Check out the new design

Kur'an-ı Kerim meal tercümesi - Urduca Tercüme - Muhammed Conakri * - Mealler fihristi

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Anlam tercümesi Sure: Sûratu'l-Ahzâb   Ayet:
قُلْ لَّنْ یَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ وَاِذًا لَّا تُمَتَّعُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا ۟
کہہ دیجئے کہ گو تم موت سے یا خوف قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہیں کچھ بھی کام نہ آئے گا اور اس وقت تم بہت ہی کم فائده اٹھاؤ گے.(1)
(1) یعنی موت سے تو کوئی صورت مفر نہیں ہے۔ اگر میدان جنگ سے بھاگ کر آبھی جاؤ گے، تو کیا فائدہ؟ کچھ عرصے بعد موت کا پیالہ تو پھر بھی پینا ہی پڑے گا۔
Arapça tefsirler:
قُلْ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَعْصِمُكُمْ مِّنَ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَ بِكُمْ سُوْٓءًا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً ؕ— وَلَا یَجِدُوْنَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا ۟
پوچھیئے! تو کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی برائی پہنچانا چاہے یا تم پر کوئی فضل کرنا چاہے تو کون ہے جو تمہیں بچا سکے (یا تم سے روک سکے؟)(1) ، اپنے لیے بجز اللہ تعالیٰ کے نہ کوئی حمایتی پائیں گے نہ مددگار.
(1) یعنی تمہیں ہلاک کرنا، بیمار کرنا، یا مال وجائیداد میں نقصان پہنچانا یا قحط سالی میں مبتلا کرنا چاہے، تو کون ہے جو تمہیں اس سے بچا سکے؟ یا اپنا فضل وکرم کرنا چاہے تو وہ روک سکے؟
Arapça tefsirler:
قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْكُمْ وَالْقَآىِٕلِیْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَیْنَا ۚ— وَلَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًا ۟ۙ
اللہ تعالیٰ تم میں سے انہیں (بخوبی) جانتا ہے جو دوسروں کو روکتے ہیں اور اپنے بھائی بندوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس(1) چلے آؤ۔ اور کبھی کبھی ہی لڑائی میں آجاتے ہیں.(2)
(1) یہ کہنے والے منافقین تھے، جو اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہونے سے روکتے تھے۔
(2) کیوں کہ وہ موت کے خوف سے پیچھے ہی رہتے تھے۔
Arapça tefsirler:
اَشِحَّةً عَلَیْكُمْ ۖۚ— فَاِذَا جَآءَ الْخَوْفُ رَاَیْتَهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ تَدُوْرُ اَعْیُنُهُمْ كَالَّذِیْ یُغْشٰی عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۚ— فَاِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْكُمْ بِاَلْسِنَةٍ حِدَادٍ اَشِحَّةً عَلَی الْخَیْرِ ؕ— اُولٰٓىِٕكَ لَمْ یُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ ؕ— وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَی اللّٰهِ یَسِیْرًا ۟
تمہاری مدد میں (پورے) بخیل ہیں(1) ، پھر جب خوف ودہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی انکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو(2)۔ پھر جب خوف جاتا رہتا ہے تو تم پر اپنی تیز زبانوں سے بڑی باتیں بناتے ہیں(3) مال کے بڑے ہی حریص ہیں(4)، یہ ایمان ﻻئے ہی نہیں ہیں(5) اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام اعمال نابود کر دیئے ہیں(6)، اور اللہ تعالیٰ پر یہ بہت ہی آسان ہے.(7)
