Check out the new design

قۇرئان كەرىم مەنىلىرىنىڭ تەرجىمىسى - ئۇردۇچە تەرجىمىسى - مۇھەممەد جوناكرى * - تەرجىمىلەر مۇندەرىجىسى

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

مەنالار تەرجىمىسى سۈرە: سەبەئ   ئايەت:
وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ ؕ— حَتّٰۤی اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَاذَا ۙ— قَالَ رَبُّكُمْ ؕ— قَالُوا الْحَقَّ ۚ— وَهُوَ الْعَلِیُّ الْكَبِیْرُ ۟
شفاعت (سفارش) بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لئے اجازت ہوجائے(1) ۔ یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے پرودگار نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا (2)اور وه بلند وباﻻ اور بہت بڑا ہے.
(1) (جن کے لئے اجازت ہوجائے) کا مطلب ہے انبیا اور ملائکہ وغیرہ یعنی یہی سفارش کرسکیں گے، کوئی اور نہیں۔ اس لئے کہ کسی اور کی سفارش فائدے مند ہی ہوگی، نہ انہیں اجازت ہی ہوگی۔ دوسرا مطلب ہے، مستحقین شفاعت۔ یعنی انبیا علیہم السلام وملائکہ اور صالحین صرف ان ہی کے حق میں سفارش کرسکیں گے جو مستحقین شفاعت ہوں گے کیوں کہ اللہ کی طرف سے ان ہی کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ہوگی، کسی اور کے لئے نہیں۔ (فتح القدیر) مطلب یہ ہوا کہ انبیا علیہم السلام، ملائکہ اور صالحین کے علاوہ وہاں کوئی سفارش نہیں کرسکے گا اور یہ حضرات بھی سفارش اہل ایمان گناہ گاروں کے لئے ہی کرسکیں گے، کافر ومشرک اور اللہ کے باغیوں کے لئے نہیں۔ قرآن کریم نے دوسرے مقام پر ان دونوں نکتوں کی وضاحت فرما دی ہے۔ «مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلا بِإِذْنِهِ» (البقرة: 255) اور «وَلا يَشْفَعُونَ إِلا لِمَنِ ارْتَضَى» (الأنبياء: 28)۔
(2) اس کے مختلف تفسیریں کی گئی ہیں ۔ابن جریر اور ابن کثیر نے حدیث کے روشنی میں اس کی یہ تفسیر بیان کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی امر کی بابت کلام (وحی) فرماتا ہے تو آسمان ہر موجود فرشتے ہیبت اور خوف سے کانپ اٹھتے ہیں اور ان پر بے ہوشی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔یوش آنے پر وہ پوچھتے ہیں تو عرش بردار فرشتے دوسرے فرشتوں کو؎ اور وہ اپنے سے نیچے والے فرشتوں کو بتلاتے ہیں اور اس طرح خبر پہلے آسمان کے فرشتوں تک پہنچ ھاتی ہے ۔(ابن کثیر )فزع میں سلب ماخذ ہے یعنی جب گبتاھٹ دور کع دی جاتی ہے۔
ئەرەپچە تەپسىرلەر:
قُلْ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ؕ— قُلِ اللّٰهُ ۙ— وَاِنَّاۤ اَوْ اِیَّاكُمْ لَعَلٰی هُدًی اَوْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ۟
پوچھیئے کہ تمہیں آسمانوں اور زمین سے روزی کون پہنچاتا ہے؟ (خود) جواب دیجیئے! کہ اللہ تعالیٰ۔ (سنو) ہم یا تم۔ یا تو یقیناً ہدایت پر ہیں یا کھلی گمراہی میں ہیں؟(1)
(1) ظاہر بات ہے گمراہی پر وہی ہو گا جو ایسی چیزوں کو معبود سمجھتا ہے جن کا آسمان و زمین سے روزی پہنچانے میں کوئی حصہ نہیں ہے ،نہ وہ بارش برسا سکتے ہیں۔اس لئے حق پر یقینا اہل توحید ہی ہیں ،نہ کہ دونوں۔
ئەرەپچە تەپسىرلەر:
قُلْ لَّا تُسْـَٔلُوْنَ عَمَّاۤ اَجْرَمْنَا وَلَا نُسْـَٔلُ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ۟
