Kur'an-ı Kerim meal tercümesi - Urduca Kur'an-ı Kerim Meali * - Mealler fihristi

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Anlam tercümesi Sure: Sûratu's-Saffât   Ayet:

سورۂ صافات

وَالصّٰٓفّٰتِ صَفًّا ۟ۙ
قسم ہے صف باندھنے والے (فرشتوں) کی.
Arapça tefsirler:
فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا ۟ۙ
پھر پوری طرح ڈانٹنے والوں کی.
Arapça tefsirler:
فَالتّٰلِیٰتِ ذِكْرًا ۟ۙ
پھر ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والوں کی.
Arapça tefsirler:
اِنَّ اِلٰهَكُمْ لَوَاحِدٌ ۟ؕ
یقیناً تم سب کا معبود ایک ہی ہے.(1)
(1) صَافَّاتٌ، زَاجِرَاتٌ، تَالِياتٌ فرشتوں کی صفات ہیں۔ آسمانوں پر اللہ کی عبادت کے لئے صف باندھنے والے، یا اللہ کے حکم کے انتظار میں صف بستہ، وعظ ونصیحت کے ذریعے سے لوگوں کوڈانٹنے والے یا بادلوں کو، جہاں اللہ کا حکم ہو، وہاں ہانک کر لےجانے والے۔ اللہ کا ذکر یا قرآن کی تلاوت کرنے والے۔ ان فرشتوں کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے مضمون یہ بیان فرمایا کہ تمام انسانوں کا معبود ایک ہی ہے۔ متعدد نہیں، جیسا کہ مشرکین بنائےہوئے ہیں۔ عرف عام میں قسم تاکید اور شک دور کرنے کے لئےکھائی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں قسم اسی شک کو دور کرنے کے لئےکھائی ہے جو مشرکین اس کی وحدانیت والوہیت کے بارے میں پھیلاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر چیز اللہ کی مخلوق اور مملوک ہے، اس لئے وہ جس چیز کو بھی گواہ بنا کر اس کی قسم کھائے، اس کے لئے جائز ہے۔ لیکن انسانوں کےلئے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا بالکل ناجائز اور حرام ہے، کیونکہ قسم میں، جس کی قسم کھائی جاتی ہے، اسے گواہ بنانا مقصود ہوتا ہے۔ اور گواہ اللہ کے سوا کوئی نہیں بن سکتا، کہ عالم الغیب صرف وہی ہے، اس کےسوا کوئی عالم الغیب نہیں۔
Arapça tefsirler:
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ ۟ؕ
آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں اور مَشرقوں کا رب وہی ہے.(1)
(1) مطلب ہے مشارق ومغارب کا رب۔ جمع کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیاہے جیسا کہ، بعض کہتے ہیں کہ سال کے دنوں کی تعداد کے برابر مشرق ومغرب ہیں۔ سورج ہر روز ایک مشرق سے نکلتا اور ایک مغرب میں غروب ہوتا ہے اور سورۂ رحمٰن میں مَشْرِقَيْنِ اور مَغْرِبَيْنِ، تثنیہ کے ساتھ ہیں یعنی دو مشرق اور دو مغرب۔ اس سے مراد وہ مشرقین اور مغربین ہیں جن سے سورج گرمی اور سردی میں طلوع وغروب ہوتا ہے یعنی ایک انتہائی آخری مشرق ومغرب اور دوسرا مختصر یا قریب ترین مشرق ومغرب اور جہاں مشرق ومغرب کو مفرد ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد وہ جہت ہے جس سے سورج طلوع یا غروب ہوتا ہے۔ (فتح القدیر)۔
Arapça tefsirler:
اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَةِ ١لْكَوَاكِبِ ۟ۙ
ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا.
Arapça tefsirler:
وَحِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ ۟ۚ
اور حفاﻇت کی سرکش شیطان سے.(1)
(1) یعنی آسمان دنیا پر، زینت کے علاوہ، ستاروں کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ سرکش شیاطین سے حفاظت ہو۔ چنانچہ شیطان آسمان پرکوئی بات سننے کے لئے جاتے ہیں تو ستارے ان پر ٹوٹ کر گرتے ہیں جس سے بالعموم شیطان جل جاتے ہیں۔ جیسا کہ اگلی آیات اور احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ستاروں کا ایک تیسرا مقصد رات کی تاریکیوں میں رہنمائی بھی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر بیان فرمایا گیا ہے۔ ان مقاصد سہ گانہ کے علاوہ ستاروں کا اور کوئی مقصد بیان نہیں کیا گیا ہے۔
Arapça tefsirler:
لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَی الْمَلَاِ الْاَعْلٰی وَیُقْذَفُوْنَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ ۟
عالم باﻻ کے فرشتوں (کی باتوں) کو سننے کے لئے وه کان بھی نہیں لگا سکتے، بلکہ ہر طرف سے وه مارے جاتے ہیں.
Arapça tefsirler:
دُحُوْرًا وَّلَهُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ ۟ۙ
بھگانے کے لئے اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے.
Arapça tefsirler:
اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ ثَاقِبٌ ۟
مگر جو کوئی ایک آدھ بات اچک لے بھاگے تو (فوراً ہی) اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہے.
Arapça tefsirler:
فَاسْتَفْتِهِمْ اَهُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمْ مَّنْ خَلَقْنَا ؕ— اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ ۟
ان کافروں سے پوچھو تو کہ آیا ان کا پیدا کرنا زیاده دشوار ہے یا (ان کا) جنہیں ہم نے (ان کے علاوه) پیدا کیا(1) ؟ ہم نے (انسانوں) کو لیس دار مٹی سے پیدا کیا ہے.(2)
(1) یعنی ہم نےجو زمین، ملائکہ اور آسمان جیسی چیزیں بنائی ہیں جو اپنے حجم اور وسعت کے لحاظ سے نہایت انوکھی ہیں۔ کیا ان لوگوں کی پیدائش اور دوبارہ ان کو زندہ کرنا، ان چیزوں کی تخلیق سےزیادہ سخت اور مشکل ہے؟ یقیناً نہیں۔
(2) یعنی ان کے باپ آدم (عليه السلام) کو تو ہم نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ انسان آخرت کی زندگی کو اتنا مستبعد کیوں سمجھتے ہیں دراں حالیکہ ان کی پیدائش ایک نہایت ہی حقیر اور کمزور چیز سے ہوئی ہے۔ جب کہ خلقت میں ان سے زیادہ قوی، عظیم اور کامل واتم چیزوں کی پیدائش کا ان کو انکار نہیں۔ (فتح القدیر)۔
Arapça tefsirler:
بَلْ عَجِبْتَ وَیَسْخَرُوْنَ ۪۟
بلکہ تو تعجب کر رہا ہے اور یہ مسخرا پن کر رہے ہیں.(1)
(1) یعنی آپ کو تو منکرین آخرت کے انکار پر تعجب ہو رہا ہے کہ اس کے امکان بلکہ وجوب کےاتنے واضح دلائل کے باوجود وہ اسے مان کر نہیں دے رہے اور وہ آپ کے دعوائے قیامت کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ یہ کیوں کر ممکن ہے؟
Arapça tefsirler:
وَاِذَا ذُكِّرُوْا لَا یَذْكُرُوْنَ ۪۟
اور جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے یہ نہیں مانتے.
Arapça tefsirler:
وَاِذَا رَاَوْا اٰیَةً یَّسْتَسْخِرُوْنَ ۪۟
اور جب کسی معجزے کو دیکھتے ہیں تو مذاق اڑاتے ہیں.
Arapça tefsirler:
وَقَالُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ۟ۚۖ
اور کہتے ہیں کہ یہ تو بالکل کھلم کھلا جادو ہی ہے.(1)
(1) یعنی یہ ان کا شیوہ ہے کہ نصیحت قبول نہیں کرتے اور کوئی واضح دلیل یا معجزہ پیش کیا جائے تو استہزا کرتے اور انہیں جادو باور کراتے ہیں۔
Arapça tefsirler:
ءَاِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ ۟ۙ
کیا جب ہم مر جائیں گے اور خاک اور ہڈی ہو جائیں گے پھر کیا (سچ مچ) ہم اٹھائے جائیں گے؟
Arapça tefsirler:
اَوَاٰبَآؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ ۟ؕ
کیا ہم سے پہلے کے ہمارے باپ دادا بھی؟
Arapça tefsirler:
قُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ ۟ۚ
آپ جواب دیجئے! کہ ہاں ہاں اور تم ذلیل (بھی) ہوں گے.(1)
(1) جس طرح دوسرے مقام پر بھی فرمایا «وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ» (النمل: 87) ”سب اس کی بارگاہ میں ذلیل ہو کر آئیں گے“۔ «إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ» (المؤمن: 60) ”جو لوگ میری عبادت سے انکار کرتے ہیں، عنقریب وہ جہنم میں ذلیل وخوار ہو کر داخل ہوں گے“۔
Arapça tefsirler:
فَاِنَّمَا هِیَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ فَاِذَا هُمْ یَنْظُرُوْنَ ۟
وه تو صرف ایک زور کی جھڑکی ہے(1) کہ یکایک یہ دیکھنے لگیں گے.(2)
(1) یعنی وہ اللہ کے ایک ہی حکم اور اسرافیل (عليه السلام) کی ایک ہی پھونک (نفخۂ ثانیہ) سے قبروں سے زندہ ہو کر نکل کھڑے ہوں گے۔
(2) یعنی ان کے سامنے قیامت کے ہولناک مناظر اور میدان حشر کی سختیاں ہوں گی جنہیں وہ دیکھیں گے۔ نفخے یا چیخ کو زجرہ (ڈانٹ) سے تعبیر کیا، کیونکہ اس سے مقصود ڈانٹ ہی ہے۔
Arapça tefsirler:
وَقَالُوْا یٰوَیْلَنَا هٰذَا یَوْمُ الدِّیْنِ ۟
اور کہیں گے کہ ہائے ہماری خرابی یہی جزا (سزا) کا دن ہے.
