للإطلاع على الموقع بحلته الجديدة

ترجمة معاني القرآن الكريم - الترجمة الأردية - محمد جوناكرهي * - فهرس التراجم

XML CSV Excel API
تنزيل الملفات يتضمن الموافقة على هذه الشروط والسياسات

ترجمة معاني سورة: الأنفال   آية:
وَاَطِیْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِیْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا ؕ— اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۟ۚ
اور اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر و سہارا رکھو، یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(1)
(1) تیسری ہدایت، اللہ اور رسول کی اطاعت، ظاہر بات ہے ان نازک حالات میں اللہ اور رسول کی نافرمانی کتنی سخت خطرناک ہو سکتی ہے۔ اس لئے ایک مسلمان کے لئے ویسے تو ہر حالت میں اللہ اور رسول کی اطاعت ضروری ہے تاہم میدان جنگ میں اس کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے اور اس موقع پر تھوڑی سی بھی نافرمانی اللہ کی مدد سے محرومی کا باعث بن سکتی ہے۔ چوتھی ہدایت کہ آپس میں تنازع اور اختلاف نہ کرو، اس سے تم بزدل ہو جاؤ گے اور ہوا اکھڑ جائے گی۔ اور پانچویں ہدایت کہ صبر کرو! یعنی جنگ میں کتنی بھی شدت آجائے اور تمہیں کتنے بھی کٹھن مراحل سے گزرنا پڑے لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی ایک حدیث میں فرمایا: ”لوگو! دشمن سے مدبھیڑ کی آرزو مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگا کرو! تاہم جب کبھی دشمن سے لڑائی کا موقع پیدا ہو جائے تو صبر کرو (یعنی جم کر لڑو) اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔“ (صحيح بخاري- كتاب الجهاد- باب كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا لم يقاتل أول النهار أخر القتال حتى تزول الشمس)
التفاسير العربية:
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَّرِئَآءَ النَّاسِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ؕ— وَاللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ ۟
ان لوگوں جیسے نہ بنو جو اتراتے ہوئے اور لوگوں میں خود نمائی کرتے ہوئے اپنے گھروں سے چلے اور اللہ کی راه سے روکتے تھے(1) ، جو کچھ وه کر رہے ہیں اللہ اسے گھیر لینے واﻻ ہے۔
(1) مشرکین مکہ، جب اپنے قافلے کی حفاظت اور لڑائی کی نیت سے نکلے، تو بڑے اتراتے اور فخر وغرور کرتے ہوئے نکل ے،مسلمانوں کو اس کا فرانہ شیوے سے روکاگیا ہے۔
التفاسير العربية:
وَاِذْ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّیْ جَارٌ لَّكُمْ ۚ— فَلَمَّا تَرَآءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰی عَقِبَیْهِ وَقَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكُمْ اِنِّیْۤ اَرٰی مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ ؕ— وَاللّٰهُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ۟۠
جبکہ ان کے اعمال کو شیطان انہیں زینت دار دکھا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ لوگوں میں سے کوئی بھی آج تم پر غالب نہیں آسکتا، میں خود بھی تمہارا حمایتی ہوں لیکن جب دونوں جماعتیں نمودار ہوئیں تو اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ گیا اور کہنے لگا میں تم سے بری ہوں۔ میں وه دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے(1) ۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں(2)، اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب واﻻ ہے۔(3)
(1) مشرکین جب مکہ سے روانہ ہوئے تو انہیں اپنے حریف قبیلے بنی بکر بن کنانہ سے اندیشہ تھا کہ وہ پیچھے سے انہیں نقصان نہ پہنچائے، چنانچہ شیطان سراقہ بن مالک کی صورت بنا کر آیا، جو بنی بکر بن کنانہ کے ایک سردار تھے، اور کہا انہیں نہ صرف فتح وغلبہ کی بشارت دی بلکہ اپنی حمایت کا بھی پورا پورا یقین دلایا۔ لیکن جب ملائکہ کی صورت میں امداد الٰہی اسے نظر آئی تو ایڑیوں کے بل بھاگ کھڑا ہوا۔
(2) اللہ کا خوف تو اس کے دل میں کیا ہونا تھا؟ تاہم اسے یقین ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کو اللہ کی خاص مدد حاصل ہے۔ مشرکین ان کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکیں گے۔
(3) ممکن ہے یہ شیطان کے کلام کا حصہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے جملہ مستانفہ ہو۔
التفاسير العربية:
اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ غَرَّ هٰۤؤُلَآءِ دِیْنُهُمْ ؕ— وَمَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَی اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ۟
