Traducción de los significados del Sagrado Corán - Traducción Urdu * - Índice de traducciones

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Traducción de significados Capítulo: Sura Al-Qalam   Versículo:

سورۂ قلم

نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ ۟ۙ
ن(1) ، قسم ہے قلم کی اور(2) اس کی جو کچھ کہ وه (فرشتے) لکھتے ہیں.(3)
(1) ن اسی طرح حروف مقطعات میں سے ہے ،جیسے اس سے قبل ص،قاور دیگر فواتحسور گزر چکے ہیں،
(2) قلم کی قسم کھائی، جس کی اس لحاظ سے ایک اہمیت ہے کہ اس کے ذریعے سے کھول کر بیان لکھا جاتا ہے بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ خاص قلم ہے جسے اللہ نے سب سے پہلے پیدا فرمایا اور اسکو تقدیر لکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس نے ابد تک ہونے والی ساری چیزیں لکھ دیں (سنن ترمذی)
(3) یسطرون"کا مرجع اصضاب ہیں جس پر قلم کا لفث دلالت کرتا ہے اس لئے کہ آلہ کتاب کا ذکر کاتب کے وجود کو مستلزم ہے مطلب ہے کہ اس کی بھی قسم جو لکھنے والے لکھتے ہیں،یا پھر مرجع فرشتے ہیں جیسے ترجمہ سے واضح ہے۔
Las Exégesis Árabes:
مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ ۟ۚ
تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہے.(1)
(1) یہ جواب قسم ہے، جس میں کفار کے قول کا رد ہے، وہ آپ کو مجنون (دیوانہ) کہتے تھے۔
Las Exégesis Árabes:
وَاِنَّ لَكَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ ۟ۚ
اور بے شک تیرے لیے بے انتہا اجر ہے.(1)
Las Exégesis Árabes:
وَاِنَّكَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ۟
اور بیشک تو بہت بڑے (عمده) اخلاق پر ہے.(1)
(1) فریضہ نبوت کی ادائیگی میں جتنی زیادہ تکلیفیں برداشت کیں اور دشمنوں کی باتیں سنی ہیں اس پر اللہ تعالٰی کی طرف سے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔من کے معنی قطع کرنے کے ہیں۔
(2) خلق عظیم سے مراد اسلام، دین یا قرآن ہے مطلب ہے کہ تو اس خلق پر ہے جس کا حکم اللہ نے تجھے قرآن میں یا دین میں دیا ہے۔
Las Exégesis Árabes:
فَسَتُبْصِرُ وَیُبْصِرُوْنَ ۟ۙ
پس اب تو بھی دیکھ لے گا اور یہ بھی دیکھ لیں گے.(1)
(1) یعنی جب حق واضح ہو جائے گا اور سارے پردے اٹھ جائیں گے اور یہ قیامت کے دن ہوگا بعض نے اسے جنگ بدر سے متعلق فرمایا ہے۔
Las Exégesis Árabes:
بِاَیِّىكُمُ الْمَفْتُوْنُ ۟
کہ تم میں سے کون فتنہ میں پڑا ہوا ہے.
Las Exégesis Árabes:
اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ ۪— وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ ۟
بیشک تیرا رب اپنی راه سے بہکنے والوں کو خوب جانتا ہے، اور وه راه یافتہ لوگوں کو بھی بخوبی جانتا ہے.
Las Exégesis Árabes:
فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِیْنَ ۟
پس تو جھٹلانے والوں کی نہ مان.(1)
(1) اطاعت سے مراد یہاں وہ مدارات ہے جس کا اظہار انسان نے اپنے ضمیر کے خلاف کرتا ہے۔ یعنی مشرکوں کی طرف جھکنے اور ان کی خاطر مدارت کی ضرورت نہیں ہے۔
Las Exégesis Árabes:
وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَیُدْهِنُوْنَ ۟
وه تو چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں.(1)
(1) یعنی وہ تو چاہتے ہیں کہ تو ان کے معبودوں کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرے تو وہ بھی تیرے بارے میں نرم رویہ اختیار کریں باطل پرست اپنی باطل پرستی کو چھوڑنے میں ڈھیلے ہو جائیں گے۔ اس لئے حق میں خوشامد، حکمت، تبلیغ اور کار نبوت کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔
Las Exégesis Árabes:
وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِیْنٍ ۟ۙ
اور تو کسی ایسے شخص کا بھی کہا نہ ماننا جو زیاده قسمیں کھانے واﻻ.