Arapça tefsirler:
هٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ ۟۠
یہی فیصلہ کا دن ہے جسے تم جھٹلاتے رہے.(1)
(1) وَيْلٌ کا لفظ ہلاکت کے موقع پر بولا جاتا ہے، یعنی معاینۂ عذاب کے بعد انہیں اپنی ہلاکت صاف نظر آرہی ہوگی اور اس سے مقصود ندامت کا اظہار اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف ہے لیکن اس وقت ندامت اور اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اسی لئے ان کےجواب میں فرشتے اور اہل ایمان کہیں گے کہ یہ وہی فیصلے کا دن ہے جسے تم مانتے نہیں تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو کہیں گے۔
Arapça tefsirler:
اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ ۟ۙ
ﻇالموں کو(1) اور ان کے ہمراہیوں کو(2) اور (جن) جن کی وه اللہ کے علاوه پرستش کرتے تھے.(3)
(1) یعنی جنہوں نے کفر وشرک اور معاصی کا ارتکاب کیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوگا۔
(2) اس سے مراد کفر وشرک اور تکذیب رسل کے ساتھی یا بعض کےنزدیک جنات وشیاطین ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ وہ بیویاں ہیں جو کفر وشرک میں ان کی ہمنوا تھیں۔
(3) مَا، عام ہے، تمام معبودین کو چاہے، وہ مورتیاں ہوں یا اللہ کے نیک بندے، سب کو ان کی تذلیل کے لئے جمع کیا جائے گا۔ تاہم نیک لوگوں کو تو اللہ جہنم سے دور ہی رکھے گا، اور دوسرے معبودوں کو ان کے ساتھ ہی جہنم میں ڈال دیا جائے گا تاکہ وہ دیکھ لیں کہ یہ کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں۔
Arapça tefsirler:
مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَاهْدُوْهُمْ اِلٰی صِرَاطِ الْجَحِیْمِ ۟
(ان سب کو) جمع کرکے انہیں دوزخ کی راه دکھا دو.
Arapça tefsirler:
وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْـُٔوْلُوْنَ ۟ۙ
اور انہیں ٹھہرا لو(1) ، (اس لئے) کہ ان سے (ضروری) سوال کیے جانے والے ہیں.
(1) یہ حکم جہنم میں لے جانے سے قبل ہوگا، کیونکہ حساب کے بعد ہی وہ جہنم میں جائیں گے۔
Arapça tefsirler:
مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُوْنَ ۟
تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ (اس وقت) تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے.
Arapça tefsirler:
بَلْ هُمُ الْیَوْمَ مُسْتَسْلِمُوْنَ ۟
بلکہ وه (سب کے سب) آج فرمانبردار بن گئے.
Arapça tefsirler:
وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَآءَلُوْنَ ۟
وه ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال وجواب کرنے لگیں گے.
Arapça tefsirler:
قَالُوْۤا اِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْیَمِیْنِ ۟
کہیں گے کہ تم تو ہمارے پاس ہماری دائیں طرف سے آتے تھے.(1)
(1) اس کا مطلب یہ ہے کہ دین اور حق کے نام سے آتے تھے یعنی باور کراتے تھے کہ یہی اصل دین اور حق ہے۔ اور بعض کے نزدیک مطلب ہے، ہر طرف سے آتے تھے، وَالشِّمَالِ محذوف ہے۔ جس طرح شیطان نے کہا تھا ”میں ان کے آگے، پیچھے سے، ان کے دائیں بائیں سے ہر طرف سے ان کے پاس آؤں گا اور انہیں گمراہ کروں گا“۔ (الأعراف: 17)۔
Arapça tefsirler:
قَالُوْا بَلْ لَّمْ تَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ۟ۚ
وه جواب دیں گے کہ نہیں بلکہ تم ہی ایمان والے نہ تھے.(1)
- لیڈر کہیں گے کہ ایمان تم اپنی مرضی سے نہیں لائے اور آج ذمے دار ہمیں ٹھہرا رہے ہو؟
Arapça tefsirler:
وَمَا كَانَ لَنَا عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ ۚ— بَلْ كُنْتُمْ قَوْمًا طٰغِیْنَ ۟
اور کچھ ہمارا زور تو تم پر تھا (ہی) نہیں۔ بلکہ تم (خود) سرکش لوگ تھے.(1)
(1) تابعین اور متبوعین کی یہ باہمی تکرار قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کی گئی ہے۔ ان کی ایک دوسرے کو یہ ملامت عرصۂ قیامت (میدان محشر) میں بھی ہوگی اور جہنم میں جانے کے بعد جہنم کے اندر بھی۔ ملاحظہ ہو۔ المؤمن: 48-47، سبا: 32-31، الاحزاب:68-67 ، الاعراف:39- 38 وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ۔
Arapça tefsirler:
فَحَقَّ عَلَیْنَا قَوْلُ رَبِّنَاۤ ۖۗ— اِنَّا لَذَآىِٕقُوْنَ ۟
اب تو ہم (سب) پر ہمارے رب کی یہ بات ﺛابت ہو چکی کہ ہم (عذاب) چکھنے والے ہیں.
Arapça tefsirler:
فَاَغْوَیْنٰكُمْ اِنَّا كُنَّا غٰوِیْنَ ۟
پس ہم نے تمہیں گمراه کیا ہم تو خود بھی گمراه ہی تھے.(1)
(1) یعنی جس بات کی پہلے، انہوں نے نفی کی، کہ ہمارا تم پر کون سا زور تھا کہ تمہیں گمراہ کرتے۔ اب اس کا یہاں اعتراف ہے کہ ہاں واقعی ہم نے تمہیں گمراہ کیا تھا۔ لیکن یہ اعتراف اس تنبیہ کے ساتھ کیا کہ ہمیں اس ضمن میں مورد طعن مت بناؤ، اس لئے کہ ہم خود بھی گمراہ ہی تھے، ہم نے تمہیں بھی اپنے جیسا ہی بنانا چاہا اور تم نے آسانی سے ہماری راہ اپنالی۔ جس طرح شیطان بھی اس روز کہے گا۔ «وَمَا كَانَ لِي عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ» (إبراهيم: 22)۔
Arapça tefsirler:
فَاِنَّهُمْ یَوْمَىِٕذٍ فِی الْعَذَابِ مُشْتَرِكُوْنَ ۟
سو اب آج کے دن تو (سب کے سب) عذاب میں شریک ہیں.(1)
(1) اس لئے کہ ان کا جرم بھی مشترکہ ہے، شرک، معصیت اور شر وفساد ان سب کا وطیرہ تھا۔
Arapça tefsirler:
اِنَّا كَذٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِیْنَ ۟
ہم گناه گاروں کے ساتھ اسی طرح کیا کرتے ہیں.(1)
(1) یعنی ہر قسم کے گناہ گاروں کے ساتھ ہمارا یہی معاملہ ہے اور اب وہ سب ہمارا عذاب بھگتیں گے۔
Arapça tefsirler:
اِنَّهُمْ كَانُوْۤا اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ یَسْتَكْبِرُوْنَ ۟ۙ
یہ وه (لوگ) ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ سرکشی کرتے تھے.(1)
(1) یعنی دنیا میں، جب ان سے کہا جاتا تھا کہ جس طرح مسلمانوں نے یہ کلمہ پڑھ کر شرک ومعصیت سے توبہ کر لی ہے، تم بھی یہ پڑھ لو، تاکہ تم دنیا میں بھی مسلمان کے قہر وغضب سےبچ جاؤ اور آخرت میں بھی عذاب الٰہی سے تمہیں دوچار ہونا نہ پڑے، تو وہ تکبر کرتے اور انکار کرتے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ہے۔ «أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا : لا إِلَه إِلا اللهُ ، فَمَنْ قَالَ (لا إِلَه إِلا اللهُ) فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ» (متفق عليه ، مشكاة، كتاب الإيمان بحواله ابن كثير) ”مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کروں جب تک وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں۔ جس نے یہ اقرار کر لیا، اس نے اپنی جان اور مال کی حفاظت کر لی“۔
Arapça tefsirler:
وَیَقُوْلُوْنَ اَىِٕنَّا لَتَارِكُوْۤا اٰلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ ۟ؕ
اور کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی بات پر چھوڑ دیں؟(1)
(1) یعنی انہوں نے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کو شاعر اور مجنون کہا اور آپ کی دعوت کو جنون (دیوانگی) اور قرآن کو شعر سے تعبیر کیا اور کہا کہ ایک دیوانے کی دیوانگی پر ہم اپنے معبودوں کو کیوں چھوڑ دیں؟ حالانکہ یہ دیوانگی نہیں، فرزانگی تھی، شاعری نہیں، حقیقت تھی اور اس دعوت کے اپنانے میں ان کی ہلاکت نہیں، نجات تھی۔
Arapça tefsirler:
بَلْ جَآءَ بِالْحَقِّ وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِیْنَ ۟
(نہیں نہیں) بلکہ (نبی) تو حق (سچا دین) ﻻئے ہیں اور سب رسولوں کو سچا جانتے ہیں.(1)
(1) یعنی تم ہمارے پیغمبر کو شاعر اور مجنون کہتے ہو، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ وہ جو کچھ لایا اور پیش کر رہا ہے، وہ سچ ہے اور وہی چیز ہے جو اس سے قبل تمام انبیا بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ کیا یہ کام کسی دیوانے کا یا کسی شاعر کے تخیلات کا نتیجہ ہو سکتا ہے؟
Arapça tefsirler:
اِنَّكُمْ لَذَآىِٕقُوا الْعَذَابِ الْاَلِیْمِ ۟ۚ
یقیناً تم دردناک عذاب (کا مزه) چکھنے والے ہو.
