prev

بیّنہ

next

external-link copy
1 : 98

لَمْ یَكُنِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِیْنَ مُنْفَكِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَهُمُ الْبَیِّنَةُ ۟ۙ

اہل کتاب کے کافر[1] اور مشرک[2] لوگ جب تک کہ ان کے پاس ظاہر دلیل نہ آجائے باز رہنے والے نہ تھے (وه دلیل یہ تھی کہ). info

[1] اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں۔
[2] مشرک سے مراد عرب وعجم کے وہ لوگ ہیں جو بتوں اور آگ کے پجاری تھے۔ مُنْفَكِّينَ باز آنے والے، بَيِّنَةٌ ( دلیل ) سے مراد نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) ہیں۔ یعنی یہود ونصاریٰ اور عرب وعجم کے مشرکین اپنے کفر وشرک سے باز آنے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ان کے پاس محمد (صلى الله عليه وسلم) قرآن لے کر آجائیں اور وہ ان کی ضلالت وجہالت بیان کریں اور انہیں ایمان کی دعوت دیں۔

التفاسير: |

external-link copy
2 : 98

رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً ۟ۙ

اللہ تعالیٰ کا ایک رسول[1] جو پاک صحیفے پڑھے.[2] info

[1] یعنی حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) ۔
[2] یعنی قرآن مجید جو لوح محفوظ میں پاک صحیفوں میں درج ہے۔

التفاسير: |

external-link copy
3 : 98

فِیْهَا كُتُبٌ قَیِّمَةٌ ۟ؕ

جن میں صحیح اور درست احکام ہوں.[1] info

[1] یہاں كُتُبٌ سے مراد احکام دینیہ اور قَيِّمَةٌ، معتدل اورسیدھے۔

التفاسير: |

external-link copy
4 : 98

وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنَةُ ۟ؕ

اہل کتاب اپنے پاس ظاہر دلیل آجانے کے بعد ہی (اختلاف میں پڑ کر) متفرق ہوگئے.[1] info

[1] یعنی اہل کتاب، حضرت نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی آمد سے قبل مجتمع تھے، یہاں تک کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی بعثت ہوگئی، اس کے بعد یہ متفرق ہوگئے، ان میں سے کچھ مومن ہوگئے، لیکن اکثریت ایمان سے محروم ہی رہی۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی بعثت ورسالت کو دلیل سے تعبیر کرنے میں یہی نکتہ ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی صداقت واضح تھی جس میں مجال انکار نہیں تھی۔ لیکن ان لوگوں نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کی تکذیب محض حسد اور عناد کی وجہ سے کی۔ یہی وجہ ہے کہ، یہاں تفرق کا ارتکاب کرنے والوں میں صرف اہل کتاب کا نام لیا ہے، حالاں کہ دوسروں نے بھی اس کا ارتکاب کیا تھا، کیوں کہ یہ بہرحال علم والے تھے اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کی آمد اور صفات کا تذکرہ ان کی کتابوں میں موجود تھا۔

التفاسير: |

external-link copy
5 : 98

وَمَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ۙ۬— حُنَفَآءَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَذٰلِكَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِ ۟ؕ

انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا[1] کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ ابراہیم حنیف[2] کے دین پر اور نماز کو قائم رکھیں اور زکوٰة دیتے رہیں یہی ہے دین سیدھی ملت کا.[3] info

[1] یعنی ان کی کتابوں میں انہیں حکم تو یہ دیا گیا تھا کہ۔۔۔
[2] حَنِيفٌ کے معنی ہیں، مائل ہونا، کسی ایک طرف یکسو ہونا، حُنَفَاءَ جمع ہے۔ یعنی شرک سے توحید کی طرف اور تمام ادیان سے منقطع ہو کر صرف دین اسلام کی طرف مائل اور یکسو ہوتے ہوئے۔ جیسے حضرت ابراہیم (عليه السلام) نے کیا۔
[3] الْقَيِّمَةُ محذوف موصوف کی صفت ہے۔ دِينُ الْمِلَّةِ الْقَيِّمَةِ أَيْ: الْمُسْتَقِيمَةِ یا الأُمَّةُ الْمُسْتَقِيمَةُ الْمُعْتَدِلَةُ، یہی اس ملت یا امت کا دین ہے جو سیدھی اور متعدل ہے۔ اکثر ائمہ نے اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ اعمال، ایمان میں داخل ہیں۔ (ابن کثیر) ۔

التفاسير: |
prev

بیّنہ

next