Las Exégesis Árabes:
هَمَّازٍ مَّشَّآءٍ بِنَمِیْمٍ ۟ۙ
بے وقار، کمینہ، عیب گو، چغل خور.
Las Exégesis Árabes:
مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ ۟ۙ
بھلائی سے روکنے واﻻ حد سے بڑھ جانے واﻻ گنہگار.
Las Exégesis Árabes:
عُتُلٍّۢ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِیْمٍ ۟ۙ
گردن کش پھر ساتھ ہی بے نسب ہو.(1)
(1) یہ ان کافروں کی اخلاقی پستیوں کا ذکر ہے جن کی خاطر پیغمبر کو خوش آمد کرنے سے روکا جا رہا ہے۔یہ صفات ذمیمہ کسی ایک شخص کی بیان کی گئی ہیں یا عام کافروں کی؟پہلی بات کا اخذا اگر چہ بعض رعایتیں ہیں مگر وہ غیر مستند ہیں۔اس لئے مقصود عام یعنی ہر وہ شخص ہے جس میں مذکورہصفات پائی جائیں۔زنیم ،ولد حرامیا مشہور بدنام۔
Las Exégesis Árabes:
اَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَّبَنِیْنَ ۟ؕ
اس کی سرکشی صرف اس لیے ہے کہ وه مال واﻻ اور بیٹوں واﻻ ہے.(1)
(1) یعنی مذکورہ اخلاقی قباحتوں کا ارتکاب اس لئے کرتا ہے کہ اللہ نے اسے مال اور اولاد کی نعمتوں سے نوازا ہے یعنی وہ شکر کی بجائے کفران نعمت کرتا ہے، یعنی جس شخص کے اندر یہ خرابیاں ہوں، اس کی بات صرف اس لئے مان لی جائے کہ وہ مال اور اولاد رکھتا ہے۔
Las Exégesis Árabes:
اِذَا تُتْلٰی عَلَیْهِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ۟
جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ یہ تو اگلوں کے قصے ہیں.
Las Exégesis Árabes:
سَنَسِمُهٗ عَلَی الْخُرْطُوْمِ ۟
ہم بھی اس کی سونڈ (ناک) پر داغ دیں گے.(1)
(1) بعض کے نزدیک اس کا تعلق دنیا سے ہے، مثلًا کہا جاتا ہے کہ جنگ بدر میں ان کفروں کے ناکوں کو تلواروں کا نشانہ بنایا گیا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ قیامت والے دن جہنمیوں کی علامت ہوگی کہ ان کے ناکوں کو داغ دیا جائے گا یا اس کا مطلب چہروں کی سیاہی ہے۔ جیسا کہ کافروں کے چہرے اس دن سیاہ ہونگے۔ بعض کہتے ہیں کہ کافروں کا یہ حشر دنیا اور آخرت دونوں جگہ ممکن ہے۔
Las Exégesis Árabes:
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ ۚ— اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَ ۟ۙ
بیشک ہم نے انہیں اسی طرح آزما لیا(1) جس طرح ہم نے باغ والوں کو(2) آزمایا تھا جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے.(3)
(1) مراد اہل مکہ ہیں یعنی ہم نے ان کو مال و دولت سے نوازا تاکہ وہ اللہ کا شکر کریں نہ کہ کفر وتکبر لیکن انہوں نے کفر و استکبار کیا تو ہم نے انہیں بھوک اور قحط کی آزمائش میں ڈال دیا جس میں وہ نبی کی بددعا کی وجہ سے کچھ عرصہ مبتلا رہے۔
(2) باغ والوں کا قصہ عربوں میں مشہور تھا۔ یہ باغ (یمن) سے دو فرسخ کے فاصلے پر تھا اس کا مالک اس کی پیداوار غربا و مساکین پر بھی خرچ کرتا تھا، لیکن اس کے مرنے کے بعد جب اس کی اولاد اس کی وارث بنی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے تو اپنے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں، ہم اس کی آمدنی میں سے مساکین اور سائلین کو کس طرح دیں؟ چنانچہ اللہ تعالٰی نے اس باغ کو تباہ کر دیا، کہتے ہیں یہ واقعہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تھوڑے عرصے بعد پیش آیا (فتح القدیر) یہ ساری تفصیل تفسیری روایات کی ہے۔
(3) صزم کے معنی ہے کاٹ ڈالنا ،پھل اور کھیتی کا کاٹ دالنا ،مصبحین ضال ہے یعنی صبح ہوتے ہی پھل اتار لیں گے اور پیداوار کاٹ لیں گے۔
Las Exégesis Árabes:
وَلَا یَسْتَثْنُوْنَ ۟
اور انشاءاللہ نہ کہا.
