Check out the new design

Kur'an-ı Kerim meal tercümesi - Urduca Tercüme - Muhammed Conakri * - Mealler fihristi

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Anlam tercümesi Sure: Sûretu Fussilet   Ayet:
اِلَیْهِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ؕ— وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرٰتٍ مِّنْ اَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُ وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِهٖ ؕ— وَیَوْمَ یُنَادِیْهِمْ اَیْنَ شُرَكَآءِیْ ۙ— قَالُوْۤا اٰذَنّٰكَ ۙ— مَا مِنَّا مِنْ شَهِیْدٍ ۟ۚ
قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹایا جاتا ہے(1) اور جو جو پھل اپنے شگوفوں میں سے نکلتے ہیں اور جو ماده حمل سے ہوتی ہے اور جو بچے وه جنتی ہے سب کا علم اسے ہے(2) اور جس دن اللہ تعالیٰ ان (مشرکوں) کو بلا کر دریافت فرمائے گا میرے شریک کہاں ہیں، وه جواب دیں گے کہ ہم نے تو تجھے کہہ سنایا کہ ہم میں سے تو کوئی اس کا گواه نہیں.(3)
(1) یعنی اللہ کے سوا اس کے وقوع کا کسی کو علم نہیں۔ اسی لیے جب حضرت جبرائیل (عليه السلام) نےنبی کریم (صلى الله عليه وسلم) سے قیامت کے واقع ہونے کے بارے میں پوچھا تھا تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا تھا «مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ»، (اس کی بابت مجھے بھی اتنا ہی علم ہے جتنا تجھے ہے، میں تجھ سے زیادہ نہیں جانتا۔ دوسرے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «إِلَى رَبِّكَ مُنْتَهَاهَا» (النازعات: 44) «لا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلا هُوَ» (الأعراف: 187)۔
(2) یہ اللہ کے علم کامل و محیط کا بیان ہے اور اس کی اس صفت علم میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ یعنی اس طرح کا علم کامل کسی کو حاصل نہیں۔ حتیٰ کہ انبیا علیہم السلام کو بھی نہیں۔ انہیں بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ انہیں وحی کے ذریعے سے بتلا دیتا ہے۔ اور اس علم و حی کا تعلق بھی منصب نبوت اور اس کے تقاضوں کی ادائیگی سے متعلق ہی ہوتا ہے نہ کہ دیگر فنون ومعاملات سے متعلق۔ اس لیےکسی بھی نبی اور رسول کو، چاہے وہ کتنی ہی عظمت شان کا حامل ہو، عَالِمُ مَا كَانَ وَمَا يَكُون ُ کہنا جائز نہیں۔ کیونکہ یہ صرف ایک اللہ کی شان اور اس کی صفت ہے۔ جس میں کسی اور کو شریک ماننا شرک ہوگا۔
(3) یعنی آج ہم میں سے کوئی شخص یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ تیرا کوئی شریک ہے؟
Arapça tefsirler:
وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَدْعُوْنَ مِنْ قَبْلُ وَظَنُّوْا مَا لَهُمْ مِّنْ مَّحِیْصٍ ۟
اور یہ جن (جن) کی پرستش اس سے پہلے کرتے تھے وه ان کی نگاه سے گم ہوگئے(1) اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب ان کے لیے کوئی بچاؤ نہیں.(2)
(1) یعنی وہ ادھر ادھر ہوگئے اور حسب گمان انہوں نے کسی کو فائدہ نہیں پہنچایا۔
(2) یہ گمان، یقین کے معنی میں ہے یعنی قیامت والے دن وہ یہ یقین کرنے پر مجبور ہوں گے کہ انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا «وَرَأَى الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنُّوا أَنَّهُمْ مُوَاقِعُوهَا وَلَمْ يَجِدُوا عَنْهَا مَصْرِفًا» (الكهف: 53)۔
Arapça tefsirler:
لَا یَسْـَٔمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَآءِ الْخَیْرِ ؗ— وَاِنْ مَّسَّهُ الشَّرُّ فَیَـُٔوْسٌ قَنُوْطٌ ۟