(1) یعنی تمہارے ساتھ خندق کھود کر تم سے تعاون کرنے میں یا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں یا تمہارے ساتھ مل کرلڑنے میں بخیل ہیں۔
(2) یہ ان کی بزدلی اور پست ہمتی کی کیفیت کا بیان ہے۔
(3) یعنی اپنی شجاعت ومردانگی کی بابت ڈینگیں مارتے ہیں، جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں، یا غنیمت کی تقسیم کے وقت اپنی زبان کی تیزی وطراری سے لوگوں کو متاثر کرکے زیادہ سے زیادہ مال حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت قتادہ (رضي الله عنه) فرماتے ہیں، غنیمت کی تقسیم کے وقت یہ سب سے زیادہ بخیل اور سب سے زیادہ برا حصہ لینے والے اور لڑائی کے وقت سب سے زیادہ بزدل اور ساتھیوں کو بےیارو مددگار چھوڑ کر بھاگ جانے والے ہیں۔
(4) یادوسرا مفہوم ہے کہ خیر کا جذبہ بھی ان کےاندر نہیں ہے۔ یعنی مذکورہ خرابیوں اور کوتاہیوں کے ساتھ خیر اور بھلائی سے بھی وہ محروم ہیں۔
(5) یعنی دل سے، بلکہ یہ منافق ہیں، کیوں کہ ان کے دل کفر وعناد سے بھرے ہوئے ہیں۔
(6) اس لئے کہ وہ مشرک اور کافر ہیں اور کافر ومشرک کے اعمال باطل ہیں، جن پر کوئی اجر وثواب نہیں۔ یا أَحْبَطَ أَظْهَرَ کے معنی میں ہے، یعنی ان کے عملوں کے بطلان کو ظاہر کر دیا، اس لیے کہ ان کے اعمال ایسے ہیں ہی نہیں کہ وہ ثواب کے مقتضی ہوں اور اللہ ان کو باطل کر دے۔ (فتح القدیر)۔
(7) ان کے اعمال کا برباد کر دینا، یا ان کا نفاق۔
Arapça tefsirler:
یَحْسَبُوْنَ الْاَحْزَابَ لَمْ یَذْهَبُوْا ۚ— وَاِنْ یَّاْتِ الْاَحْزَابُ یَوَدُّوْا لَوْ اَنَّهُمْ بَادُوْنَ فِی الْاَعْرَابِ یَسْاَلُوْنَ عَنْ اَنْۢبَآىِٕكُمْ ؕ— وَلَوْ كَانُوْا فِیْكُمْ مَّا قٰتَلُوْۤا اِلَّا قَلِیْلًا ۟۠
سمجھتے ہیں کہ اب تک لشکر چلے نہیں گئے(1) ، اور اگر فوجیں آجائیں تو تمنائیں کرتے ہیں کہ کاش! وه صحرا میں بادیہ نشینوں کے ساتھ ہوتے کہ تمہاری خبریں دریافت کیا کرتے(2)، اگر وه تم میں موجود ہوتے (تو بھی کیا؟) نہ لڑتے مگر برائے نام.(3)
(1) یعنی ان منافقین کی بزدلی، دوں ہمتی اور خوف ودہشت کا یہ حال ہے کہ کافروں کے گروہ اگرچہ ناکام ونامراد واپس جا چکے ہیں۔ لیکن یہ اب تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ابھی تک اپنے مورچوں اور خیموں میں موجود ہیں۔
(2) یعنی بالفرض اگر کفار کی ٹولیاں دوبارہ لڑائی کی نیت سے واپس آجائیں تو منافقین کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ مدینہ شہر کے اندر رہنے کے بجائے، باہر صحرا میں بادیہ نشینوں کے ساتھ ہوں اور وہاں لوگوں سے تمہاری بابت پوچھتے رہیں کہ محمد (صلى الله عليه وسلم) اور اس کے ساتھی ہلاک ہوئے یا نہیں؟ یا لشکر کفار کامیاب رہا یا ناکام؟
(3) محض عار کے ڈر سے یاہم وطنی کی حمیت کی وجہ سے۔ اس میں ان لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو جہاد سے گریز کرتے یا اس سے پیچھے رہتے ہیں۔
Arapça tefsirler:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًا ۟ؕ
یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے(1) ، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے.(2)