Las Exégesis Árabes:
فَطَافَ عَلَیْهَا طَآىِٕفٌ مِّنْ رَّبِّكَ وَهُمْ نَآىِٕمُوْنَ ۟
پس اس پر تیرے رب کی جانب سے ایک بلا چاروں طرف گھوم گئی اور یہ سو ہی رہے تھے.(1)
(1) بعض کہتے ہیں، راتوں رات اسے آگ لگ گئی، بعض کہتے ہیں، جبرائیل (عليه السلام) نے آکر اسے تہس نہس کر دیا۔
Las Exégesis Árabes:
فَاَصْبَحَتْ كَالصَّرِیْمِ ۟ۙ
پس وه باغ ایسا ہو گیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی.(1)
(1) یعنی جس طرح کھیتی کٹنے کے بعد خشک ہو جاتی ہے، اس طرح سارا باغ اجڑ گیا، بعض نے ترجمہ یہ کیا ہے، سیاہ رات کی طرح ہوگیا، یعنی جل کر۔
Las Exégesis Árabes:
فَتَنَادَوْا مُصْبِحِیْنَ ۟ۙ
اب صبح ہوتے ہی انہوں نے ایک دوسرے کو آوازیں دیں.
Las Exégesis Árabes:
اَنِ اغْدُوْا عَلٰی حَرْثِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰرِمِیْنَ ۟
کہ اگر تمہیں پھل اتارنے ہیں تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی سویرے چل پڑو.
Las Exégesis Árabes:
فَانْطَلَقُوْا وَهُمْ یَتَخَافَتُوْنَ ۟ۙ
پھر یہ سب چپکے چپکے یہ باتیں کرتے ہوئے چلے.(1)
(1) یعنی باغ کی طرف جانے کے لئے ایک تو صبح صبح نکلے دوسرے آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہوئے گئے تاکہ کسی کو ان کے جانے کا علم نہ ہو۔
Las Exégesis Árabes:
اَنْ لَّا یَدْخُلَنَّهَا الْیَوْمَ عَلَیْكُمْ مِّسْكِیْنٌ ۟ۙ
کہ آج کے دن کوئی مسکین تمہارے پاس نہ آنے پائے.(1)
Las Exégesis Árabes:
وَّغَدَوْا عَلٰی حَرْدٍ قٰدِرِیْنَ ۟
اور لپکے ہوئے صبح صبح گئے۔ (سمجھ رہے تھے) کہ ہم قابو پاگئے.(1)
(1) یعنی وہ ایک دوسرے کو کہتے رہے کہ آج کوئی باغ میں آکر ہم سے کچھ نہ مانگے جس طرح ہمارے باپ کے زمانے میں آیا کرتے تھے اور وہ اپنا حصہ لے جاتے تھے۔
(2) حرد کے ایک معنی تو قوت و شدت 'کیے گئے ہیں جس کو مترجم مرحوم نے ”لپکے ہوئے“ سے تعبیر کیا ہے ۔بعض نے غصہ اور حسد کئے ہیں 'یعنی مساکین پر غیظ و غضب کا اظہار یا حسد کرتے ہوئے قادرین حال ہےیعنی اپنے معاملے کا انہوں نے اندازہ کر لیا، یا اپنے ارادے سے انہوں نے باغ پر قدرت حاصل کر لی، یا مطلب ہے مساکین پر انہوں نے قابو پا لیا۔
Las Exégesis Árabes:
فَلَمَّا رَاَوْهَا قَالُوْۤا اِنَّا لَضَآلُّوْنَ ۟ۙ
جب انہوں نے باغ دیکھا(1) تو کہنے لگے یقیناً ہم راستہ(2) بھول گئے.