Arapça tefsirler:
وَمَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۟ۙ
تمہیں اسی کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے تھے.(1)
(1) یہ جہنمیوں کو اس وقت کہا جائے گا جب وہ کھڑے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں گے اور ساتھ ہی وضاحت کر دی جائے گی کہ یہ ظلم نہیں ہے بلکہ عین عدل ہے کیونکہ یہ سب تمہارے اپنے عملوں کا بدلہ ہے۔
Arapça tefsirler:
اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ ۟
مگر اللہ تعالیٰ کے خالص برگزیده بندے.(1)
(1) یعنی یہ عذاب سے محفوظ ہوں گے، ان کی کوتاہیوں سے بھی درگزر کر دیا جائے گا، اگر کچھ ہوں گی اور ایک ایک نیکی کا اجر انہیں کئی کئی گنا دیا جائے گا۔
Arapça tefsirler:
اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ ۟ۙ
انہیں کے لئے مقرره روزی ہے.
Arapça tefsirler:
فَوَاكِهُ ۚ— وَهُمْ مُّكْرَمُوْنَ ۟ۙ
(ہر طرح کے) میوے، اور وه باعزت واکرام ہوں گے.
Arapça tefsirler:
فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ ۟ۙ
نعمتوں والی جنتوں میں.
Arapça tefsirler:
عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ ۟
تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے (بیٹھے) ہوں گے.
Arapça tefsirler:
یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِكَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ ۟ۙ
جاری شراب کے جام کا ان پر دور چل رہا ہوگا.(1)
(1) كَأْسٌ ، شراب کے بھرے ہوئے جام کو اور قدح خالی جام کو کہتے ہیں۔ مَعِينٍ کےمعنی ہیں۔ جاری چشمہ۔ مطلب یہ ہے کہ جاری چشمے کی طرح، جنت میں شراب ہر وقت میسر رہے گی۔
Arapça tefsirler:
بَیْضَآءَ لَذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ ۟ۚ
جو صاف شفاف اور پینے میں لذیذ ہوگی.(1)
(1) دنیا میں شراب عام طور پر بد رنگ ہوتی ہے، جنت میں وہ جس طرح لذیذ ہوگی خوش رنگ بھی ہوگی۔
Arapça tefsirler:
لَا فِیْهَا غَوْلٌ وَّلَا هُمْ عَنْهَا یُنْزَفُوْنَ ۟
نہ اس سے درد سر ہو اور نہ اس کے پینے سے بہکیں.(1)
(1) یعنی دنیا کی شراب کی طرح اس میں قے، سر درد، بدمستی اور بہکنے کا اندیشہ نہیں ہوگا۔
Arapça tefsirler:
وَعِنْدَهُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِیْنٌ ۟ۙ
اور ان کے پاس نیچی نظروں، بڑی بڑی آنکھوں والی (حوریں) ہوں گی.(1)
(1) بڑی اور موٹی آنکھیں حسن کی علامت ہے یعنی حسین آنکھیں ہوں گی۔
Arapça tefsirler:
كَاَنَّهُنَّ بَیْضٌ مَّكْنُوْنٌ ۟
ایسی جیسے چھپائے ہوئے انڈے.(1)
(1) یعنی شتر مرغ اپنے پروں کے نیچے چھپائے ہوئے ہوں، جس کی وجہ سے وہ ہوا اور گرد وغبار سے محفوظ ہوں گے۔ کہتے ہیں شتر مرغ کے انڈے بہت خوش رنگ ہوتے ہیں، جو زردی مائل سفید ہوتے ہیں اور ایسا رنگ حسن وجمال کی دنیا میں سب سے عمدہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ تشبیہ، صرف سفیدی میں نہیں ہے بلکہ خوش رنگی اور حسن ورعنائی میں ہے۔
Arapça tefsirler:
فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَآءَلُوْنَ ۟
(جنتی) ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے پوچھیں گے.(1)
(1) جنتی، جنت میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوئے، دنیا کے واقعات یاد کریں گے اور ایک دوسرے کو سنائیں گے۔
Arapça tefsirler:
قَالَ قَآىِٕلٌ مِّنْهُمْ اِنِّیْ كَانَ لِیْ قَرِیْنٌ ۟ۙ
ان میں سے ایک کہنے واﻻ کہے گا کہ میرا ایک ساتھی تھا.
Arapça tefsirler:
یَّقُوْلُ ءَاِنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِیْنَ ۟
جو (مجھ سے) کہا کرتا تھا کہ کیا تو (قیامت کے آنے کا) یقین کرنے والوں میں سے ہے؟(1)
(1) یعنی یہ بات وہ استہزا اور مذاق کے طور پر کہا کرتا تھا، مقصد اس کا یہ تھا کہ یہ تو ناممکن ہے کیا ایسی ناممکن الوقوع بات پر تو یقین رکھتا ہے؟
Arapça tefsirler:
ءَاِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَدِیْنُوْنَ ۟
کیا جب کہ ہم مر کر مٹی اور ہڈی ہو جائیں گے کیا اس وقت ہم جزا دیئے جانے والے ہیں؟(1)
(1) یعنی ہمیں زندہ کرکے ہمارا حساب لیاجائے گا اور پھر اس کے مطابق جزا دی جائے گی؟
Arapça tefsirler:
قَالَ هَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ ۟
کہے گا تم چاہتے ہو کہ جھانک کر دیکھ لو؟(1)
(1) یعنی وہ جنتی، اپنے جنت کے ساتھیوں سے کہے گا کہ کیا تم پسند کرتے ہو کہ ذرا جہنم میں جھانک کر دیکھیں، شاید مجھے یہ باتیں کہنے والا وہاں نظر آجائے تو تمہیں بتلاؤں کہ یہ شخص تھا جو یہ باتیں کرتا تھا۔
Arapça tefsirler:
فَاطَّلَعَ فَرَاٰهُ فِیْ سَوَآءِ الْجَحِیْمِ ۟
جھانکتے ہی اسے بیچوں بیچ جہنم میں (جلتا ہوا) دیکھے گا.
Arapça tefsirler:
قَالَ تَاللّٰهِ اِنْ كِدْتَّ لَتُرْدِیْنِ ۟ۙ
کہے گا واللہ! قریب تھا کہ تو مجھے (بھی) برباد کر دے.
Arapça tefsirler:
وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ ۟
اگر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی دوزخ میں حاضر کئے جانے والوں میں ہوتا.(1)
(1) یعنی جھانکنے پر اسے جہنم کے وسط میں وہ شخص نظر آجائے گا اور اسے یہ جنتی کہے گا کہ مجھے بھی تو گمراہ کرکے ہلاکت میں ڈالنے لگا تھا، یہ تو مجھ پر اللہ کا احسان ہوا، ورنہ آج میں بھی تیرے ساتھ جہنم میں ہوتا۔
Arapça tefsirler:
اَفَمَا نَحْنُ بِمَیِّتِیْنَ ۟ۙ
کیا (یہ صحیح ہے) کہ ہم مرنے والے ہی نہیں؟(1)
(1) جہنمیوں کاحشر دیکھ کر جنتی کے دل میں رشک کا جذبہ مزید بیدار ہو جائے گا اور کہے گا کہ ہمیں جو جنت کی زندگی اور اس کی نعمتیں ملی ہیں، کیا یہ دائمی نہیں؟ اور اب ہمیں موت آنے والی نہیں ہے؟ یہ استفہام تقریری ہے یعنی اب یہ زندگیاں دائمی ہیں، جنتی ہمیشہ جنت میں اور جہنمی ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، نہ انہیں موت آئے گی کہ جہنم کے عذاب سے چھوٹ جائیں اور نہ ہمیں، کہ جنت کی نعمتوں سے محروم ہو جائیں، جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں جنت اور دوزخ کے درمیان لا کر ذبح کر دیاجائے گا کہ اب کسی کوموت نہیں آئے گی۔
Arapça tefsirler:
اِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰی وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ ۟
بجز پہلی ایک موت(1) کے، اور نہ ہم عذاب کیے جانے والے ہیں.
(1) جو دنیا میں آچکی۔ اب ہمارے لئے موت ہے نہ عذاب۔
Arapça tefsirler:
اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۟
پھر تو (ﻇاہر بات ہے کہ) یہ بڑی کامیابی ہے.(1)
(1) اس لئے کہ جہنم سے بچ جانے اور جنت کی نعمتوں کا مستحق قرار پا جانے سے بڑھ کر اور کیا کامیابی ہوگی؟
Arapça tefsirler:
لِمِثْلِ هٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ ۟
ایسی (کامیابی) کے لئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہئے.(1)
(1) یعنی اس جیسی نعمت اور اس جیسے فضل عظیم ہی کے لئے محنت کرنے والوں کو محنت کرنی چاہئے، اس لئے کہ یہی سب سے نفع بخش تجارت ہے۔ نہ کہ دنیا کے لئے جو عارضی ہے۔ اور خسارے کا سودا ہے۔
Arapça tefsirler:
اَذٰلِكَ خَیْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ ۟
کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا سینڈھ (زقوم) کا درخت؟(1)
(1) زَقُّومٌ، تَزَقُّمٌ سے مشتق ہے، جس کےمعنی بدبودار اور کریہ چیز کے نگلنے کے ہیں۔ اس درخت کا پھل بھی کھانا اہل جہنم کے لئےسخت ناگوار ہوگا۔ کیوں کہ یہ سخت بدبو دار، کڑوا اور نہایت کریہ ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ دنیا کے درختوں میں سے ہے اور عربوں میں متعارف ہے، یہ قطرب درخت ہے جو تہامہ میں پایا جاتا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ کوئی دنیاوی درخت نہیں ہے، اہل دنیا کے لئے یہ غیر معروف ہے۔ (فتح القدیر) لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ اور یہ وہی درخت ہے جسے اردو میں سینڈھ یا تھوہر کہتے ہیں۔
Arapça tefsirler:
اِنَّا جَعَلْنٰهَا فِتْنَةً لِّلظّٰلِمِیْنَ ۟
جسے ہم نے ﻇالموں کے لئے سخت آزمائش بنا رکھا ہے.(1)
(1) آزمائش، اس لئے کہ اس کا پھل کھانا بجائے خود ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ بعض نے اسے اس اعتبار سے آزمائش کہا کہ اس کے وجود کا انہوں نے انکار کیا کہ جہنم میں جب ہر طرف آگ ہی آگ ہوگی تو وہاں درخت کس طرح موجود رہ سکتا ہے؟ یہاں ظالمین سے مراد وہ اہل جہنم ہیں جن پر جہنم واجب ہوگی۔
Arapça tefsirler:
اِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِیْۤ اَصْلِ الْجَحِیْمِ ۟ۙ
بے شک وه درخت جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے.(1)
(1) یعنی اس کی جڑ جہنم کی گہرائی میں ہوگی البتہ اس کی شاخیں ہر طرف پھیلی ہوئی ہوں گی۔
Arapça tefsirler:
طَلْعُهَا كَاَنَّهٗ رُءُوْسُ الشَّیٰطِیْنِ ۟
جس کے خوشے شیطانوں کے سروں جیسے ہوتے ہیں.(1)
(1) اسے شناعت وقباحت میں شیطانوں کےسروں سے تشبیہ دی، جس طرح اچھی چیز کے بارے میں کہتے ہیں گویا کہ وہ فرشتہ ہے۔
Arapça tefsirler:
فَاِنَّهُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْهَا فَمَالِـُٔوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ ۟ؕ
(جہنمی) اسی درخت سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے.(1)
(1) یہ انہیں نہایت کراہت سے کھانا پڑے گا جس سے ظاہر بات ہے پیٹ بوجھل ہی ہوں گے۔
Arapça tefsirler:
ثُمَّ اِنَّ لَهُمْ عَلَیْهَا لَشَوْبًا مِّنْ حَمِیْمٍ ۟ۚ
پھر اس پر گرم جلتے جلتے پانی کی ملونی ہوگی.(1)
(1) یعنی کھانے کے بعد انہیں پانی کی طلب ہوگی تو کھولتا ہوا گرم پانی انہیں دیا جائے گا،جس کے پینے سے ان کی انتڑیاں کٹ جائیں گی۔ (سورۂ محمد: 15)۔
Arapça tefsirler:
ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَاۡاِلَی الْجَحِیْمِ ۟
پھر ان سب کا لوٹنا جہنم کی (آگ کے ڈھیرکی) طرف ہوگا.(1)
(1) یعنی زقوم کےکھانے اور گرم پانی کے پینے کے بعد انہیں دوبارہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
Arapça tefsirler:
اِنَّهُمْ اَلْفَوْا اٰبَآءَهُمْ ضَآلِّیْنَ ۟ۙ
یقین مانو! کہ انہوں نے اپنے باپ دادا کو بہکا ہوا پایا.
