہے؟
Arapça tefsirler:
قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَنْ جَآءَ بِهٖ حِمْلُ بَعِیْرٍ وَّاَنَا بِهٖ زَعِیْمٌ ۟
جواب دیا کہ شاہی پیمانہ گم ہے جو اسے لے آئےاسے ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ ملے گا۔ اس وعدے کا میں ضامن ہوں.(1)
(1) یعنی میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کی تفتیش سے قبل ہی جو شخص یہ جام شاہی ہمارے حوالے کر دے گا تو اسے انعام یا اجرت کے طور پر اتنا غلہ دیا جائے گا جو ایک اونٹ اٹھا سکے۔
Arapça tefsirler:
قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْاَرْضِ وَمَا كُنَّا سٰرِقِیْنَ ۟
انہوں نے کہا اللہ کی قسم! تم کو خوب علم ہے کہ ہم ملک میں فساد پھیلانے کے لئے نہیں آئے اور نہ ہم چور ہیں.(1)
(1) برداران یوسف (عليه السلام) چونکہ اس منصوبے سے بےخبر تھے جو حضرت یوسف (عليه السلام) نے تیار کیا تھا، اس لئے قسم کھا کر انہوں نے اپنے چور ہونے کی اور زمین میں فساد برپا کرنے کی نفی کی۔
Arapça tefsirler:
قَالُوْا فَمَا جَزَآؤُهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ كٰذِبِیْنَ ۟
انہوں نے کہا اچھا چور کی کیا سزا ہے اگر تم جھوٹے ہو؟(1)
(1) یعنی اگر تمہارے سامان میں وہ شاہی پیالہ مل گیا تو پھر اس کی کیا سزا ہوگی۔
Arapça tefsirler:
قَالُوْا جَزَآؤُهٗ مَنْ وُّجِدَ فِیْ رَحْلِهٖ فَهُوَ جَزَآؤُهٗ ؕ— كَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ ۟
جواب دیا کہ اس کی سزا یہی ہے کہ جس کے اسباب میں سے پایا جائے وہی اس کا بدلہ ہے(1) ۔ ہم تو ایسے ﻇالموں کو یہی سزا دیا کرتے ہیں.(2)
(1) یعنی چور کو کچھ عرصے کے لئے اس شخص کے سپرد کر دیا جاتا ہے جس کی اس نے چوری کی ہوتی تھی۔ یہ حضرت یعقوب (عليه السلام) کی شریعت میں سزا تھی، جس کے مطابق یوسف (عليه السلام) کے بھائیوں نے یہ سزا تجویز کی۔
(2) یہ قول بھی برادران یوسف (عليه السلام) ہی کا ہے، بعض کے نزدیک یہ یوسف (عليه السلام) کے مصاحبین کا قول ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم بھی ظالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ لیکن آیت کا اگلا ٹکڑا کہ ”بادشاہ کے دین میں وہ اپنے بھائی کو پکڑ نہ سکتے تھے“ اس قول کی نفی کرتا ہے۔
Arapça tefsirler:
فَبَدَاَ بِاَوْعِیَتِهِمْ قَبْلَ وِعَآءِ اَخِیْهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِّعَآءِ اَخِیْهِ ؕ— كَذٰلِكَ كِدْنَا لِیُوْسُفَ ؕ— مَا كَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاهُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِكِ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ ؕ— نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ ؕ— وَفَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ ۟
پس یوسف نے ان کے سامان کی تلاشی شروع کی، اپنے بھائی کے سامان کی تلاشی سے پہلے، پھر اس پیمانہ کو اپنے بھائی کے سامان (زنبیل) سے نکالا(1) ۔ ہم نے یوسف کے لئے اسی طرح یہ تدبیر کی(2)۔ اس بادشاه کے قانون کی رو سے یہ اپنے بھائی کو نہ لے سکتا تھا(3) مگر یہ کہ اللہ کو منظور ہو۔ ہم جس کے چاہیں درجے بلند کر دیں(4)، ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے واﻻ دوسرا ذی علم موجود ہے.(5)
(1) پہلے بھائیوں کے سامان کی تلاشی لی۔ آخر میں بنیامین کا سامان دیکھا تاکہ انہیں شبہ نہ ہو کہ یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔
(2) یعنی ہم نے وحی کے ذریعے سے یوسف (عليه السلام) کو یہ تدبیر سمجھائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی صحیح غرض کے لئے ایسا طریقہ اختیار کرنا جس کی ظاہری صورت حیلہ کی ہو، جائز ہے بشرطیکہ وہ طریقہ کسی نص شرعی کے خلاف نہ ہو (فتح القدیر)