(1) یعنی باغ والی جگہ کو راکھ کا ڈھیر یا اسے تباہ برباد دیکھا۔
(2) یعنی پہلے پہل تو ایک دوسرے کو کہا۔
Las Exégesis Árabes:
بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ ۟
نہیں نہیں بلکہ ہماری قسمت پھوٹ گئی.(1)
(1) پھر جب غور کیا تو جان گئے کہ یہ آفت زدہ اور تباہ شدہ باغ ہمارا ہی ہے جسے اللہ نے ہمارے طرز عمل کی پاداش میں ایسا کر دیا اور واقعی یہ ہماری بد نصیبی ہے۔ٍ
Las Exégesis Árabes:
قَالَ اَوْسَطُهُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُوْنَ ۟
ان سب میں جو بہتر تھا اس نے کہا کہ میں تم سے نہ کہتا تھا کہ تم اللہ کی پاکیزگی کیوں نہیں بیان کرتے؟(1)
(1) بعض نے تسبیح سے مراد ان شاء اللہ کہنا مراد لیا ہے۔
Las Exégesis Árabes:
قَالُوْا سُبْحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ ۟
تو سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے بیشک ہم ہی ﻇالم تھے.(1)
(1) یعنی اب انہیں احساس ہوا کہ ہم نے اپنے باپ کے طرز عمل کے خلاف قدم اٹھا کر غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کی سزا اللہ نے ہمیں دی ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ معصیت کا عزم اور اس کے لیے ابتدائی اقدامات بھی ارتکاب معصیت کی طرح جرم ہے جس پر مؤاخذہ ہوسکتا ہے صرف وہ ارادہ معاف ہے جو وسوسے کی حد تک رہتا ہے۔
Las Exégesis Árabes:
فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَلَاوَمُوْنَ ۟
پھر وه ایک دوسرے کی طرف رخ کر کے آپس میں ملامت کرنے لگے.
Las Exégesis Árabes:
قَالُوْا یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا طٰغِیْنَ ۟
کہنے لگے ہائے افسوس! یقیناً ہم سرکش تھے.
Las Exégesis Árabes:
عَسٰی رَبُّنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَنَا خَیْرًا مِّنْهَاۤ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ ۟
کیا عجب ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے دے ہم تو اب(1) اپنے رب سے ہی آرزو رکھتے ہیں.
(1) کہتے ہیں کہ انہوں نے آپس میں عہد کیا کہ اب اگر اللہ نے ہمیں مال دیا تو اپنے باپ کی طرح اس میں سے غربا اور مساکین کا حق ادا کریں گے۔ اسلئے ندامت اور توبہ کے ساتھ رب سے امیدیں بھی وابستہ کیں۔
Las Exégesis Árabes:
كَذٰلِكَ الْعَذَابُ ؕ— وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ ۘ— لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ۟۠
یوں ہی آفت آتی ہے(1) اور آخرت کی آفت بہت بڑی ہے۔ کاش انہیں سمجھ ہوتی.(2)
(1) یعنی اللہ کے حکم کی مخالفت اور اللہ کے دیے مال میں بخل کرنے والوں کو ہم دنیا میں اسی طرح عذاب دیتے ہیں۔
(2) لیکن افسوس وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے، اس لئے پروا نہیں کرتے۔
Las Exégesis Árabes:
اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ ۟
پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنتیں ہیں.
