Check out the new design

Kur'an-ı Kerim meal tercümesi - Urduca Tercüme - Muhammed Conakri * - Mealler fihristi

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Anlam tercümesi Sure: Sûratu'n-Neml   Ayet:
وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ؕ— فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ ۟۠
انہوں نے انکار کردیا حاﻻنکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے صرف ﻇلم اور تکبر کی بنا پر(1) ۔ پس دیکھ لیجئے کہ ان فتنہ پرداز لوگوں کا انجام کیسا کچھ ہوا.
(1) یعنی علم کےباوجود جو انہوں نے انکار کیا تو اس کی وجہ ان کا ظلم اور استکبار تھا۔
Arapça tefsirler:
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ عِلْمًا ۚ— وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی كَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۟
اور ہم نے یقیناً داؤد اور سلیمان کو علم دے رکھا تھا(1) ۔ اور دونوں نے کہا، تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایماندار بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے.
(1) سورت کے شروع میں فرمایا گیا تھا کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے سکھلایا جاتا ہے، اس کی دلیل کے طور پر حضرت موسیٰ (عليه السلام) کا قصہ مختصراً بیان فرمایا اور اب دوسری دلیل حضرت داود (عليه السلام) وسلیمان (عليه السلام) کا یہ قصہ ہے۔ انبیا علیہم السلام کے یہ واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ علم سے مراد نبوت کے علم کے علاوہ وہ علم ہے جن سے حضرت حضرت داود (عليه السلام) اور سلیمان (عليه السلام) کو بطور خاص نوازا گیا تھا جیسے حضرت داود (صلى الله عليه وسلم) کو لوہے کی صنعت کاعلم اور حضرت سلیمان (عليه السلام) کو جانورون کی بولیوں کا علم عطا کیاگیا تھا۔ ان دونوں باپ بیٹوں کو اور بھی بہت کچھ عطا کیا گیا تھا، لیکن یہاں صرف علم کا ذکر کیاگیا ہے، جس سے واضح ہوتا ہےکہ علم اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔
Arapça tefsirler:
وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَاُوْتِیْنَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ ؕ— اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ ۟
اور داؤد کے وارث سلیمان ہوئے(1) اور کہنے لگے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے(2) اور ہم سب کچھ میں سے دیئے گئے ہیں۔ بیشک یہ بالکل کھلا ہوا فضل الٰہی ہے.
(1) اس سے مراد نبوت اور بادشاہت کی وراثت ہے، جس کے وارث صرف سلیمان (عليه السلام) قرار پائے۔ ورنہ حضرت داود (عليه السلام) کے اور بھی بیٹے تھے جو اس وراثت سے محروم رہے۔ ویسے بھی انبیا کی وراثت علم میں ہی ہوتی ہے، جو مال و اسباب چھوڑ جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے،جیسا کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ہے۔ (البخاري كتاب الفرائض، ومسلم، كتاب الجهاد)۔
(2) بولیاں تو تمام جانوروں کی سکھلائی گئی تھیں۔ لیکن پرندوں کا ذکر بطور خاص اس لیے کیا ہے کہ پرندے سائے کے لیے ہر وقت ساتھ رہتے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ صرف پرندوں کی بولیاں سکھلائی گئی تھیں اور چیونٹیاں بھی منجملہ پرندوں کے ہیں۔ (فتح القدیر)۔
(3) جس کی ان کو ضرورت تھی، جیسے علم، نبوت، حکمت، مال، جن و انس اور طیور و حیوانات کی تسخیر وغیرہ۔
Arapça tefsirler:
وَحُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِ فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ ۟
سلیمان کے سامنے ان کے تمام لشکر جنات اور انسان اور پرند میں سے جمع کیے گئے(1) (ہر ہر قسم کی) الگ الگ درجہ بندی کردی گئی.(2)
(1) اس میں حضرت سلیمان (عليه السلام) کی اس انفرادی خصوصیت و فضیلت کاذکر ہے، جس میں وہ پوری تاریخ انسانیت میں ممتاز ہیں کہ ان کی حکمرانی صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ جنات، حیوانات اور چرند و پرند حتیٰ کہ ہوا تک ان کے ماتحت تھی، اس میں کہا گیا ہے کہ سلیمان (عليه السلام) کے تمام لشکر یعنی جنوں، انسانوں اور پرندوں سب کو جمع کیاگیا۔ یعنی کہیں جانے کے لیے یہ لاؤ لشکر جمع کیاگیا۔
(2) یہ ترجمہ (توزیع بمعنی تفریق) کےاعتبار سے ہے۔ یعنی سب کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم (قسم وار) کردیا جاتا تھا، مثلاً انسانوں، جنوں کا گروہ، پرندوں اور حیوانات کے گروہ۔ وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے معنی اس کے (پس وہ روکے جایا کرتے تھے) یعنی یہ لشکر اتنی بڑی تعداد میں ہوتا تھا کہ راستے میں روک روک کر ان کو درست کیا جاتا تھا کہ شاہی لشکر بدنظمی اور انتشار کا شکار نہ ہو یہ وَزَعَ يَزَعُ سے ہے، جس کے معنی روکنے کے ہیں۔ اسی مادے میں ہمزۂ سلب کا اضافہ کرکے أَوْزِعْنِي بنایا گیا ہے۔ جو اگلی آیت نمبر 19 میں آرہا ہے یعنی ایسی چیزیں مجھ سے دور فرمادے، جو مجھے تیری نعمتوں پر تیرا شکر کرنے سے روکتی ہیں۔ اس کو اردو میں ہم الہام و توفیق سے تعبیر کر لیتے ہیں۔ (فتح القدیر، ایسرالتفاسیر وابن کثیر)۔
