Check out the new design

Terjemahan makna Alquran Alkarim - Terjemahan Berbahasa Urdu - Muhammad Jonakri * - Daftar isi terjemahan

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Terjemahan makna Surah: Al-Kahf   Ayah:
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ ؕ— وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا ۟
ہم نے اس قرآن میں ہر ہر طریقے سے تمام کی تمام مثالیں لوگوں کے لئے بیان کردی ہیں لیکن انسان سب سے زیاده جھگڑالو ہے.(1)
(1) یعنی ہم نے انسانوں کو حق کا راستہ سمجھانے کے لئے قرآن میں ہر طریقہ استعمال کیا، وعظ و تذکیر، امثال و واقعات اور دلائل و براہین، علاوہ ازیں انہیں بار بار اور مختلف انداز سے بیان کیا ہے۔ لیکن انسان چونکہ سخت جھگڑالو ہے، اس لئے وعظ نصیحت کا اس پر اثر ہوتا ہے اور نہ دلائل و براہین اس کے لئے کارگر۔
Tafsir berbahasa Arab:
وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْۤا اِذْ جَآءَهُمُ الْهُدٰی وَیَسْتَغْفِرُوْا رَبَّهُمْ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمْ سُنَّةُ الْاَوَّلِیْنَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا ۟
لوگوں کے پاس ہدایت آچکنے کے بعد انہیں ایمان ﻻنے اور اپنے رب سے استغفار کرنے سے صرف اسی چیز نے روکا کہ اگلے لوگوں کا سا معاملہ انہیں بھی پیش آئے(1) یا ان کے سامنے کھلم کھلا عذاب آموجود ہوجائے.(2)
(1) یعنی تکذیب کی صورت میں ان پر بھی اسی طرح عذاب آئے، جیسے پہلے لوگوں پر آیا۔
(2) یعنی اہل مکہ ایمان لانے کے لئے ان دو باتوں میں سے کسی ایک کے منتظر ہیں۔ لیکن ان عقل کے اندھوں کو یہ پتہ نہیں کہ اس کے بعد ایمان کی کوئی حیثیت ہی نہیں یا اس کے بعد ایمان لانے کا ان کو موقع ہی کب ملے گا؟۔
Tafsir berbahasa Arab:
وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ۚ— وَیُجَادِلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْا بِهِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوْۤا اٰیٰتِیْ وَمَاۤ اُنْذِرُوْا هُزُوًا ۟
ہم تو اپنے رسولوں کو صرف اس لئے بھیجتے ہیں کہ وه خوشخبریاں سنا دیں اور ڈرا دیں۔ کافر لوگ باطل کے سہارے جھگڑتے ہیں اور (چاہتے ہیں کہ) اس سے حق کو لڑکھڑادیں، انہوں نے میری آیتوں کو اور جس چیز سے ڈرایا جائے اسے مذاق بنا ڈاﻻ ہے.(1)
(1) اور اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑانا، یہ جھٹلانے کی بدترین قسم ہے۔ اس طرح جدال بالباطل کے ذریعہ سے (یعنی باطل طریقے اختیار کر کے) حق کو باطل ثابت کرنے کی سعی کرنا بھی نہایت مذموم حرکت ہے۔ اس جدال بالباطل کی ایک صورت یہ ہے جو کافر رسولوں کو یہ کہہ کر ان کی رسالت انکار کر دیتے رہے ہیں کہ تم ہمارے جیسے ہی انسان ہو۔«مَا أَنْتُمْ إِلا بَشَرٌ مِثْلُنَا» (يٰس:15)۔ ہم تمہیں رسول کس طرح تسلیم کرلیں؟ دَحَضَ ۔ کے اصل معنی پھسلنے کے ہیں کہا جاتا ہے دَحَضَتْ رِجْلُهُ اس کا پیر پھسل گیا یہاں سے یہ کسی چیز کے زوال اور بطلان کے معنی میں استعمال ہونے لگا کہتے ہیں دَحَضَتْ حُجَّتُهُ دُحُوضًا أي بَطَلَتْ اس کی حجت باطل ہوگئی اس لحاظ سے ادحض یدحض کے معنی ہوں گے باطل کرنا (فتح القدیر)
Tafsir berbahasa Arab:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ فَاَعْرَضَ عَنْهَا وَنَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُ ؕ— اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَفِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا ؕ— وَاِنْ تَدْعُهُمْ اِلَی الْهُدٰی فَلَنْ یَّهْتَدُوْۤا اِذًا اَبَدًا ۟
اس سے بڑھ کر ﻇالم کون ہے؟ جسے اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے وه پھر منھ موڑے رہے اور جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیج رکھا ہے اسے بھول جائے، بےشک ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ وه اسے (نہ) سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ہے، گو تو انہیں ہدایت کی طرف بلاتا رہے، لیکن یہ کبھی بھی ہدایت نہیں پانے(1) کے.