Las Exégesis Árabes:
اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ كَالْمُجْرِمِیْنَ ۟ؕ
کیا ہم مسلمانوں کو مثل گناه گاروں کے کردیں گے.(1)
(1) مشرکین مکہ کہتے تھے کہ اگر قیامت ہوئی تو وہاں بھی ہم مسلمانوں سے بہتر ہی ہونگے، جیسے دنیا میں ہم مسلمانوں سے زیادہ آسودہ حال ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان کے جواب میں فرمایا، یہ کس طرح ممکن ہے ہم مسلمانوں کو یعنی اپنے فرماں برداروں کو مجرموں یعنی نافرمانوں کی طرح کر دیں گے مطلب یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالٰی عدل وانصاف کے خلاف دونوں کو یکساں کردے۔
Las Exégesis Árabes:
مَا لَكُمْ ۫— كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ ۟ۚ
تمہیں کیا ہوگیا، کیسے فیصلے کر رہے ہو؟
Las Exégesis Árabes:
اَمْ لَكُمْ كِتٰبٌ فِیْهِ تَدْرُسُوْنَ ۟ۙ
کیا تمہارے پاس کوئی کتاب(1) ہے جس میں تم پڑھتے ہو؟
(1) جس میں یہ بات لکھی ہوئی ہے جس کا تم دعویٰ کر رہے ہو، کہ وہاں بھی تمہارے لئے وہ کچھ ہو جسے تم پسند کرتے ہو۔
Las Exégesis Árabes:
اِنَّ لَكُمْ فِیْهِ لَمَا تَخَیَّرُوْنَ ۟ۚ
کہ اس میں تمہاری من مانی باتیں ہوں؟
Las Exégesis Árabes:
اَمْ لَكُمْ اَیْمَانٌ عَلَیْنَا بَالِغَةٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ ۙ— اِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُوْنَ ۟ۚ
یا تم نے ہم سے کچھ قسمیں لی ہیں؟ جو قیامت تک باقی رہیں کہ تمہارے لیے وه سب ہے جو تم اپنی طرف سے مقرر کر لو.(1)
(1) یا ہم نے تم سے پکا عہد کر رکھا ہے، جو قیامت تک باقی رہنے والا ہے کہ تمہارے لئے وہی کچھ ہوگا جس کا تم اپنی بابت فیصلہ کرو گے۔`
Las Exégesis Árabes:
سَلْهُمْ اَیُّهُمْ بِذٰلِكَ زَعِیْمٌ ۟ۚۛ
ان سے پوچھو تو کہ ان میں سے کون اس بات کا ذمہدار (اور دعویدار) ہے؟(1)
(1) کہ وہ قیامت والے دن ان کے لئے وہی کچھ فیصلہ کروائے گا، جو اللہ تعالٰی مسلمانوں کے لئے فرمائے گا۔
Las Exégesis Árabes:
اَمْ لَهُمْ شُرَكَآءُ ۛۚ— فَلْیَاْتُوْا بِشُرَكَآىِٕهِمْ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِیْنَ ۟
کیا ان کے کوئی شریک ہیں؟ تو چاہئے کہ اپنے اپنے شریکوں کو لے آئیں اگر یہ سچے ہیں.(1)
(1) یا جن کو انہوں نے شریک ٹھہرا رکھا ہے وہ ان کی مدد کر کے ان کو اچھا مقام دلوا دیں گے؟ اگر ان کے شریک ایسے ہیں تو ان کو سامنے لائیں تاکہ ان کی صداقت واضح ہو۔
Las Exégesis Árabes:
یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ۟ۙ
جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو (سجده) نہ کر سکیں گے.(1)
(1) بعض نے کشف ساق سے مراد قیامت کی ہولناکیاں لی ہیں لیکن ایک صحیح حدیث اس کی تفسیر اس طرح بیان ہوئی ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالٰی اپنی پنڈلی کھولے گا (جس طرح اس کی شان کے لائق ہے) تو ہر مومن مرد اور عورت اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے البتہ وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھلاوے اور شہرت کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی ریڑھ کی ہڈی کے منکے، تختے کی طرح ایک ہڈی بن جائیں گے جس کی وجہ سے ان کے لئے جھکنا ناممکن ہو جائے گا (صحیح بخاری) اللہ تعالٰی کی پنڈلی کس طرح کی ہوگی؟ اسے وہ کس طرح کھولے گا؟ اس کیفیت ہم نہ جان سکتے ہیں نہ بیان کر سکتے ہیں۔ اس لئے جس طرح ہم بلا کیف و بلاشبہ اس کی آنکھوں، کان، ہاتھ وغیرہ پر ایمان رکھتے ہیں، اسی طرح پنڈلی کا ذکر بھی قرآن اور حدیث میں ہے، اس پر بلاکیف ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یہی سلف اور محدثین کا مسلک ہے۔
Las Exégesis Árabes:
خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ؕ— وَقَدْ كَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ وَهُمْ سٰلِمُوْنَ ۟
نگاہیں نیچی ہوں گی اور ان پر ذلت و خواری چھارہی ہوگی(1) ، حاﻻنکہ یہ سجدے کے لیے (اس وقت بھی) بلائے جاتے تھے جب کہ صحیح سالم تھے.(2)
(1) یعنی دنیا کے برعکس ان کا معاملہ ہوگا دنیا میں تکبر وعناد کی وجہ سے ان کی گردنیں اکڑی ہوتی تھیں۔
(2) یعنی صحت مند اور توانا تھے، اللہ کی عبادت میں کوئی چیز ان کے لئے مانع نہیں تھی۔ لیکن دنیا میں اللہ کی عبادت سے یہ دور رہے۔`
Las Exégesis Árabes:
فَذَرْنِیْ وَمَنْ یُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِیْثِ ؕ— سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ ۟ۙ
پس مجھے اور اس کلام کو جھٹلانے والے کو چھوڑ دے(1) ہم انہیں اس طرح آہستہ آہستہ کھینچیں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہوگا.(2)
(1) یعنی میں ہی ان سے نمٹ لوں گا تو ان کی فکر نہ کر.