بھلائی کے مانگنے سے انسان تھکتا نہیں(1) اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو مایوس اور ناامید ہو جاتا ہے.(2)
(1) یعنی دنیا کا مال واسباب، صحت وقوت، عزت ورفعت اور دیگر دنیوی نعمتوں کے مانگنے سے انسان نہیں تھکتا، بلکہ مانگتا ہی رہتا ہے۔ انسان سے مراد انسانوں کی غالب اکثریت ہے۔
(2) یعنی تکلیف پہنچنے پر فوراً مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے، جب کہ اللہ کے مخلص بندوں کا حال اس سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ ایک تو دنیا کے طالب نہیں ہوتے، ان کے سامنے ہر وقت آخرت ہی ہوتی ہے، دوسرے، تکلیف پہنچنے پر بھی وہ اللہ کی رحمت اور اس کے فضل سے مایوس نہیں ہوتے، بلکہ آزمائشوں کو بھی وہ کفارۂ سیئات اور رفع درجات کا باعث گردانتے ہیں۔ گویا مایوسی ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔
Arapça tefsirler:
وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِنْ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُ لَیَقُوْلَنَّ هٰذَا لِیْ ۙ— وَمَاۤ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَآىِٕمَةً ۙ— وَّلَىِٕنْ رُّجِعْتُ اِلٰی رَبِّیْۤ اِنَّ لِیْ عِنْدَهٗ لَلْحُسْنٰی ۚ— فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِمَا عَمِلُوْا ؗ— وَلَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ ۟
اور جو مصیبت اسے پہنچ چکی ہے اس کے بعد اگر ہم اسے کسی رحمت کا مزه چکھائیں تو وه کہہ اٹھتا ہے کہ اس کا تو میں حقدار(1) ہی تھا اور میں تو خیال نہیں کرسکتا کہ قیامت قائم ہوگی اور اگر میں اپنے رب کے پاس واپس کیا گیا تو بھی یقیناً میرے لیے اس کے پاس بھی بہتری(2) ہے، یقیناً ہم ان کفار کو ان کے اعمال سے خبردار کریں گے اور انہیں سخت عذاب کا مزه چکھائیں گے.
(1) یعنی اللہ کے ہاں میں محبوب ہوں، وہ مجھ سے خوش ہے، اسی لیے مجھے وہ اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے۔ حالانکہ دنیا کی کمی بیشی اس کی محبت یا ناراضی کی علامت نہیں ہے۔ بلکہ صرف آزمائش کے لیے اللہ ایسا کرتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ نعمتوں میں اس کا شکر کون کررہا ہے اور تکلیﻔوں میں صابر کون ہے؟
(2) یہ کہنے والا منافق یا کافر ہے، کوئی مومن ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ کافر ہی یہ سمجھتا ہے کہ میری دنیا خیر کے ساتھ گزر رہی ہے تو آخرت بھی میرے لیے ایسی ہی ہوگی۔
Arapça tefsirler:
وَاِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ ۚ— وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَآءٍ عَرِیْضٍ ۟
اور جب ہم انسان پر اپنا انعام کرتے ہیں تو وه منھ پھیر لیتا ہے اور کناره کش ہوجاتا ہے(1) اور جب اسے مصیبت پڑتی ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں کرنے واﻻ بن جاتا ہے.(2)
(1) یعنی حق سے منہ پھیرلیتا اور حق کی اطاعت سے اپنا پہلو بدل لیتا ہے اور تکبر کا اظہار کرتا ہے۔
(2) یعنی بارگاہ الٰہی میں تضرع وزاری کرتا ہے تاکہ وہ مصیبت دور فرما دے۔ یعنی شدت میں اللہ کو یاد کرتا ہے، خوش حالی میں بھول جاتا ہے، نزول نقمت کے وقت اللہ سے فریا دیں کرتا ہے، حصول نعمت کے وقت اسے وہ یاد نہیں رہتا۔
Arapça tefsirler:
قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ثُمَّ كَفَرْتُمْ بِهٖ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ فِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ ۟