جبکہ منافق کہہ رہے تھے اور وه بھی جن کے دلوں میں روگ تھا(1) کہ انہیں تو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے(2) جو بھی اللہ پر بھروسہ کرے اللہ تعالیٰ بلا شک وشبہ غلبے واﻻ اور حکمت واﻻ ہے۔(3)
(1) اس سے مراد یا تو وہ مسلمان ہیں جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور مسلمانوں کی کامیابی کے بارے میں انہیں شک تھا، یا اس سے مراد مشرکین ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ مدینہ میں رہنے والے یہودی مرادہوں۔
(2) یعنی ان کی تعداد تو دیکھو اور سروسامان کا جو حال ہے، وہ بھی ظاہر ہے۔ لیکن یہ مقابلہ کرنے چلے ہیں مشرکین مکہ سے، جو تعداد میں بھی ان سے کہیں زیادہ ہیں اور ہر طرح کے سامان حرب اور وسائل سے مالا مال بھی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دین نے ان کو دھوکے اور فریب میں ڈال دیا ہے۔ اور یہ موٹی سی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آرہی۔
(3) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ان اہل دنیا کو اہل ایمان کے عزم وثبات کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے جن کا توکل اللہ کی ذات پر ہے، جو غالب ہے یعنی اپنے بھروسہ کرنے والوں کو بے سہارا نہیں چھوڑتا اور حکیم بھی ہے اور اس کے ہر فعل میں حکمت بالغہ ہے جس کے ادراک سے انسانی عقلیں قاصر ہیں۔
التفاسير العربية:
وَلَوْ تَرٰۤی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ كَفَرُوا الْمَلٰٓىِٕكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ ۚ— وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ ۟
کاش کہ تو دیکھتا جب کہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں ان کے منھ پر اور سرینوں پر مار مارتے ہیں (اور کہتے ہیں) تم جلنے کا عذاب چکھو۔(1)
(1) بعض مفسرین نے اس جنگ بدر میں قتل ہونے والے مشرکین کی بابت قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب مشرکین مسلمانوں کی طرف آتے تو مسلمان ان کے چہروں پر تلواریں مارتے، جس سے بچنے کے لئے وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے تو فرشتے ان کی دبروں پر تلواریں مارتے۔ لیکن یہ آیت عام ہے جو ہر کافر ومشرک کو شامل ہے اور مطلب یہ ہے کہ موت کے وقت فرشتے ان کے مونہوں اور پشتوں (یا دبروں یعنی چوتڑوں) پر مارتے ہیں، جس طرح سورۂ انعام میں بھی فرمایا گیا ہے: ”وَالْمَلائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ“ (آیت: 93) فرشتے ان کو مارنے کے لئے ہاتھ دراز کرتے ہیں اور بعض کے نزدیک فرشتوں کی یہ مار قیامت والے دن جہنم کی طرف لے جاتے ہوئے ہوگی اور داروغئہ جہنم کہے گا ”تم جلنے کا عذاب چکھو“۔
التفاسير العربية:
ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ ۟ۙ
یہ بسبب ان کاموں کے جو تمہارے ہاتھوں نے پہلے ہی بھیج رکھا ہے بیشک اللہ اپنے بندوں پر ﻇلم کرنے واﻻ نہیں۔(1)
(1) یہ ضرب وعذاب تمہارے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے، بلکہ وہ تو عادل ہے جو ہر قسم کے ظلم وجورسے پاک ہے۔ حدیث قدسی میں بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے میرے بندو! میں نے اپنے نفس پر ظلم حرام کیا ہے اور میں نے اسے تمہارے درمیان بھی حرام کیا ہے پس تم ایک دوسرے پر ظلم مت کرو، اے میرے بندو! یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جو میں نے شمار کرکے رکھے ہوئے ہیں، پس جو اپنے اعمال میں بھلائی پائے، اس پر اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے برعکس پائے تو وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔ (صحيح مسلم كتاب البر، باب تحريم الظلم)
التفاسير العربية:
كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ ۙ— وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ؕ— كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ۟
مثل فرعونیوں کے حال کے اور ان سے اگلوں کے(1) ، کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں سے کفر کیا پس اللہ نے ان کے گناہوں کے باعﺚ انہیں پکڑ لیا۔ اللہ تعالیٰ یقیناً قوت واﻻ اور سخت عذاب واﻻ ہے۔
(1) ”دَأْبٌ“ کے معنی ہیں عادت۔ کاف تشبیہ کے لئے ہے۔ یعنی ان مشرکین کی عادت یا حال، اللہ کے پیغمبر کے جھٹلانے میں، اسی طرح ہے جس طرح فرعون اور اس سے قبل دیگر مکذبین کی عادت یا حال تھا۔
التفاسير العربية:
 
ترجمة معاني سورة: الأنفال
فهرس السور رقم الصفحة
 
ترجمة معاني القرآن الكريم - الترجمة الأردية - محمد جوناكرهي - فهرس التراجم

ترجمها محمد إبراهيم جوناكري. تم تطويرها بإشراف مركز رواد الترجمة، ويتاح الإطلاع على الترجمة الأصلية لغرض إبداء الرآي والتقييم والتطوير المستمر.

إغلاق