(3) یعنی بادشاہ مصر میں جو قانون اور دستور رائج تھا، اس کی روح سے بنیامین کو اس طرح روکنا ممکن نہیں تھا اس لئے انہوں نے اہل قافلہ سے پوچھا کہ بتلاؤ اس جرم کی سزا کیا ہو۔
(4) جس طرح یوسف (عليه السلام) کو اپنی عنایات اور مہربانیوں سے بلند مرتبہ عطا کیا۔
(5) یعنی ہر عالم سے بڑھ کر کوئی نہ کوئی عالم ہوتا ہے اس لئے کوئی صاحب علم اس دھوکے میں مبتلا نہ ہو کہ میں ہی اپنے وقت کا سب سے بڑا عالم ہوں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر صاحب علم کے اوپر ایک علیم یعنی اللہ تعالٰی ہے۔
Arapça tefsirler:
قَالُوْۤا اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ ۚ— فَاَسَرَّهَا یُوْسُفُ فِیْ نَفْسِهٖ وَلَمْ یُبْدِهَا لَهُمْ ۚ— قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۚ— وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ ۟
انہوں نے کہا کہ اگر اس نے چوری کی (تو کوئی تعجب کی بات نہیں) اس کابھائی بھی پہلے چوری کر چکا ہے(1) ۔ یوسف (علیہ السلام) نے اس بات کو اپنے دل میں رکھ لیا اور ان کے سامنے بالکل ﻇاہر نہ کیا۔ کہا کہ تم بدتر جگہ میں ہو(2)، اور جو تم بیان کرتے ہو اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے.
(1) یہ انہوں نے اپنی پاکیزگی و شرافت کے اظہار کے لئے کہا۔ کیونکہ حضرت یوسف (عليه السلام) اور بنیامین، ان کے سگے اور حقیقی بھائی نہیں تھے، علاتی بھائی تھے، بعض مفسرین نے یوسف (عليه السلام) کی چوری کے لئے دو راز کار باتیں نقل کی ہیں جو کسی مستند ماخذ پر مبنی نہیں ہیں۔ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے کو تو نہایت با اخلاق اور باکردار باور کرایا اور یوسف (عليه السلام) اور بنیامین کو کمزور کردار کا اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے انہیں چور اور بے ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی۔
(2) حضرت یوسف (عليه السلام) کے اس قول سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت یوسف (عليه السلام) کی طرف چوری کے انتساب میں صریح کذب بیانی کا ارتکاب کیا۔
Arapça tefsirler:
قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الْعَزِیْزُ اِنَّ لَهٗۤ اَبًا شَیْخًا كَبِیْرًا فَخُذْ اَحَدَنَا مَكَانَهٗ ۚ— اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ ۟
انہوں نے کہا کہ اے عزیز مصر(1) ! اس کے والد بہت بڑی عمر کے بالکل بوڑھے شخص ہیں۔ آپ اس کے بدلے ہم میں سے کسی کو لے لیجئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ بڑے نیک نفس ہیں.(2)
(1) حضرت یوسف کو عزیز مصر اس لئے کہا کہ اس وقت اصل اختیارات حضرت یوسف (عليه السلام) کے ہی پاس تھے، بادشاہ صرف برائے نام فرمانروائے مصر تھا۔
(2) باپ تو یقینا بوڑھے ہی تھے، لیکن یہاں ان کا اصل مقصد بنیامین کو چھڑانا تھا۔ ان کے ذہن میں وہی یوسف (عليه السلام) والی بات تھی کہ کہیں ہمیں پھر دوبارہ بنیامین کے بغیر باپ کے پاس جانا پڑے اور باپ ہم سے کہیں کہ تم نے میرے بنیامین کو بھی یوسف (عليه السلام) کی طرح کہیں گم کر دیا۔ اس لئے یوسف (عليه السلام) کے احسانات کے حوالے سے یہ بات کی کہ شاید وہ یہ احسان بھی کر دیں کہ بنیامین کو چھوڑ دیں اور اس کی جگہ کسی اور بھائی کو رکھ لیں۔
Arapça tefsirler:
 
Anlam tercümesi Sure: Sûratu Yûsuf
Surelerin fihristi Sayfa numarası
 
Kur'an-ı Kerim meal tercümesi - Urduca Tercüme - Muhammed Conakri - Mealler fihristi

Muhammed İbrahim Cunakri tarafından tercüme edilmiştir. Rowad Tercüme Merkezi gözetiminde geliştirimiştir. Orijinal tercüme, görüş bildirme, değerlendirme ve sürekli geliştirme amacıyla incelemeye açıktır.

Kapat