آپ کہہ دیجئے! کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہوا ہو پھر تم نے اسے نہ مانا بس اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہوگا(1) جو مخالفت میں (حق سے) دور چلا جائے.(2)
(1) یعنی ایسی حالت میں تم سے زیادہ گمراہ اور تم سے زیادہ دشمن کون ہوگا۔
(2) شِقَاقٍ کے معنی ہیں، ضد، عناد اور مخالفت۔ بَعِيدٍ مل کر اس میں اور مبالغہ ہوجاتا ہے۔ یعنی جو بہت زیادہ مخالف اور عناد سے کام لیتا ہے، حتیٰ کہ اللہ کے نازل کردہ قرآن کی بھی تکذیب کر دیتا ہے، اس سے بڑھ کر گمراہ اور بدبخت کون ہوسکتا ہے؟
Arapça tefsirler:
سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ؕ— اَوَلَمْ یَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ ۟
عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے(1) ، کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے واقف و آگاه ہونا کافی نہیں.(2)
(1) جن سے قرآن کی صداقت اور اس کا من جانب اللہ ہونا واضح ہوجائے گا۔ یعنی أَنَّهُ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔ بعض نے اس کا مرجع اسلام یا رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کو بتلایا ہے۔ مآل سب کا ایک ہی ہے۔ آفَاقٌ ، أُفُقٌ کی جمع ہے۔ کنارہ، مطلب ہے کہ ہم اپنی نشانیاں باہر کناروں میں بھی دکھائیں گے اور خود انسان کے اپنے نفسوں کے اندر بھی۔ چنانچہ آسمان و زمین کے کناروں میں بھی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں مثلاً سورج، چاند، ستارے، رات اور دن، ہوا اور بارش، گرج چمک، بجلی، کڑک، نباتات وجمادات، اشجار، پہاڑ، اور انہار وبحار وغیرہ۔ اور آیات انفس سے انسان کا وجود، جن اخلاط و مواد اور ہیئتوں پرمرکب ہے وہ مراد ہیں۔ جن کی تفصیلات طب و حکمت کا دلچسپ موضوع ہے۔ بعض کہتے ہیں، آفاق سے مراد شرق وغرب کے وہ دور دراز کے علاقے ہیں۔ جن کی فتح کو اللہ نے مسلمانوں کے لیے آسان فرما دیا اور انفس سے مراد خود عرب کی سرزمین پر مسلمانوں کی پیش قدمی ہے، جیسے جنگ بدر اور فتح مکہ وغیرہ فتوحات میں مسلمانوں کو عزت وسرفرازی عطا کی گئی۔
(2) استفہام اقراری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اقوال وافعال کے دیکھنے کے لیے کافی ہے، اور وہی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس کے سچے رسول حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) پر نازل ہوا۔
Arapça tefsirler:
اَلَاۤ اِنَّهُمْ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْ لِّقَآءِ رَبِّهِمْ ؕ— اَلَاۤ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطٌ ۟۠
یقین جانو! کہ یہ لوگ اپنے رب کے روبرو جانے سے شک میں ہیں(1) ، یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے.(2)
(1) اس لیے اس کی بابت غور وفکر نہیں کرتے، نہ اس کے لیے عمل کرتے ہیں اور نہ اس دن کا کوئی خوف ان کے دلوں میں ہے۔
(2) بنا بریں اس کے لیے قیامت کا وقوع قطعاً مشکل امر نہیں کیونکہ تمام مخلوقات پر اس کا غلبہ وتصرف ہے وہ اس میں جس طرح چاہے تصرف کرے، کرتا ہے، کرسکتا ہے اور کرے گا، کوئی اس کو روکنے والا نہیں ہے۔
Arapça tefsirler:
 
Anlam tercümesi Sure: Sûretu Fussilet
Surelerin fihristi Sayfa numarası
 
Kur'an-ı Kerim meal tercümesi - Urduca Tercüme - Muhammed Conakri - Mealler fihristi

Muhammed İbrahim Cunakri tarafından tercüme edilmiştir. Rowad Tercüme Merkezi gözetiminde geliştirimiştir. Orijinal tercüme, görüş bildirme, değerlendirme ve sürekli geliştirme amacıyla incelemeye açıktır.

Kapat