Arapça tefsirler:
فَهُمْ عَلٰۤی اٰثٰرِهِمْ یُهْرَعُوْنَ ۟
اور یہ انہی کے نشان قدم پر دوڑتے رہے.(1)
(1) یہ جہنم کی مذکورہ سزاوں کی علت ہے کہ اپنے باپ دادوں کو گمراہی پر پانے کے باوجود یہ انہی کے نقش قدم پر چلتے رہے اور دلیل وحجت کے مقابلے میں تقلید کو اپنائے رکھا، إِهْرَاعٌ إِسْرَاعٌ کے معنی میں ہے یعنی دوڑنا اور نہایت شوق سے اور لپک کر پکڑنا اور اختیار کرنا۔
Arapça tefsirler:
وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ اَكْثَرُ الْاَوَّلِیْنَ ۟ۙ
ان سے پہلے بھی بہت سے اگلے بہک چکے ہیں.(1)
(1) یعنی یہی گمراہ نہیں ہوئے۔ ان سے پہلے لوگ بھی اکثر گمراہی ہی کےراستے پر چلنے والے تھے۔
Arapça tefsirler:
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا فِیْهِمْ مُّنْذِرِیْنَ ۟
جن میں ہم نے ڈرانے والے (رسول) بھیجے تھے.(1)
(1) یعنی ان سے پہلے لوگوں میں۔ انہوں نے حق کا پیغام پہنچایا اور عدم قبول کی صورت میں انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا نتیجتاً انہیں تباہ کر دیا گیا، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کے عبرت ناک انجام کی طرف اشارہ فرمایا۔
Arapça tefsirler:
فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِیْنَ ۟ۙ
اب تو دیکھ لے کہ جنہیں دھمکایا گیا تھا ان کا انجام کیسا کچھ ہوا.
Arapça tefsirler:
اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ ۟۠
سوائے اللہ کے برگزیده بندوں کے.(1)
(1) یعنی عبرت ناک انجام سے صرف وہ محفوظ رہے جن کو اللہ نے ایمان وتوحید کی توفیق سے نواز کر بچا لیا۔ مُخْلِصِينَ، وہ لوگ جو عذاب سے بچے رہے، مُنْذَرِينَ (تباہ ہونے والی قوموں) کے اجمالی ذکر کے بعد اب چند مُنْذِرِينَ (پیغمبروں) کاذکر کیا جا رہا ہے۔
Arapça tefsirler:
وَلَقَدْ نَادٰىنَا نُوْحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَ ۟ؗۖ
اور ہمیں نوح (علیہ السلام) نے پکارا تو (دیکھ لو) ہم کیسے اچھے دعا قبول کرنے والے ہیں.(1)
(1) یعنی ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے باوجود جب قوم کی اکثریت نے ان کی تکذیب ہی کی اور انہوں نے محسوس کر لیا کہ ایمان لانے کی کوئی امید نہیں ہے تو اپنے رب کو پکارا«فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ» (سورة القمر: 10) ”یا اللہ میں مغلوب ہوں، میری مدد فرما“۔ چنانچہ ہم نے نوح (عليه السلام) کی دعا قبول کی اور ان کی قوم کو طوفان بھیج کر ہلاک کر دیا۔
Arapça tefsirler:
وَنَجَّیْنٰهُ وَاَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِ ۟ؗۖ
ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو(1) اس زبردست مصیبت سے بچا لیا.
(1) أَهْلٌ سے مراد، حضرت نوح (عليه السلام) پر ایمان لانے والے ہیں، جن میں ان کے گھر کے افراد بھی ہیں جو مومن تھے۔ بعض مفسرین نے ان کی کل تعداد 8۔ بتلائی ہے۔ اس میں آپ کی بیوی اور ایک لڑکا شامل نہیں، جو مومن نہیں تھے، وہ بھی طوفان میں غرق ہو گئے۔ کرب عظیم (زبردست مصیبت) سے مراد وہی سیلاب عظیم ہے جس میں یہ قوم غرق ہوئی۔
Arapça tefsirler:
وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِیْنَ ۟ؗۖ
اور اس کی اوﻻد کو ہم نے باقی رہنے والی بنا دی.(1)
(1) اکثر مفسرین کے قول کے مطابق حضرت نوح (عليه السلام) کے تین بیٹے تھے۔ حام، سام، یافث۔ انہی سے بعد کی نسل انسانی چلی۔ اسی لئے حضرت نوح (عليه السلام) کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے یعنی آدم (عليه السلام) کی طرح، آدم (عليه السلام) کے بعد یہ دوسرے ابوالبشر ہیں۔ سام کی نسل سے عرب، فارس، روم اور یہود ونصاریٰ ہیں۔ حام کی نسل سےسوڈان (مشرق سے مغرب تک) یعنی سندھ، ہند، نوب، زنج، حبشہ قبط اور بربر وغیرہم ہیں اور یافث کی نسل سے صقالبہ، ترک، خزر اور یاجوج ماجوج وغیرہم ہیں۔ (فتح القدیر) وَاللهُ أَعْلَمُ۔
Arapça tefsirler:
وَتَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ ۟ؗۖ
اور ہم نے اس کا (ذکر خیر) پچھلوں میں باقی رکھا.(1)
(1) یعنی قیامت تک آنے والے اہل ایمان میں ہم نے نوح (عليه السلام) کا ذکر خیر باقی چھوڑ دیا ہے اور وہ سب نوح (عليه السلام) پر سلام بھیجتے ہیں اور بھیجتے رہیں گے۔
Arapça tefsirler:
سَلٰمٌ عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ ۟
نوح (علیہ السلام) پر تمام جہانوں میں سلام ہو
Arapça tefsirler:
اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ۟
ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں.(1)
(1) یعنی جس طرح نوح (عليه السلام) کی دعا قبول کرکے، ان کی ذریت کو باقی رکھ اور پچھلوں میں ان کا ذکر خیر باقی رکھ کے ہم نے نوح (عليه السلام) کو عزت وتکریم بخشی۔ اسی طرح جو بھی اپنے اقوال وافعال میں محسن اور اس باب میں راسخ اور معروف ہوگا، اس کے ساتھ بھی ہم ایسا معاملہ کریں گے۔
Arapça tefsirler:
اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ ۟
وه ہمارے ایمان والے بندوں میں سے تھا.
Arapça tefsirler:
ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ ۟
پھر ہم نے دوسروں کو ڈبو دیا.
Arapça tefsirler:
وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِیْمَ ۟ۘ
اور اس (نوح علیہ السلام کی) تابعداری کرنے والوں میں سے (ہی) ابراہیم (علیہ السلام بھی) تھے.(1)
(1) شِيعَةٌ کے معنی گروہ اور پیروکار کے ہیں۔ یعنی ابراہیم (عليه السلام) بھی اہل دین واہل توحید کے اسی گروہ سے ہیں جن کو نوح (عليه السلام) ہی کی طرح انابت الی اللہ کی توفیق خاص نصیب ہوئی۔
Arapça tefsirler:
اِذْ جَآءَ رَبَّهٗ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ۟
جبکہ اپنے رب کے پاس بے عیب دل ﻻئے.
Arapça tefsirler:
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَقَوْمِهٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَ ۟ۚ
انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کیا پوج رہے ہو؟
Arapça tefsirler:
اَىِٕفْكًا اٰلِهَةً دُوْنَ اللّٰهِ تُرِیْدُوْنَ ۟ؕ
کیا تم اللہ کے سوا گھڑے ہوئے معبود چاہتے ہو؟(1)
(1) یعنی اپنی طرف سے ہی جھوٹ گھڑ کے کہ یہ معبود ہیں، تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو، دراں حالیکہ یہ پتھر اور مورتیاں ہیں۔
Arapça tefsirler:
فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۟
تو یہ (بتلاؤ کہ) تم نے رب العالمین کو کیا سمجھ رکھا ہے؟(1)
- یعنی اتنی قبیح حرکت کرنے کے باوجودکیا وہ تم پر ناراض نہیں ہوگا اور تمہیں سزا نہیں دے گا۔
Arapça tefsirler:
فَنَظَرَ نَظْرَةً فِی النُّجُوْمِ ۟ۙ
اب ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک نگاه ستاروں کی طرف اٹھائی.