(1) یعنی اے مسلمانو ! اور منافقو ! تم سب کے لئے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی ذات کے اندر بہترین نمونہ ہے، پس تم جہاد میں اور صبر وثبات میں اسی کی پیروی کرو۔ ہمارا یہ پیغمبر جہاد میں بھوکا رہا حتیٰ کہ اسے پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے، اس کا چہرہ زخمی ہو گیا، اس کا رباعی دانت ٹوٹ گیا، خندق اپنے ہاتھوں سے کھودی اور تقریباً ایک مہینہ دشمن کے سامنے سینہ سپر رہا۔ یہ آیت اگرچہ جنگ احزاب کے ضمن میں نازل ہوئی ہے جس میں جنگ کے موقعے پر بطور خاص رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھنے اور اس کی اقتدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن یہ حکم عام ہے یعنی آپ (صلى الله عليه وسلم) کے تمام اقوال، افعال اور احوال میں مسلمانوں کے لئے آپ (صلى الله عليه وسلم) کی اقتدا ضروری ہے چاہے ان کا تعلق عبادات سے ہو یا معاشرت سے، معیشت سے، یا سیاست سے، زندگی کے ہر شعبے میں آپ کی ہدایات واجب الاتباع ہیں۔ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ الآية (الحشر) اور إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ الآية (آل عمران: 31) کا مفاد بھی یہی ہے۔
(2) اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اسوۂ رسول (صلى الله عليه وسلم) کو وہی اپنائے گا جو آخرت میں اللہ کی ملاقات پر یقین رکھتا اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ آج مسلمان بھی بالعموم ان دونوں وصفوں سے محروم ہیں، اس لئے اسوۂ رسول (صلى الله عليه وسلم) کی بھی کوئی اہمیت ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ ان میں جو اہل دین ہیں ان کے پیشوا، پیر اور مشائخ ہیں اور جو اہل دنیا واہل سیاست ہیں ان کے مرشد ورہنما آقایان مغرب ہیں۔ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سےعقیدت کے زبانی دعوے بڑے ہیں، لیکن آپ (صلى الله عليه وسلم) کو مرشد اور پیشوا ماننے کے لئے ان میں سے کوئی بھی آمادہ نہیں ہے۔ فَإِلَى اللهِ الْمُشْتَكَى۔
Arapça tefsirler:
وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ ۙ— قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ ؗ— وَمَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا ۟ؕ
اور ایمان والوں نے جب (کفار کے) لشکروں کو دیکھا (بے ساختہ) کہہ اٹھے! کہ انہیں کا وعده ہمیں اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے دیا تھا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا(1) ، اور اس (چیز) نے ان کے ایمان میں اور شیوہٴ فرماں برداری میں اور اضافہ کر دیا.(2)
(1) یعنی منافقین نے تو دشمن کی کثرت تعداد اور حالات کی سنگینی دیکھ کر کہا تھا کہ اللہ اور رسول ( (صلى الله عليه وسلم) ) کے وعدے فریب تھے، ان کے برعکس اہل ایمان نے کہا کہ اللہ اور رسول نے جو وعدہ کیا ہے کہ ابتلا وامتحان سے گزرنے کے بعد تمہیں فتح ونصرت سے ہمکنار کیا جائے گا، وہ سچا ہے۔
(2) یعنی حالات کی شدت اور ہولناکی نےان کے ایمان کو متزلزل نہیں کیا، بلکہ ان کے ایمان میں جذبۂ اطاعت وانقیاد اور تسلیم ورضا میں مزید اضافہ کر دیا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں اور ان کے مختلف احوال کے اعتبار سے ایمان اور اس کی قوت میں کمی بیشی ہوتی ہے جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے۔
Arapça tefsirler:
 
Anlam tercümesi Sure: Sûratu'l-Ahzâb
Surelerin fihristi Sayfa numarası
 
Kur'an-ı Kerim meal tercümesi - Urduca Tercüme - Muhammed Conakri - Mealler fihristi

Muhammed İbrahim Cunakri tarafından tercüme edilmiştir. Rowad Tercüme Merkezi gözetiminde geliştirimiştir. Orijinal tercüme, görüş bildirme, değerlendirme ve sürekli geliştirme amacıyla incelemeye açıktır.

Kapat