کہہ دیجیئے! کہ ہمارے کئے ہوئے گناہوں کی بابت تم سے کوئی سوال نہ کیا جائے گا نہ تمہارے اعمال کی بازپرس ہم سے کی جائے گی.
ئەرەپچە تەپسىرلەر:
قُلْ یَجْمَعُ بَیْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفْتَحُ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ ؕ— وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِیْمُ ۟
انہیں خبر دے دیجیئے کہ ہم سب کو ہمارا رب جمع کرکے پھر ہم میں سچے فیصلے کردے گا(1) ۔ وه فیصلے چکانے واﻻ ہے اور دانا.
(1) یعنی اس کے مطابق جزا دے گا ؎نیکوں کو ھنت میں اور بدوں کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔
ئەرەپچە تەپسىرلەر:
قُلْ اَرُوْنِیَ الَّذِیْنَ اَلْحَقْتُمْ بِهٖ شُرَكَآءَ كَلَّا ؕ— بَلْ هُوَ اللّٰهُ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ۟
کہہ دیجیئے! کہ اچھا مجھے بھی تو انہیں دکھا دو جنہیں تم اللہ کا شریک ٹھہرا کر اس کے ساتھ ملا رہے ہو، ایسا ہرگز نہیں(1) ، بلکہ وہی اللہ ہے غالب باحکمت.
(1) یعنی اس کا کوئی نظیر ہے نہ ہم سر، بلکہ وہ ہر چیز پر غالب ہے اور اس کے ہر کام اور قول میں حکمت ہے۔
ئەرەپچە تەپسىرلەر:
وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ۟
ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبریاں سنانے واﻻ اور ڈرانے واﻻ بنا کر بھیجا ہے ہاں مگر (یہ صحیح ہے) کہ لوگوں کی اکثریت بےعلم ہے.(1)
(1) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک تو نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت عامہ کا بیان فرمایا ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کو پوری نسل انسانیت کا ہادی اور رہنما بنا کر بھیجا گیا ہے۔ دوسرا، یہ بیان فرمایا کہ اکثر لوگ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی خواہش اور کوشش کے باوجود ایمان سے محروم رہیں گے۔ ان دونوں باتوں کی وضاحت اور بھی دوسرے مقامات پر فرمائی ہے۔ مثلاً آپ (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت کے ضمن میں فرمایا، «قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا» (الأعراف: 158) «تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا» (سورة الفرقان:1) ایک حدیث میں آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ 1۔ مہینے کی مسافت پر دشمن کے دل میں میری دھاک بٹھانے سے میری مدد فرمائی گئی ہے۔ 2۔ تمام روئے زمین میرے لئے مسجد اور پاک ہے، جہاں بھی نماز کا وقت آجائے، میری امت وہاں نماز ادا کردے۔ 3۔ مال غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا، جو مجھ سے قبل کسی کے لئے حلال نہیں تھا۔ 4۔ مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہے۔ 5۔ پہلے نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا، مجھے کائنات کے تمام انسانوں کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (صحيح بخاري ، كتاب التيمم، صحيح مسلم، كتاب المساجد) ایک اور حدیث میں فرمایا بُعِثْتُ إِلَى الأَحْمَرِ وَالأَسْوَدِ (صحيح مسلم ، كتاب المساجد) احمر اسود سے مراد بعض نے جن وانس اور بعض نے عرب وعجم لئے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں، دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ اسی طرح اکثریت کی بےعلمی اور گمراہی کی وضاحت فرمائی۔ «وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ» (سورة يوسف: 103) ”آپ (صلى الله عليه وسلم) کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے“ «وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ» (سورة الأنعام: 116) ”اگر آپ اہل زمین کی اکثریت کے پیچھے چلیں گے تو وہ آپ کو گمراہ کردیں گے“ جس کا مطلب یہی ہوا کہ اکثریت گمراہوں کی ہے۔