Arapça tefsirler:
فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ ۟
اور کہا میں تو بیمار ہوں.(1)
(1) آسمان پر غور وفکر کے لئے دیکھا جیسا کہ بعض لوگ ایسا کرتے ہیں۔ یا اپنی قوم کے لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کے لئے ایسا کیا، جو کہ ستاروں کی گردش کو حوادث زمانہ میں موثر مانتے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے کہ جب ان کی قوم کا وہ دن آیا، جسے وہ باہر جا کر بطور عید اور قومی تہوار منایا کرتی تھی۔ قوم نے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ لیکن ابراہیم (عليه السلام) تنہائی اور موقعے کی تلاش میں تھے، تاکہ ان کے بتوں کا تیاپانچہ کیا جا سکے۔ چنانچہ انہوں نے یہ موقع غنیمت جانا کہ کل ساری قوم باہر میلے میں چلی جائے گی تو میں اپنا منصوبہ بروئے کار لے آؤں گا۔ اور کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں یا آسمانوں کی گردش بتلاتی ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں۔ یہ بات بالکل جھوٹی تو نہیں تھی، ہر انسان کچھ نہ کچھ بیمار ہوتا ہی ہے، علاوہ ازیں قوم کا شرک حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے دل کا ایک مستقل روگ تھا، جسے دیکھ کر وہ کڑھتے رہتے تھے۔ یوں حضرت ابراہیم (عليه السلام) نے تعریض اور توریے کا اظہار فرمایا جو اگرچہ جھوٹ نہیں ہوتا لیکن مخاطب اس کے متبادر مفہوم سے مغالطے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لئے حدیث ثلاث کذبات میں اسے جھوٹ سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ اس کی ضروری تفصیل سورۂ انبیاء: 63 میں گزر چکی ہے۔
Arapça tefsirler:
فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِیْنَ ۟
اس پر وه سب اس سے منھ موڑے ہوئے واپس چلے گئے.
Arapça tefsirler:
فَرَاغَ اِلٰۤی اٰلِهَتِهِمْ فَقَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ ۟ۚ
آپ (چﭗ چپاتے) ان کے معبودوں کے پاس گئے اور فرمانے لگے تم کھاتے کیوں نہیں؟(1)
(1) یعنی جو حلویات بطور تبرک وہاں پڑی ہوئی تھیں، وہ انہیں کھانے کے لئے پیش کیں، جو ظاہر بات ہے انہیں نہ کھانی تھیں نہ کھائیں بلکہ وہ جواب دینے پر بھی قادر نہ تھے، اس لئے جواب بھی نہیں دیا۔
Arapça tefsirler:
مَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُوْنَ ۟
تمہیں کیا ہو گیا کہ بات تک نہیں کرتے ہو.
Arapça tefsirler:
فَرَاغَ عَلَیْهِمْ ضَرْبًا بِالْیَمِیْنِ ۟
پھر تو (پوری قوت کے ساتھ) دائیں ہاتھ سے انہیں مارنے پر پل پڑے.(1)
(1) رَاغَ کے معنی ہیں، مَالَ، ذَهَبَ، أَقْبَلَ، یہ سب متقارب المعنی ہیں، ان کی طرف متوجہ ہوئے ضَرْبٌ بِالْيَمِينِ کا مطلب ہے ان کو زور سے مار مار کر توڑ ڈالنا۔
Arapça tefsirler:
فَاَقْبَلُوْۤا اِلَیْهِ یَزِفُّوْنَ ۟
وه (بت پرست) دوڑے بھاگے آپ کی طرف متوجہ(1) ہوئے.
(1) يَزِفُّونَ، يُسْرِعُونَ، یسرعون کے معنی میں ہے، دوڑتے ہوئے آئے۔ یعنی جب میلے سے آئے تو دیکھا کہ ان کے معبود ٹوٹے پھوٹے پڑے ہیں تو فوراً ان کا ذہن ابراہیم (عليه السلام) کی طرف گیا، کہ یہ کام اسی نے کیا ہوگا،جیسا کہ سورۂ انبیاء میں تفصیل گزر چکی ہے چنانچہ انہیں پکڑ کر عوام کی عدالت میں لے آئے۔ وہاں حضرت ابراہیم (عليه السلام) کو اس بات کا موقع مل گیا کہ وہ ان پر ان کی بے عقلی اور ان کے معبودوں کی بے اختیاری واضح کریں۔
Arapça tefsirler:
قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ ۟ۙ
تو آپ نے فرمایا تم انہیں پوجتے ہو جنہیں (خود) تم تراشتے ہو.
Arapça tefsirler:
وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ۟
حاﻻنکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے.(1)
(1) یعنی وہ مورتیاں اور تصویریں بھی جنہیں تم اپنے ہاتھوں سے بناتے اور انہیں معبود سمجھتے ہو، یا مطلق تمہارا عمل جو بھی تم کرتے ہو، ان کا خالق بھی اللہ ہے۔ اس سے واضح ہے کہ بندوں کے افعال کا خالق اللہ ہی ہے، جیسا کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے۔
Arapça tefsirler:
قَالُوا ابْنُوْا لَهٗ بُنْیَانًا فَاَلْقُوْهُ فِی الْجَحِیْمِ ۟
وه کہنے لگے اس کے لئے ایک مکان بناؤ اور اس (دہکتی ہوئی) آگ میں اسے ڈال دو.
Arapça tefsirler:
فَاَرَادُوْا بِهٖ كَیْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَسْفَلِیْنَ ۟
انہوں نے تو اس (ابراہیم علیہ السلام) کے ساتھ مکر کرنا چاہا لیکن ہم نے انہی کو نیچا کر دیا.(1)
(1) یعنی آگ کو گلزار بنا کر ان کے مکرو حیلے کو ناکام بنا دیا، پس پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندوں کی چارہ سازی فرماتا ہے، اور آزمائش کو عطا میں اور شر کو خیر میں بدل دیتا ہے۔
Arapça tefsirler:
وَقَالَ اِنِّیْ ذَاهِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ ۟
اور اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میں تو ہجرت کر کے اپنے پروردگار کی طرف جانے واﻻ ہوں(1) ۔ وه ضرور میری رہنمائی کرے گا.
(1) حضرت ابراہیم (عليه السلام) کا یہ واقعہ بابل (عراق) میں پیش آیا، بالآخر یہاں سے ہجرت کی اور شام چلے گئے اور وہاں جاکر اولاد کے لئےدعا کی۔(فتح القدیر)۔
Arapça tefsirler:
رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ۟
اے میرے رب! مجھے نیک بخت اوﻻد عطا فرما.
Arapça tefsirler:
فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ ۟
تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی.(1)
(1) حَلِيمٍ کہہ کر اشارہ فرما دیا کہ بچہ بڑا ہو کر بردبار ہوگا۔
Arapça tefsirler:
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی ؕ— قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ؗ— سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ ۟
پھر جب وه (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے(1) ، تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے(2)؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا ﻻئیے انشاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے.
(1) یعنی دوڑ دھوپ کےلائق ہوگیا یا بلوغت کے قریب پہنچ گیا، بعض کہتے ہیں کہ اس وقت یہ بچہ 13 سال کا تھا۔
(2) پیغمبر کا خواب، وحی اور حکم الٰہی ہی ہوتا ہے۔جس پر عمل ضروری ہوتا ہے۔ بیٹے سے مشورے کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بیٹا بھی امتثال امر الہٰی کے لئے کس حد تک تیار ہے۔
Arapça tefsirler:
فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِ ۟ۚ
غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس نے (باپ نے) اس کو (بیٹے کو) پیشانی(1) کے بل گرا دیا.
(1) ہر انسان کے منہ (چہرے) پر دو جبینیں (دائیں اور بائیں) ہوتی ہیں اور درمیان میں پیشانی (جَبْهَةٌ) اس لئے لِلْجَبِينِ کا زیادہ صحیح ترجمہ (کروٹ پر) ہے یعنی اس طرح کروٹ پر لٹا لیا، جس طرح جانور کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ پر لٹایا جاتا ہے۔ (پیشانی یا منہ کے بل لٹانے کاﹿ ترجمہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ مشہور ہے حضرت اسماعیل (عليه السلام) نے وصیت کی کہ انہیں اس طرح لٹایا جائے کہ چہرہ سامنے نہ رہے جس سے پیار وشفقت کا جذبہ امر الہٰی پر غالب آنےکا امکان نہ رہے۔
Arapça tefsirler:
وَنَادَیْنٰهُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰهِیْمُ ۟ۙ
تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم!
Arapça tefsirler:
قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَا ۚ— اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ۟
یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا(1) ، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں.
(1) یعنی دل کےپورےارادے سے بچے کو ذبح کرنے کے لئے زمین پر لٹا دینے سے ہی تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہے، کیونکہ اس سے واضح ہو گیا کہ اللہ کے حکم کے مقابلے میں تجھے کوئی چیز بھی عزیز تر نہیں ہے، حتیٰ کہ اکلوتا بیٹا بھی۔
Arapça tefsirler:
اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ ۟
درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا.(1)
(1) یعنی لاڈلے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم، یہ ایک بڑی آزمائش تھی جس میں تو سرخرو رہا۔
Arapça tefsirler:
وَفَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ ۟
اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا.(1)
(1) یہ بڑا ذبیحہ ایک مینڈھا تھا جو اللہ تعالیٰ نے جنت سے حضرت جبرائیل (عليه السلام) کے ذریعے سے بھیجا۔ (ابن کثیر) اسماعیل (عليه السلام) کی جگہ اسے ذبح کیا گیا اور پھر اس سنت ابراہمی کو قیامت تک قرب الہٰی کے حصول کے لئے ایک ذریعہ اور عیدالاضحیٰ کا سب سے پسندیدہ عمل قرار دے دیا گیا۔
Arapça tefsirler:
وَتَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ ۟ؗ
اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا.
