Check out the new design

የቅዱስ ቁርዓን ይዘት ትርጉም - የኡርዱኛ ትርጉም - በመሐመድ ጆናክሬ * - የትርጉሞች ማዉጫ

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

የይዘት ትርጉም ምዕራፍ: አል ፈትህ   አንቀጽ:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ ؕ— یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ ۚ— فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا یَنْكُثُ عَلٰی نَفْسِهٖ ۚ— وَمَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰهَدَ عَلَیْهُ اللّٰهَ فَسَیُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا ۟۠
جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وه یقیناً اللہ سے بیعت کرتے ہیں(1) ، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے(2)، تو جو شخص عہد شکنی کرے وه اپنے نفس پر ہی عہد شکنی کرتا ہے(3) اور جو شخص اس اقرار کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے(4) تو اسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے گا.
(1) یعنی یہ بیعت دراصل اللہ ہی کی ہے، کیونکہ اسی نے جہاد کا حکم دیا اور اس پر اجر بھی وہی عطا فرمائے گا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا کہ یہ اپنے نفسوں اور مالوں کا جنت کے بدلے اللہ کے ساتھ سودا ہے (التوبۃ: 111) یہ اسی طرح ہے جیسے «مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ» (النساء:80)۔
(2) آیت سے وہی بیعت رضوان مراد ہےجو نبی(صلى الله عليه وسلم) نے حضرت عثمان (رضي الله عنه) کی خبر شہادت سن کر ان کا انتقام لینے کے حدیبیہ میں موجود 14 یا 15 سو مسلمانوں سے لی تھی۔
(3) نَكْثٌ (عہد شکنی) سے مراد یہاں بیعت کا توڑ دینا یعنی عہد کے مطابق لڑائی میں حصہ نہ لینا ہے۔ یعنی جو شخص ایسا کرے گا تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔
(4) کہ وہ اللہ کے رسول (صلى الله عليه وسلم) کی مدد کرے گا، ان کے ساتھ ہو کر لڑے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح وغلبہ عطا فرما دے۔
የአረብኛ ቁርኣን ማብራሪያ:
سَیَقُوْلُ لَكَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ شَغَلَتْنَاۤ اَمْوَالُنَا وَاَهْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا ۚ— یَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِهِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ ؕ— قُلْ فَمَنْ یَّمْلِكُ لَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْـًٔا اِنْ اَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا ؕ— بَلْ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا ۟
دیہاتیوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیئے گئے تھے وه اب تجھ سے کہیں گے کہ ہم اپنے مال اور بال بچوں میں لگے ره گئے پس آپ ہمارے لئے مغفرت طلب کیجئے(1) ۔ یہ لوگ اپنی زبانوں سے وه کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے(2)۔ آپ جواب دے دیجئے کہ تمہارے لئے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا بھی اختیار کون رکھتا ہے اگر وه تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو(3) یا تمہیں کوئی نفع دینا چاہے تو(4)، بلکہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خوب باخبر ہے.(5)
(1) اس سے مدینے کے اطراف میں آباد قبیلے، غفار، مزینہ، جہینہ، اسلم اور دئل مراد ہیں۔ جب نبی نےخواب دیکھنے کے بعد (جس کی تفصیل آگے آئے گی) عمرے کے لئے مکہ جانے کی عام منادی کرا دی۔ مذکورہ قبلیوں نے سوچا کہ موجودہ حالات تو مکہ جانے کے لئے سازگار نہیں ہیں۔ وہاں ابھی کافروں کا غلبہ ہے اور مسلمان کمزور ہیں نیز مسلمان عمرے کے لئے پورے طورپر ہتھیار بندہو کر بھی نہیں جا سکتے۔ اگر ایسے میں کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کا فیصلہ کر لیا تو مسلمان خالی ہاتھ ان کا مقابلہ کس طرح کریں گے؟ اس وقت مکے جانے کا مطلب اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ عمرے کے لئے نہیں گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بابت فرما رہا ہے کہ یہ تجھ سے مشغولیوں کا عذر پیش کرکے طلب مغفرت کی التجائیں کریں گے۔
(2) یعنی زبانوں پرتو یہ ہے کہ ہمارے پیچھے ہمارے گھروں کی اور بیوی بچوں کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس لئے ہمیں خود ہی رکنا پڑا، لیکن حقیقت میں ان کا پیچھے رہنا، نفاق اور اندیشہ موت کی وجہ سے تھا۔
(3) یعنی اگر اللہ تمہارے مال ضائع کرنے اور تمہارے اہل کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلے تو کیا تم میں سے کوئی اختیار رکھتا ہے کہ وہ اللہ کو ایسا نہ کرنے دے۔
(4) یعنی تمہیں مدد پہنچانا اور تمہیں غنیمت سے نوازنا چاہے۔ تو کوئی روک سکتا ہے؟ یہ دراصل مذکورہ متخلفین (پیچھے رہ جانے والوں) کا رد ہے جنہوں نے یہ گمان کر لیا تھا کہ وہ اگر نبی ﹲ کے ساتھ نہیں گئے تو نقصان سے محفوظ اور منافع سےبہرہ ور ہوں گے۔ حالانکہ نفع وضرر کا سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