Arapça tefsirler:
حَتّٰۤی اِذَاۤ اَتَوْا عَلٰی وَادِ النَّمْلِ ۙ— قَالَتْ نَمْلَةٌ یّٰۤاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ ۚ— لَا یَحْطِمَنَّكُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُهٗ ۙ— وَهُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ ۟
جب وه چینوٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ، ایسا نہ ہو کہ بیخبری میں سلیمان اور اس کا لشکر تمہیں روند ڈالے.(1)
(1) اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حیوانات میں بھی ایک خاص قسم کا شعور موجود ہے۔ گویا وہ انسانوں سے بہت کم اور مختلف ہے۔ دوسرا، یہ کہ حضرت سلیمان (عليه السلام) اتنی عظمت و فضیلت کے باوجود عالم الغیب نہیں تھے، اسی لیے چیونٹیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں بے خبری میں ہم روند نہ دیئے جائیں۔ تیسرا، یہ کہ حیوانات بھی اسی عقیدۂ صحیحہ سے بہرور تھے اور ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغب نہیں۔ جیسا کہ آگے آنے والے ہدہد کے واقعے سے بھی اس کی مزید تائید ہوتی ہے۔ چوتھا، یہ کہ حضرت سلیمان (عليه السلام) پرندوں کے علاوہ دیگر جانوروں کی بولیاں بھی سمجھتے تھے۔ یہ علم بطور اعجاز اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا تھا، جس طرح تسخیر جنات وغیرہ اعجازی شان تھی۔
Arapça tefsirler:
فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِیْنَ ۟
اس کی اس بات سے حضرت سلیمان مسکرا کر ہنس دیئے اور دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا ﻻؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں(1) اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کر لے.(2)
(1) چیونٹی جیسی حقیر مخلوق کی گفتگو سن کر سمجھ لینے سے حضرت سلیمان کے دل میں شکر گزاری کا احساس پیدا ہوا کہ اللہ نے مجھ پر کتنا انعام فرمایا ہے۔
(2) اس سے معلوم ہوا کہ جنت، مومنوں ہی کا گھر ہے، اس میں کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہوسکے گا۔ اسی لیے حدیث میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا (سیدھے سیدھے اور حق کے قریب رہو اور یہ بات جان لو کہ کوئی شخص بھی صرف اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا۔ صحابہ (رضي الله عنهم) نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ بھی؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”ہاں، میں بھی اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤں گا، جب تک اللہ کی رحمت مجھے اپنے دامن میں نہیں ڈھانک لے گی“۔ (صحيح بخاري نمبر 6467۔ مسلم نمبر۔ 217)۔
Arapça tefsirler:
وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَاۤ اَرَی الْهُدْهُدَ ۖؗ— اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآىِٕبِیْنَ ۟
آپ نے پرندوں کی دیکھ بھال کی اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا؟ کیا واقعی وه غیر حاضر ہے؟(1)
(1) یعنی موجود تو ہے، مجھے نظر نہیں آرہا یا یہاں موجود ہی نہیں ہے۔
Arapça tefsirler:
لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْ لَاَاذْبَحَنَّهٗۤ اَوْ لَیَاْتِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ ۟
یقیناً میں اسے سخت سزا دوں گا، یا اسے ذبح کر ڈالوں گا، یا میرے سامنے کوئی صریح دلیل بیان کرے.
Arapça tefsirler:
فَمَكَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ ۟
کچھ زیاده دیر نہ گزری تھی کہ آ کر اس نے کہا میں ایک ایسی چیز کی خبر ﻻیا ہوں کہ تجھے اس کی خبر ہی نہیں(1) ، میں سبا(2) کی ایک سچی خبر تیرے پاس ﻻیا. ہوں.
(1) احاطہ کے معنی ہیں کسی چیز کی بابت مکمل علم اور معرفت حاصل کرنا۔
(2) سَبَأٌ ایک شخص کے نام پر ایک قوم کا نام بھی تھا اور ایک شہر کا بھی۔ یہاں شہر مراد ہے۔ یہ صنعاء (یمن) سے تین دن کے فاصلے پر ہے اور مارب یمن کے نام سے معروف ہے۔ (فتح القدیر)۔
Arapça tefsirler:
 
Anlam tercümesi Sure: Sûratu'n-Neml
Surelerin fihristi Sayfa numarası
 
Kur'an-ı Kerim meal tercümesi - Urduca Tercüme - Muhammed Conakri - Mealler fihristi

Muhammed İbrahim Cunakri tarafından tercüme edilmiştir. Rowad Tercüme Merkezi gözetiminde geliştirimiştir. Orijinal tercüme, görüş bildirme, değerlendirme ve sürekli geliştirme amacıyla incelemeye açıktır.

Kapat