Arapça tefsirler:
سَلٰمٌ عَلٰۤی اِبْرٰهِیْمَ ۟
ابراہیم (علیہ السلام) پر سلام ہو.
Arapça tefsirler:
كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ۟
ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں.
Arapça tefsirler:
اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ ۟
بیشک وه ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا.
Arapça tefsirler:
وَبَشَّرْنٰهُ بِاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ ۟
اور ہم نے اس کو اسحاق (علیہ السلام) نبی کی بشارت دی جو صالح لوگوں میں سے ہوگا.(1)
(1) حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے مذکورہ واقعے کے بعد اب ایک بیٹے اسحاق (عليه السلام) کی اور اس کے نبی ہونے کی خوش خبری دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے جس بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا، وہ اسماعیل (عليه السلام) تھے۔ جو اس وقت ابراہیم (عليه السلام) کے اکلوﺗے بیٹے تھے، اسحاق (عليه السلام) کی ولادت ان کے بعد ہوئی ہے۔ مفسرین کے درمیان اس کی بابت اختلاف ہے کہ ذبیح کون ہے، اسماعیل (عليه السلام) یا اسحاق (عليه السلام) ؟ امام ابن جریر نے حضرت اسحاق (عليه السلام) کو اور ابن کثیر اور اکثر مفسرین نے حضرت اسماعیل (عليه السلام) کو ذبیح قرار دیا ہے اور یہی بات صحیح ہے۔ امام شوکانی نے اس میں توقف اختیار کیا ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر فتح القدیر اور تفسیر ابن کثیر)۔
Arapça tefsirler:
وَبٰرَكْنَا عَلَیْهِ وَعَلٰۤی اِسْحٰقَ ؕ— وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَّظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ مُبِیْنٌ ۟۠
اور ہم نے ابراہیم واسحاق (علیہ السلام) پر برکتیں نازل فرمائیں(1) ، اور ان دونوں کی اوﻻد میں بعضے تو نیک بخت ہیں اور بعض اپنے نفس پر صریح ﻇلم کرنے والے ہیں.(2)
(1) یعنی ان دونوں کی اولاد کو بہت پھیلایا اور انبیا ورسل کی زیادہ تعداد انہی کی نسل سے ہوئی۔ حضرت اسحاق (عليه السلام) کے بیٹے یعقوب (عليه السلام) ہوئے، جن کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے 12 قبیلے بنے اور ان سے بنی اسرائیل کی قوم بڑھی اور پھیلی اور اکثر انبیا ان ہی میں سے ہوئے۔ حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے دوسرے بیٹے اسماعیل (عليه السلام) سے عربوں کی نسل چلی اور ان میں آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ہوئے۔
(2) شرک ومعصیت اور ظلم وفساد کا ارتکاب کرکے۔ خاندان ابراہیمی میں برکت کے باوجود نیک وبد کے ذکر سے اس طرف اشارہ کر دیا کہ خاندان اور آبا کی نسبت، اللہ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ وہاں تو ایمان اور عمل صالح کی اہمیت ہے۔ یہود ونصاریٰ اگرچہ حضرت اسحاق (عليه السلام) کی اولاد سے ہیں۔ اسی طرح مشرکین عرب حضرت اسماعیل (عليه السلام) کی اولاد سے ہیں۔ لیکن ان کے جو اعمال ہیں وہ کھلی گمراہی یا شرک ومعصیت پر مبنی ہیں۔ اس لئے یہ اونچی نسبتیں ان کے لئے عمل کا بدل نہیں ہو سکتیں۔
Arapça tefsirler:
وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰی مُوْسٰی وَهٰرُوْنَ ۟ۚ
یقیناً ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) پر بڑا احسان کیا.(1)
(1) یعنی انہیں نبوت ورسالت اور دیگر انعامات سے نوازا۔
Arapça tefsirler:
وَنَجَّیْنٰهُمَا وَقَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِ ۟ۚ
اور انہیں اور ان کی قوم کو بہت بڑے دکھ درد سے نجات دے دی.(1)
(1) یعنی فرعون کی غلامی اور اس کے ظلم واستبداد سے۔
Arapça tefsirler:
وَنَصَرْنٰهُمْ فَكَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِیْنَ ۟ۚ
اور ان کی مدد کی تو وہی غالب رہے.
Arapça tefsirler:
وَاٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَ ۟ۚ
اور ہم نے انہیں (واضح اور) روشن کتاب دی.
Arapça tefsirler:
وَهَدَیْنٰهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۟ۚ
اور انہیں سیدھے راستہ پرقائم رکھا.
Arapça tefsirler:
وَتَرَكْنَا عَلَیْهِمَا فِی الْاٰخِرِیْنَ ۟ۙۖ
اور ہم نے ان دونوں کے لئے پیچھے آنے والوں میں یہ بات باقی رکھی.
Arapça tefsirler:
سَلٰمٌ عَلٰی مُوْسٰی وَهٰرُوْنَ ۟
کہ موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) پر سلام ہو.
Arapça tefsirler:
اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ۟
بے شک ہم نیک لوگوں کو اسی طرح بدلے دیا کرتے ہیں.
Arapça tefsirler:
اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ ۟
یقیناً یہ دونوں ہمارے مومن بندوں میں سے تھے.
Arapça tefsirler:
وَاِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۟ؕ
بے شک الیاس (علیہ السلام) بھی پیغمبروں میں سے تھے(1)
(1) یہ حضرت ہارون (عليه السلام) کی اولاد میں سے ایک اسرائیلی نبی تھے۔ یہ جس علاقے میں بھیجے گئے تھے اس کا نام بعلبک تھا، بعض کہتے ہیں اس جگہ کا نام سامرہ ہے جوفلسطین کا مغربی وسطی علاقہ ہے۔ یہاں کے لوگ بعل نامی بت کے پجاری تھے۔(بعض کہتے ہیں یہ دیوی کا نام تھا)۔
Arapça tefsirler:
اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَلَا تَتَّقُوْنَ ۟
جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟(1)
(1) یعنی اس کے عذاب اور گرفت سے، کہ اسے چھوڑ کر تم غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو۔
Arapça tefsirler:
اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ ۟ۙ
کیا تم بعل (نامی بت) کو پکارتے ہو؟ اور سب سے بہتر خالق کو چھوڑ دیتے ہو؟
Arapça tefsirler:
اللّٰهَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ اٰبَآىِٕكُمُ الْاَوَّلِیْنَ ۟
اللہ جو تمہارا اور تمہارے اگلے تمام باپ دادوں کا رب ہے.(1)
(1) یعنی اس کی عبادت وپرستش کرتے ہو، اس کے نام کی نذر نیاز دیتے اور اس کو حاجت روا سمجھتے ہو، جو پتھر کی مورتی ہے اور جو ہر چیز کا خالق اور اگلوں پچھلوں سب کا رب ہے، اس کو تم نے فراموش کر رکھا ہے۔
Arapça tefsirler:
فَكَذَّبُوْهُ فَاِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ ۟ۙ
لیکن قوم نے انہیں جھٹلایا، پس وه ضرور (عذاب میں) حاضر رکھے(1) جائیں گے.
(1) یعنی توحید وایمان سے انکار کی پاداش میں جہنم کی سزا بھگتیں گے۔
Arapça tefsirler:
اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ ۟
سوائے اللہ تعالی کے مخلص بندوں کے.
Arapça tefsirler:
وَتَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ ۟ۙ
ہم نے (الیاس علیہ السلام) کا ذکر خیر پچھلوں میں بھی باقی رکھا.
Arapça tefsirler:
سَلٰمٌ عَلٰۤی اِلْ یَاسِیْنَ ۟
کہ الیاس پر سلام ہو.(1)
(1) الیاسین، الیاس (عليه السلام) ہی کا ایک تلفظ ہے، جیسے طور سینا کو طور سینین بھی کہتے ہیں۔ حضرت الیاس (عليه السلام) کو دوسری کتابوں میں (ایلیا) بھی کہا گیا ہے۔
Arapça tefsirler:
اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ۟
ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں.(1)
Arapça tefsirler:
اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ ۟
بیشک وه ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھے.(1)
(1) قرآن نے نبیوں اور رسولوں کا ذکر کرکے، ان کے لئے اکثر جگہ پر الفاظ استعمال کیے ہیں کہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سےتھا۔ جس سےدو مقصد ہیں۔ ایک ان کے اخلاق وکردار کی رفعت کا اظہار جو ایمان کا لازمی جز ہے۔ تاکہ ان لوگوں کی تردید ہو جائے جو بہت سے پیغمبروں کے بارے میں اخلاقی کمزوریوں کا اثبات کرتے ہیں، جیسے تورات وانجیل کے موجودہ نسخوں میں متعدد پیغمبروں کے بارے میں ایسے من گھڑت قصے کہانیاں درج ہیں۔ دوسرا مقصد ان لوگوں کی تردید ہے جو بعض انبیا کی شان میں غلو کرکے ان کے اندر الہی صفات واختیارات ثابت کرتے ہیں۔ یعنی وہ پیغمبر ضرور تھے لیکن تھے بہرحال اللہ کے بندے اور اس کے غلام نہ کہ الٰہ یا اس کے جز یا اس کے شریک۔
Arapça tefsirler:
وَاِنَّ لُوْطًا لَّمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۟ؕ
بیشک لوط (علیہ السلام بھی) پیغمبروں میں سے تھے.
Arapça tefsirler:
اِذْ نَجَّیْنٰهُ وَاَهْلَهٗۤ اَجْمَعِیْنَ ۟ۙ
ہم نے انہیں اور ان کے گھر والوں کو سب کو نجات دی.