(5) یعنی تمہیں تمہارے عملوں کی پوری جزا دے گا۔
የአረብኛ ቁርኣን ማብራሪያ:
بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰۤی اَهْلِیْهِمْ اَبَدًا وَّزُیِّنَ ذٰلِكَ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ ۖۚ— وَكُنْتُمْ قَوْمًا بُوْرًا ۟
(نہیں) بلکہ تم نے تو یہ گمان کر رکھا تھا کہ پیغمبر اور مسلمانوں کا اپنے گھروں کی طرف لوٹ آنا قطعاً ناممکن ہے اور یہی خیال تمہارے دلوں میں رچ بس گیا تھا اور تم نے برا گمان کر رکھا تھا(1) ۔ دراصل تم لوگ ہو بھی ہلاک ہونے والے.(2)
(1) اور وہ یہی تھا کہ اللہ اپنے رسول ﹲ کی مدد نہیں کرے گا۔ یہ وہی پہلا گمان ہے، تکرار تاکید کے لئے ہے۔
(2) بُورٌ، بَائِرٌ کی جمع ہے، ہلاک ہونے والا، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کا مقدر ہلاکت ہے۔ اگر دنیا میں یہ اللہ کےعذاب سےبچ گئے تو آخرت میں تو بچ کر نہیں جا سکتے وہاں تو عذاب ہر صورت میں بھگتنا ہوگا۔
የአረብኛ ቁርኣን ማብራሪያ:
وَمَنْ لَّمْ یُؤْمِنْ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا ۟
اور جو شخص اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان نہ ﻻئے تو ہم نے بھی ایسے کافروں کے لئے دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے.
የአረብኛ ቁርኣን ማብራሪያ:
وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ؕ— یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ ؕ— وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۟
اور زمین اور آسمانوں کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب کرے۔ اور اللہ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے.(1)
(1) اس میں متخلفین کے لئے توبہ وانابت الی اللہ کی ترغیب ہے کہ اگر وہ نفاق سے توبہ کر لیں تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دے گا، وہ بڑا بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
የአረብኛ ቁርኣን ማብራሪያ:
سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْطَلَقْتُمْ اِلٰی مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوْهَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْكُمْ ۚ— یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا كَلٰمَ اللّٰهِ ؕ— قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا كَذٰلِكُمْ قَالَ اللّٰهُ مِنْ قَبْلُ ۚ— فَسَیَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا ؕ— بَلْ كَانُوْا لَا یَفْقَهُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا ۟
جب تم غنیمتیں لینے جانے لگو گے تو جھٹ سے یہ پیچھے چھوڑے ہوئے لوگ کہنے لگیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیجئے(1) ، وه چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدل دیں(2) آپ کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی فرما چکا ہے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے(3)، وه اس کا جواب دیں گے (نہیں نہیں) بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو(4)، (اصل بات یہ ہے) کہ وه لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں.(5)
(1) اس میں غزوۂ خیبر کا ذکر ہے جس کی فتح کی نوید اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ میں دی تھی، نیز اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہاں سے جتنا بھی مال غنیمت حاصل ہوگا وہ صرف حدیبیہ میں شریک ہونے والوں کا حصہ ہے۔ چنانچہ حدیبیہ سے واپسی کے بعد آپ(صلى الله عليه وسلم) نے یہودیوں کی مسلسل عہد شکنی کیوجہ سے خیبر پر چڑھائی کا پروگرام بنایا تو مذکورہ متخلفین نے بھی محض مال غنیمت کے حصول کے لئے ساتھ جانے کا ارادہ ظاہر کیا، جسے منظور نہیں کیا گیا۔ آیت میں مغانم سےمراد مغانم خیبر ہی ہیں۔
(2) اللہ کے کلام سےمراد، اللہ کا خبیر کی غنیمت کو اہل حدیبیہ کے لئے خاص کرنے کا وعدہ ہے۔ منافقین اس میں شریک ہو کر اللہ کے کلام یعنی اس کے وعدے کو بدلنا چاہتے تھے۔
(3) یہ نفی بمعنی نہی ہے یعنی تمہیں ہمارے ساتھ چلنے کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہی ہے۔
(4) یعنی یہ متخلفین کہیں گے کہ تم ہمیں حسد کی بنا پر ساتھ لے جانے سے گریز کر رہے ہو تاکہ مال غنیمت میں ہم تمہارے شریک نہ ہوں۔
(5) یعنی بات یہ نہیں ہے جو وہ سمجھ رہےہیں، بلکہ یہ پابندی ان کے پیچھے رہنے کی پاداش میں ہے۔ لیکن اصل بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔
የአረብኛ ቁርኣን ማብራሪያ:
 
የይዘት ትርጉም ምዕራፍ: አል ፈትህ
የምዕራፎች ማውጫ የገፅ ቁጥር
 
የቅዱስ ቁርዓን ይዘት ትርጉም - የኡርዱኛ ትርጉም - በመሐመድ ጆናክሬ - የትርጉሞች ማዉጫ

በሙሐመድ ኢብራሂም ጆናክሪ ተተርጉሞ በሩዋድ የትርጉም ማዕከል ቁጥጥር ስር ማሻሻያ የተደረገበት ፤ አስተያየትና ሃሳቦን ሰጥተው በዘለቄታው እንዲሻሻል መሰረታዊ ትርጉሙን ማየት ይችላሉ

መዝጋት