ئەرەپچە تەپسىرلەر:
وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۟
پوچھتے ہیں کہ وه وعده ہے کب؟ سچے ہو تو بتا دو.(1)
(1) یہ بطور استہزا کے پوچھتے ہیں، کیوں کہ اس کا وقوع ان کے نزدیک مستبعد اور ناممکن تھا۔
ئەرەپچە تەپسىرلەر:
قُلْ لَّكُمْ مِّیْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ عَنْهُ سَاعَةً وَّلَا تَسْتَقْدِمُوْنَ ۟۠
جواب دیجیئے کہ وعدے کا دن ٹھیک معین ہے جس سے ایک ساعت نہ تم پیچھے ہٹ سکتے ہو نہ آگے بڑھ سکتے ہو.(1)
(1) یعنی اللہ نے قیامت کا ایک دن مقرر کر رکھا ہے جس کا علم صرف اسی کو ہے، تاہم جب وہ وقت موعود آجائے گا تو ایک ساعت بھی آگے، پیچھے نہیں ہوگا۔ «إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لا يُؤَخَّرُ» (نوح:4)۔
ئەرەپچە تەپسىرلەر:
وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بِالَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ ؕ— وَلَوْ تَرٰۤی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۖۚ— یَرْجِعُ بَعْضُهُمْ اِلٰی بَعْضِ ١لْقَوْلَ ۚ— یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا لَوْلَاۤ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِیْنَ ۟
اور کافروں نے کہا کہ ہم ہرگز نہ تو اس قرآن کو مانیں نہ اس سے پہلے کی کتابوں کو(1) ! اے دیکھنے والے کاش کہ تو ان ﻇالموں کو اس وقت دیکھتا جب کہ یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہوں گے(2) کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے(3) اگر تم نہ ہوتے تو ہم تو مومن ہوتے.(4)
(1) ۔جیسے تورات، زبور اور انجیل وغیرہ، بعض نے بَيْنَ يَدَيْهِ سے مراد دار آخرت لیا ہے۔ اس میں کافروں کے عناد وطغیان کا بیان ہے کہ وہ تمام تر دلائل کے باوجود قرآن کریم اور دار آخرت پر ایمان لانے سے گریزاں ہیں
(2) یعنی دنیا میں یہ کفروشرک میں ایک دوسرے کے ساتھی اور اس ناطے سے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے تھے، لیکن آخرت میں یہ ایک دوسرے کے دشمن اور ایک دوسرے کو موردالزام بنائیں گے۔
(3) یعنی دنیا میں یہ لوگ، جو سوچے سمجھے بغیر، روش عام پر چلنے والے ہوتے ہیں، اپنے ان لیڈروں سے کہیں گے جن کے وہ دنیا میں پیروکار بنے رہے تھے۔
(4) یعنی تم ہی نے ہمیں پیغمبروں اور داعیان حق کے پیچھے چلنے سے روکے رکھا تھا، اگر تم اس طرح نہ کرتے تو ہم یقیناً ایمان والے ہوتے۔
ئەرەپچە تەپسىرلەر:
 
مەنالار تەرجىمىسى سۈرە: سەبەئ
سۈرە مۇندەرىجىسى بەت نومۇرى
 
قۇرئان كەرىم مەنىلىرىنىڭ تەرجىمىسى - ئۇردۇچە تەرجىمىسى - مۇھەممەد جوناكرى - تەرجىمىلەر مۇندەرىجىسى

مۇھەممەد ئىبراھىم جوناكرى تەرجىمە قىلغان. ئىزاھات: پىكىر ئەركىنلىكى باھالاش ۋە تەرەققى قىلدۇرۇش مەقسىتىدە ئەسلى تەرجىمىدىنمۇ پايدىلىنىشقا رۇخسەت قىلىش بىلەن بىرگە رۇۋۋاد تەرجىمە مەركىزىدە تەرەققى قىلدۇرۇلغان.

تاقاش