Arapça tefsirler:
اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغٰبِرِیْنَ ۟
بجز اس بڑھیا کے جو پیچھے ره جانے والوں میں سے ره گئی.(1)
(1) اس سے مراد حضرت لوط (عليه السلام) کی بیوی ہے جو کافرہ تھی، یہ اہل ایمان کے ساتھ بستی سے باہر نہیں گئی تھی، کیونکہ اسےاپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہونا تھا، چنانچہ وہ بھی ہلاک کر دی گئی۔
Arapça tefsirler:
ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِیْنَ ۟
پھر ہم نے اوروں کو ہلاک کر دیا.
Arapça tefsirler:
وَاِنَّكُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْهِمْ مُّصْبِحِیْنَ ۟ۙ
اور تم تو صبح ہونے پر ان کی بستیوں کے پاس سے گزرتے ہو.
Arapça tefsirler:
وَبِالَّیْلِ ؕ— اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۟۠
اور رات کو بھی، کیا پھر بھی نہیں سمجھتے؟(1)
(1) یہ اہل مکہ سے خطاب ہے جو تجارتی سفر میں ان تباہ شدہ علاقوں سے آتے جاتے، گزرتے تھے۔ ان کو کہا جا رہا ہے کہ تم صبح کے وقت بھی اور رات کے وقت بھی ان بستیوں سےگزرتے ہو، جہاں اب مردار بحیرہ ہے، جو دیکھنے میں بھی نہایت کریہ ہے اور سخت متعفن اور بدبو دار۔ کیا تم انہیں دیکھ کر یہ بات نہیں سمجھتے کہ تکذیب رسل کی وجہ سے ان کا یہ بدانجام ہوا، تو تمہاری اس روش کا انجام بھی اس سے مختلف کیوں کر ہوگا؟ جب تم بھی وہی کام کر رہے ہو، جو انہوں نے کیا تو پھر اللہ کے عذاب سے کیوں کر محفوظ رہو گے؟
Arapça tefsirler:
وَاِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۟ؕ
اور بلاشبہ یونس (علیہ السلام) نبیوں میں سے تھے.
Arapça tefsirler:
اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ ۟ۙ
جب بھاگ کر پہنچے بھری کشتی پر.
Arapça tefsirler:
فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ ۟ۚ
پھر قرعہ اندازی ہوئی تو یہ مغلوب ہوگئے.
Arapça tefsirler:
فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَهُوَ مُلِیْمٌ ۟
تو پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا اور وه خود اپنے آپ کو ملامت(1) کرنے لگ گئے.
(1) حضرت یونس (عليه السلام) عراق کے علاقے نینوی (موجودہ موصل) میں نبی بنا کر بھیجے گئے تھے، یہ آشوریوں کا پایۂ تخت تھا، انہوں نے ایک لاکھ بنو اسرائیلیوں کو قیدی بنایا ہوا تھا، چنانچہ ان کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف حضرت یونس (عليه السلام) کو بھیجا، لیکن یہ قوم آپ پر ایمان نہیں لائی۔ بالآخر اپنی قوم کو ڈرایا کہ عنقریب تم عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاؤ گے۔ عذاب میں تاخیر ہوئی تو اللہ کی اجازت کے بغیر ہی اپنے طور پر وہاں سے نکل گئے اور سمندر پر جا کر ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ اپنے علاقے سے نکل کر جانے کو ایسے لفظ سے تعبیر کیا جس طرح ایک غلام اپنے آقا سے بھاگ کر چلا جاتا ہے۔ کیونکہ آپ بھی اللہ کی اجازت کے بغیر ہی اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ کشتی سواروں اور سامانوں سے بھری ہوئی تھی۔ کشتی سمندر کی موجوں میں گھر گئی اور کھڑی ہوگئی۔ چنانچہ اس کا وزن کم کرنے کے لئے ایک آدھ آدمی کو کشتی سے سمندر میں پھینکنے کی تجویزسامنے آئی تاکہ کشتی میں سوار دیگر انسانوں کی جانیں بچ جائیں۔ لیکن یہ قربانی دینے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا۔ اس لئے قرعہ اندازی کرنی پڑی، جس میں حضرت یونس (عليه السلام) کا نام آیا۔ اور وہ مغلوبین میں سے ہو گئے، یعنی طوعاً وکرھاً اپنے کو بھاگے ہوئے غلام کی طرح سمندر کی موجوں کے سپرد کرنا پڑا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیں ثابت نگل لے اور یوں حضرت یونس (عليه السلام) اللہ کے حکم سے مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے۔
Arapça tefsirler:
فَلَوْلَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ ۟ۙ
پس اگر یہ پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے.
Arapça tefsirler:
لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِهٖۤ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ۟ۚ
تو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس کے پیٹ میں ہی رہتے.(1)
(1) یعنی توبہ واستغفار اور اللہ کی تسبیح بیان نہ کرتے، جیسا کہ انہوں نے «لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ» (الأنبياء: 87) کہا تو قیامت تک وہ مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے۔
Arapça tefsirler:
فَنَبَذْنٰهُ بِالْعَرَآءِ وَهُوَ سَقِیْمٌ ۟ۚ
پس انہیں ہم نے چٹیل میدان میں ڈال دیا اور وه اس وقت بیمار تھے.(1)
(1) جیسے ولادت کے وقت بچہ یا جانور کا چوزہ ہوتا ہے، مضمحل، کمزور اور ناتواں۔
Arapça tefsirler:
وَاَنْۢبَتْنَا عَلَیْهِ شَجَرَةً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ ۟ۚ
اور ان پر سایہ کرنے واﻻ ایک بیل دار درخت(1) ہم نے اگا دیا.
(1) يَقْطِين ہر اس بیل کو کہتے ہیں جو اپنے تنے پر کھڑی نہیں ہوتی، جیسے لوکی، کدو وغیرہ کی بیل۔ یعنی اس چٹیل میدان میں جہاں کوئی درخت تھا نہ عمارت۔ ایک سایہ دار بیل اگا کر ہم نے ان کی حفاظت فرمائی۔
Arapça tefsirler:
وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰی مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ ۟ۚ
اور ہم نے انہیں ایک لاکھ بلکہ اور زیاده آدمیوں کی طرف بھیجا.
Arapça tefsirler:
فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰی حِیْنٍ ۟ؕ
پس وه ایمان ﻻئے(1) ، اور ہم نے انہیں ایک زمانہ تک عیش وعشرت دی.
(1) ان کے ایمان لانے کی کیفیت کا بیان سورۂ یونس 98 میں گزر چکا ہے۔
Arapça tefsirler:
فَاسْتَفْتِهِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُوْنَ ۟ۙ
ان سے دریافت کیجئے! کہ کیا آپ کے رب کی تو بیٹیاں ہیں اور ان کے بیٹے ہیں؟
Arapça tefsirler:
اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰٓىِٕكَةَ اِنَاثًا وَّهُمْ شٰهِدُوْنَ ۟
یا یہ اس وقت موجود تھے جبکہ ہم نے فرشتوں کو مؤنﺚ پیدا کیا.(1)
(1) یعنی فرشتوں کو جویہ اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں تو کیا جب ہم نےفرشتے پیدا کیے تھے، یہ اس وقت وہاں موجود تھے اور انہوں نے فرشتوں کے اندر عورتوں والی خصوصیات کا مشاہدہ کیا تھا۔
Arapça tefsirler:
اَلَاۤ اِنَّهُمْ مِّنْ اِفْكِهِمْ لَیَقُوْلُوْنَ ۟ۙ
آگاه رہو! کہ یہ لوگ صرف اپنی افترا پردازی سے کہہ رہے ہیں.
Arapça tefsirler:
وَلَدَ اللّٰهُ ۙ— وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ۟
کہ اللہ تعالی کی اوﻻد ہے۔ یقیناً یہ محض جھوٹے ہیں.
Arapça tefsirler:
اَصْطَفَی الْبَنَاتِ عَلَی الْبَنِیْنَ ۟ؕ
کیا اللہ تعالی نے اپنے لیے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی.(1)
(1) جب کہ یہ خود اپنے لئے بیٹیاں نہیں، بیٹے پسند کرتے ہیں۔
Arapça tefsirler:
مَا لَكُمْ ۫— كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ ۟
تمہیں کیا ہو گیا ہے کیسے حکم لگاتے پھرتے ہو؟
Arapça tefsirler:
اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ۟ۚ
کیا تم اس قدر بھی نہیں سمجھتے؟(1)
(1) کہ اگر اللہ کی اولاد ہوتی تو ذکور ہوتی، جس کو تم بھی پسند کرتے اور بہتر سمجھتے ہو، نہ کہ بیٹیاں، جو تمہاری نظروں میں کمتر اور حقیر ہیں۔
Arapça tefsirler:
اَمْ لَكُمْ سُلْطٰنٌ مُّبِیْنٌ ۟ۙ
یا تمہارے پاس اس کی کوئی صاف دلیل ہے.
Arapça tefsirler:
فَاْتُوْا بِكِتٰبِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۟
تو جاؤ اگر سچے ہو تو اپنی ہی کتاب لے آؤ.(1)
(1) یعنی عقل تو اس عقیدے کی صحت کو تسلیم نہیں کرتی کہ اللہ کی اولاد ہے اور وہ بھی مونث، چلو کوئی نقلی دلیل ہی دکھا دو، کوئی کتاب جو اللہ نے اتاری ہو، اس میں اللہ کی اولاد کا اعتراف یا حوالہ ہو؟
Arapça tefsirler:
وَجَعَلُوْا بَیْنَهٗ وَبَیْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا ؕ— وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ ۟ۙ
اور ان لوگوں نے تو اللہ کے اور جنات کے درمیان بھی قرابت داری ٹھہرائی(1) ہے، اور حاﻻنکہ خود جنات کو معلوم ہے کہ وه (اس عقیده کے لوگ عذاب کے سامنے) پیش کیے جائیں گے.(2)
(1) یہ اشارہ ہے مشرکین کے اس عقیدے کی طرف کہ اللہ نےجنات کے ساتھ رشتہ ازدواج قائم کیا، جس سے لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ یہی بنات اللہ، فرشتے ہیں۔ یوں اللہ تعالیٰ اور جنوں کے درمیان قرابت داری (سسرالی رشتہ) قائم ہوگیا۔
(2) حالانکہ یہ بات کیوں کر صحیح ہو سکتی ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ جنات کو عذاب میں کیوں ڈالتا؟ کیا وہ اپنی قرابت داری کا لحاظ نہ کرتا؟ اور اگر ایسا نہیں ہے بلکہ خود جنات بھی جانتے ہیں کہ انہیں عقاب وعذاب الٰہی بھگتنے کے لئے ضرور جہنم میں جانا ہوگا، تو پھر اللہ اور جنوں کے درمیان قرابت داری کس طرح ہو سکتی ہے؟
Arapça tefsirler:
سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ۟ۙ
جو کچھ یہ (اللہ کے بارے میں) بیان کر رہے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ بالکل پاک ہے.