(2) یہ اسی استدراج (ڈھیل دینے) کا ذکر ہے۔ قرآن میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے اور حدیث میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ نافرمانی کے باوجود دنیاوی مال و اسباب کی فراوانی، اللہ کا فضل نہیں ہے، اللہ کے قانون پھر جب وہ گرفت کرنے پر آتا ہے تو کوئی بچانے والا نہیں ہوتا۔
Las Exégesis Árabes:
وَاُمْلِیْ لَهُمْ ؕ— اِنَّ كَیْدِیْ مَتِیْنٌ ۟
اور میں انہیں ڈھیل دوں گا، بیشک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے.(1)
(1) یہ گزشتہ مضمون ہی کی تاکید ہے ۔کید خفیہ تدبیر اور چال کو کہتے ہیں اچھے مقصد جت کےت یو تو اس میں کوئی برائی نہیں ۔اسے اردو زبان کا کید نہ سمجھا ائے جس میں زم ہی کا مفہوم ہوتا ہے۔
Las Exégesis Árabes:
اَمْ تَسْـَٔلُهُمْ اَجْرًا فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ ۟ۚ
کیا تو ان سے کوئی اجرت چاہتا ہے جس کے تاوان سے یہ دبے جاتے ہیں.(1)
(1) یہ خطاب نبی (صلى الله عليه وسلم) کو ہے لیکن سرزنش ان کو کی جا رہی ہے جو آپ پر ایمان نہیں لا رہے تھے۔
Las Exégesis Árabes:
اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَیْبُ فَهُمْ یَكْتُبُوْنَ ۟
یا کیا ان کے پاس علم غیب ہے جسے وه لکھتے ہوں.(1)
(1) یعنی کیا غیب کا علم ان کے پاس ہے لوح محفوظ ان کے تصرف میں ہے کہ اس میں سے جو بات چاہتے ہیں نقل کر لیتے ہیں اس لیے یہ تیری اطاعت اختیار کرنے اور تجھ پر ایمان لانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔
Las Exégesis Árabes:
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ ۘ— اِذْ نَادٰی وَهُوَ مَكْظُوْمٌ ۟ؕ
پس تو اپنے رب کے حکم کا صبر سے (انتظار کر(1) ) اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جا جب(2) کہ اس نے غم کی حالت میں دعا کی.(3)
(1) فا صبر میں فاؔء تفریع کے لئے ہے ۔یعنی ھب واقعہ ایسا نہیں ہے تو اے پیغمبر!تو فرحی رسالت ادا کرتا رہاور ان مکذبین کے بارے میں اللہ کے فیصلےکا انتظار کر۔
(2) جنہوں نے اپنی قوم کی روش تکذیب کو دیکھتے ہوئے عجلت سے کام لیا اور رب کے فیصلے کے بغیر ہی از خود اپنی قوم کو چھوڑکر چلے گئے۔
(3) جس کے نتیجے میں انہیں مچھلی کے پیٹ میں، جب کہ وہ غم و اندوہ سے بھرے ہوئے تھے اپنے رب کو مدد کے لئے پکارنا پڑا۔ جیسے کہ تفصیل پہلے گزر چکی ہے،
Las Exégesis Árabes:
لَوْلَاۤ اَنْ تَدٰرَكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآءِ وَهُوَ مَذْمُوْمٌ ۟
اگر اسے اس کے رب کی نعمت نہ پالیتی تو یقیناً وه برے حالوں میں چٹیل میدان میں ڈال دیا جاتا.(1)
(1) یعنی اگر اللہ تعالٰی انہیں توبہ و مناجات کی توفیق نہ دیتا اور ان کی دعا قبول نہ فرماتا تو ساحل سمندر کے بجائے جہاں ان کے سائے اور خوراک کے لئے بیلدار درخت اگا دیا گیا، کسی بنجر زمین میں پھینک دیا جاتا اور عند اللہ ان کی حیثیت بھی مذموم رہتی، جب کہ قبولیت دعا کے بعد وہ محمود ہوگئے۔
Las Exégesis Árabes:
فَاجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ فَجَعَلَهٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ۟
اسے اس کے رب نے پھر نوازا(1) اور اسے نیک کاروں میں کر دیا.(2)
(1) اس کا مطلب ہے کہ انہیں توانا اور تندرست کرنے کے بعد دوبارہ رسالت سے نواز کر انہیں اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا، جیسا کہ (سورۂ صافات:146) سے بھی واضح ہے۔
(2) اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں۔(صحیح مسلم ،کتاب الفضائل باب فی ذکر یونس)
Las Exégesis Árabes:
وَاِنْ یَّكَادُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَیَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌ ۟ۘ
اور قریب ہے کہ کافر اپنی تیز نگاہوں سے آپ کو پھسلا دیں(1) ، جب کبھی قرآن سنتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ تو ضرور دیوانہ ہے.(2)
(1) یعنی اگر تجھے اللہ کی حمائت و حفاظت نہ ہوتی تو کفار کی حاسدانہ نظروں سے نظر بد کا شکار ہو جانا یعنی ان کی نظر تمہیں لگ جاتی۔ چنانچہ امام ابن کثیر نے یہ مفہوم بیان کیا، مذید لکھتے ہیں ' یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نظر کا لگ جانا اور اس کا دوسروں پر، اللہ کے حکم سے، اثر انداز ہونا، حق ہے۔ جیسا کہ متعدد احادیث سے بھی ثابت ہے۔ چنانچہ حدیث میں اس سے بچنے کے لیے دعائیں بھی بیان کی گئی ہیں اور یہ بھی تاکید کی گئی ہے کہ جب تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو ماشاء اللہ یا بارک اللہ کہا کرو تاکہ اسے نظر نہ لگے۔اسی طرح کسی کو نظر لگ جائے رو فرمای ، اسے غسل کروا کے اس کا پانی اس شخص پر ڈالا جائے جس کو اس کی نظرلگی ہے(تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر اور کتب حدیث)اس کا مطلب یہ بیا کیا ہے کہ یہ تجھے تبلیغرسالت سے پھیر دیتے۔
(2) یعنی حسد کے طور پر بھی اور اس غرض سے بھی کہ لوگ اس قرآن سے متاثر نہ ہوں بلکہ اس سے دور ہی رہیں آنکھوں کے ذریعے سے بھی یہ کفار نبی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے اور زبانوں سے بھی آپ کو دیوانہ کہہ کر ایذاء پہنچاتے اور آپ کے دل کو مجروح کرتے۔
Las Exégesis Árabes:
وَمَا هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ ۟۠
در حقیقت یہ (قرآن) تو تمام جہان والوں کے لیے سراسر نصیحت ہی ہے.(1)
(1) جب واقعہ یہ ہے کہ یہ قرآن جن و انس کی ہدایت و رہنمائی کے لئے آیا ہے تو پھر اس کو لانے والا اور بیان کرنے والا مجنون (دیوانہ) کس طرح ہو سکتا ہے؟
Las Exégesis Árabes:
 
Traducción de significados Capítulo: Sura Al-Qalam
Índice de Capítulos Número de página
 
Traducción de los significados del Sagrado Corán - Traducción Urdu - Índice de traducciones

Traducción del significado del Noble Corán al urdu por Muhammad Ibrahim Gunakry. Corregido por la supervisión del Centro de traducción Ruwwad. La traducción original está disponible para sugerencias, evaluación continua y desarrollo.

Cerrar