Arapça tefsirler:
اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ ۟
سوائے! اللہ کے مخلص بندوں کے.(1)
(1) یعنی یہ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں نہیں کہتے جن سے وہ پاک ہے۔ یہ مشرکین ہی کا شیوہ ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ جہنم میں جنات اور مشرکین ہی حاضر کیے جائیں گے، اللہ کے مخلص (چنے ہوئے) بندے نہیں۔ ان کے لئے تو اللہ نےجنت تیار کر رکھی ہے۔ اس صورت میں یہ لَمُحْضَرُون سے استثنا ہے اور تسبیح جملہ معترضہ ہے۔
Arapça tefsirler:
فَاِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ ۟ۙ
یقین مانو کہ تم سب اور تمہارے معبودان (باطل).
Arapça tefsirler:
مَاۤ اَنْتُمْ عَلَیْهِ بِفٰتِنِیْنَ ۟ۙ
کسی ایک کو بھی بہکا نہیں سکتے.
Arapça tefsirler:
اِلَّا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِیْمِ ۟
بجز اس کے جو جہنمی ہی ہے.(1)
(1) یعنی تم اور تمہارے معبودان باطلہ کسی کو گمراہ کرنے پر قادر نہیں ہیں،سوائے ان کے جو اللہ کے علم میں پہلے ہی جہنمی ہیں۔ اور اسی وجہ سے وہ کفر وشرک پر مصر ہیں۔
Arapça tefsirler:
وَمَا مِنَّاۤ اِلَّا لَهٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ ۟ۙ
(فرشتوں کا قول ہے کہ) ہم میں سے تو ہر ایک کی جگہ مقرر ہے.(1)
(1) یعنی اللہ کی عبادت کے لئے۔ یہ فرشتوں کا قول ہے۔
Arapça tefsirler:
وَّاِنَّا لَنَحْنُ الصَّآفُّوْنَ ۟ۚ
اور ہم تو (بندگیٴ الٰہی میں) صف بستہ کھڑے ہیں.
Arapça tefsirler:
وَاِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْنَ ۟
اور اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں.(1)
(1) مطلب یہ ہے کہ فرشتے بھی اللہ کی مخلوق اور اس کے خاص بندے ہیں جو ہر وقت اللہ کی عبادت میں اور اس کی تسبیح وتقدیس میں مصروف رہتے ہیں، نہ کہ وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں۔
Arapça tefsirler:
وَاِنْ كَانُوْا لَیَقُوْلُوْنَ ۟ۙ
کفار تو کہا کرتے تھے.
Arapça tefsirler:
لَوْ اَنَّ عِنْدَنَا ذِكْرًا مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ ۟ۙ
کہ اگر ہمارے سامنے اگلے لوگوں کا ذکر ہوتا.
Arapça tefsirler:
لَكُنَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ ۟
تو ہم بھی اللہ کے چیده بندے بن جاتے.(1)
(1) ذکر سے مراد کوئی کتاب الٰہی یا پیغمبر ہے۔ یعنی یہ کفار نزول قرآن سے پہلے کہا کرتے تھے کہ ہمارے پاس بھی کوئی آسمانی کتاب ہوتی، جس طرح پہلے لوگوں پر تورات وغیرہ نازل ہوئیں۔ یا کوئی ہادی اور منذر ہمیں وعظ ونصیحت کرنے والا ہوتا، تو ہم بھی اللہ کے خالص بندے بن جاتے۔
Arapça tefsirler:
فَكَفَرُوْا بِهٖ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ۟
لیکن پھر اس قرآن کے ساتھ کفر کر گئے(1) ، پس اب عنقریب جان لیں گے.(2)
(1) یعنی ان کی آرزو کے مطابق جب رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ہادی بن کر آگئے،قرآن مجید بھی نازل کر دیا گیا تو ان پر ایمان لانے کے بجائے، ان کا انکار کر دیا۔
(2) یہ تہدید و وعید ہے کہ اس تکذیب کا انجام عنقریب ان کو معلوم ہو جائے گا۔
Arapça tefsirler:
وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ ۟ۚۖ
اور البتہ ہمارا وعده پہلے ہی اپنے رسولوں کے لئے صادر ہو چکا ہے.
Arapça tefsirler:
اِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ ۪۟
کہ یقیناً وه ہی مدد کیے جائیں گے.
Arapça tefsirler:
وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ ۟
اور ہمارا ہی لشکر غالب (اور برتر) رہے گا.(1)
(1) جیسے دوسرے مقام پر فرمایا، «كَتَبَ اللَّهُ لأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي» (المجادلة: 21)۔
Arapça tefsirler:
فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتّٰی حِیْنٍ ۟ۙ
اب آپ کچھ دنوں تک ان سے منھ پھیر لیجئے.(1)
(1) یعنی ان کی باتوں اور ایذاؤں پر صبر کیجئے۔
Arapça tefsirler:
وَّاَبْصِرْهُمْ فَسَوْفَ یُبْصِرُوْنَ ۟
اور انہیں دیکھتے رہیئے(1) ، اور یہ بھی آگے چل کر دیکھ لیں گے.
(1) کہ کب ان پر اللہ کا عذاب آتا ہے؟
Arapça tefsirler:
اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ ۟
کیا یہ ہمارے عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں؟
Arapça tefsirler:
فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَآءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِیْنَ ۟
سنو! جب ہمارا عذاب ان کے میدان میں اتر آئے گا اس وقت ان کی جن کو متنبہ کر دیا گیا تھا(1) بڑی بری صبح ہوگی.
(1) مسلمان جب خیبر پر حملہ کرنے گئے، تو یہودی انہیں دیکھ کر گھبرا گئے، جس پر نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی اللہ اکبر کہہ کر فرمایا تھا ”خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحِةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ“ (صحيح بخاري ، كتاب الصلاة، باب ما يذكر في الفخذ، مسلم ، كتاب الجهاد باب غزوة خيبر)۔
Arapça tefsirler:
وَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتّٰی حِیْنٍ ۟ۙ
آپ کچھ وقت تک ان کا خیال چھوڑ دیجئے.
Arapça tefsirler:
وَّاَبْصِرْ فَسَوْفَ یُبْصِرُوْنَ ۟
اور دیکھتے رہئیے یہ بھی ابھی ابھی دیکھ لیں گے.(1)
(1) یہ بطور تاکید دوبارہ فرمایا۔ یا پہلے جملے سےمراد دنیا کا وہ عذاب ہے جو اہل مکہ پر بدر واحد اور دیگر جنگوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں کافروں کے قتل وسلب کی صورت میں آیا۔ اور دوسرے جملے میں اس عذاب کا ذکر ہے جس سے یہ کفار ومشرکین آخرت میں دوچار ہوں گے۔
Arapça tefsirler:
سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ۟ۚ
پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت واﻻ ہے ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں.(1)
(1) اس میں عیوب ونقائص سےاللہ کے پاکیزہ ہونے کا بیان ہےجو مشرکین اللہ کے لئےبیان کرتے ہیں، مثلاً اس کی اولاد ہے، یا اس کا کوئی شریک ہے۔ یہ کوتاہیاں بندوں کے اندر ہیں اور اولاد یا شریکوں کے ضرورت مند بھی وہی ہیں، اللہ ان سب باتوں سے بہت بلند اور پاک ہے۔ کیونکہ وہ کسی کا محتاج ہی نہیں ہے کہ اسے اولادکی یا کسی شریک کی ضرورت پیش آئے۔
Arapça tefsirler:
وَسَلٰمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ ۟ۚ
پیغمبروں پر سلام ہے.(1)
(1) کہ انہوں نے اللہ کا پیغام اہل دنیا کی طرف پہنچایا، جس پر یقیناً وہ سلام وتبریک کے مستحق ہیں۔
Arapça tefsirler:
وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۟۠
اور سب طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے.(1)
(1) یہ بندوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اللہ نے تم پر احسان کیا ہے، پیغمبر بھیجے، کتابیں نازل کیں اورپیغمبروں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچایا ، اس لئے تم اللہ کا شکر ادا کرو۔ بعض کہتے ہیں کہ کافروں کو ہلاک کرکےاہل ایمان اور پیغمبروں کو بچایا، اس پر شکر الٰہی کرو۔ حمد کے معنی ہیں بہ قصد تعظیم ثناء جمیل، ذکر خیر اور عظمت شان بیان کرنا۔
Arapça tefsirler:
 
Anlam tercümesi Sure: Sûratu's-Saffât
Surelerin fihristi Sayfa numarası
 
Kur'an-ı Kerim meal tercümesi - Urduca Kur'an-ı Kerim Meali - Mealler fihristi

Urduca Kur'an-ı Kerim Meali- Tercüme Muhammed İbrahim Cunakiri, Medine-i Münevvere'deki Kral Fahd Kur'an-ı Kerim Basım Kompleksi tarafından yayınlanmıştır. Basım Yılı hicri 1417. Not: Belirtilen bazı ayetlerin tercümesi Ravad Tercüme Merkezi tarafından düzeltilmiştir. Değerlendirme, görüş belirtme ve gelişimin devamlı olabilmesi için orijinal tercümeye erişim sağlanmaktadır.

Kapat