(1) یعنی ان کے اس ظلم عظیم کی وجہ سے کہ انسان نے رب کی آیات سے اعراض کیا اور اپنے کرتوتوں کو بھولے رہے، ان کے دلوں پر ایسے پردے اور ان کے کانوں پر ایسے بوجھ ڈال دیئے گئے ہیں، جس سے قرآن کا سمجھنا، سننا اور اس سے ہدایت قبول کرنا ان کے لئے ناممکن ہوگیا۔ ان کو کتنا بھی ہدایت کی طرف بلا لو، یہ کبھی بھی ہدایت کا راستہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہونگے۔
Tafsir berbahasa Arab:
وَرَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَةِ ؕ— لَوْ یُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ ؕ— بَلْ لَّهُمْ مَّوْعِدٌ لَّنْ یَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِهٖ مَوْىِٕلًا ۟
تیرا پروردگار بہت ہی بخشش واﻻ اور مہربانی واﻻ ہے وه اگر ان کے اعمال کی سزا میں پکڑے تو بےشک انہیں جلد ہی عذاب کردے، بلکہ ان کے لئے ایک وعده کی گھڑی مقرر ہے جس سے وه سرکنے کی ہرگز جگہ نہیں پائیں گے.(1)
(1) یعنی یہ تو رب غفور کی رحمت ہے کہ وہ گناہ پر فوراً گرفت نہیں فرماتا، بلکہ مہلت دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پاداش عمل میں ہر شخص ہی عذاب الٰہی کے شکنجے میں کسا ہوتا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جب مہلت عمل ختم ہو جاتی ہے اور ہلاکت کا وقت آجاتا ہے، جو اللہ تعالٰی مقرر کئے ہوتا ہے تو پھر فرار کا کوئی راستہ اور بچاؤ کی کوئی سبیل ان کے لئے نہیں رہتی۔ مو‏‏ئل۔ کے معنی ہیں جائے پناہ راہ فرار۔
Tafsir berbahasa Arab:
وَتِلْكَ الْقُرٰۤی اَهْلَكْنٰهُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِمْ مَّوْعِدًا ۟۠
یہ ہیں وه بستیاں جنہیں ہم نے ان کے مظالم کی بنا پر غارت کردیا اور ان کی تباہی کی بھی ہم نے ایک میعاد مقرر کر رکھی تھی.(1)
(1) اس سے مراد، عاد، ثمود اور حضرت شعیب (عليه السلام) اور حضرت لوط (عليه السلام) وغیرہ کی قومیں جو اہل حجاز کے قریب اور ان کے راستوں میں ہی تھیں۔ انہیں بھی اگرچہ ان کے ظلم کے سبب ہی ہلاک کیا گیا لیکن ہلاکت سے پہلے انہیں پورا موقع دیا گیا اور جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کا ظلم و طغیان اس حد کو پہنچ گیا ہے جہاں سے ہدایت کے راستے بالکل مسدود ہو جاتے ہیں اور ان سے خیر اور بھلائی کی امید باقی نہیں رہی، تو پھر ان کی مہلت عمل ختم اور تباہی کا وقت شروع ہوگیا۔ پھر انہیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔ یا اہل دنیا کے لئے عبرت کا نمونہ بنا دیا گیا۔ یہ دراصل اہل مکہ کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تم ہمارے آخری پیغمبر اور اشرف الرسل حضرت محمد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی تکذیب کر رہے ہو۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں مہلت مل رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں بلکہ یہ مہلت تو سنت اللہ ہے، جو ایک وقت موعود تک ہر فرد گروہ اور قوم کو وہ عطا کرتا ہے جب یہ مدت ختم ہو جائے گی اور تم اپنے کفر و عناد سے باز نہیں آؤ گے تو پھر تمہارا حشر بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا جو تم سے پہلی قوموں کا ہو چکا ہے۔
Tafsir berbahasa Arab:
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤی اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا ۟
جب کہ موسیٰ نے اپنے نوجوان(1) سے کہا کہ میں تو چلتا ہی رہوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں(2) کے سنگم پر پہنچوں، خواه مجھے سالہا سال چلنا پڑے.(3)
(1) نوجوان سے مراد حضرت یوشع بن نون (عليه السلام) ہیں جو موسیٰ (عليه السلام) کے وفات کے بعد ان کے جانشین بنے۔
(2) اس مقام کی تعیین کسی یقینی ذریعہ سے نہیں ہو سکی تاہم قیاس کیا جاتا ہے کہ اس سے مراد صحرائے سینا کا وہ جنوبی راستہ ہے جہاں خلیج عقبہ اور خلیج سویز دونوں آکر ملتے ہیں اور بحر احمر میں ضم ہو جاتے ہیں۔ دوسرے مقامات جن کا ذکر مفسرین نے کیا ہے ان پر سرے سے مجمع البحرین کی تعبیر ہی صادق نہیں آتی۔
(3) حقب، کے ایک معنی ۷۰یا ۸۰ سال اور دوسرے معنی غیر معین مدت کے ہیں یہاں یہی دوسرا معنی مراد ہے یعنی جب تک میں مجمع البحرین (جہاں دونوں سمندر ملتے ہیں) نہیں پہنچ جاؤں گا، چلتا رہوں گا اور سفر جاری رکھوں گا، چاہے کتنا بھی عرصہ لگ جائے۔ حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو اس سفر کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ انہوں نے ایک موقع پر ایک سائل کے جواب میں یہ کہہ دیا کہ اس وقت مجھ سے بڑا عالم کوئی نہیں۔ اللہ تعالٰی کو ان کا یہ جملہ پسند نہیں آیا اور وحی کے ذریعہ سے انہیں مطلع کیا کہ ہمارا ایک بندہ (خضر) ہے جو تجھ سے بڑا عالم ہے۔ حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے پوچھا کہ یا اللہ اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا، جہاں دونوں سمندر ملتے ہیں، وہیں ہمارا وہ بندہ بھی ہوگا۔ نیز فرمایا کہ مچھلی ساتھ لے جاؤ، جہاں مچھلی تمہاری ٹوکری (زنبیل) سے نکل کر غائب ہو جائے تو سمجھ لینا کہ یہی مقام ہے (بخاری، سورہ کہف) چنانچہ اس کے حکم کے مطابق انہوں نے ایک مچھلی لی اور سفر شروع کر دیا۔
Tafsir berbahasa Arab:
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِهِمَا نَسِیَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیْلَهٗ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا ۟
جب وه دونوں دریا کے سنگم پر پہنچے، وہاں اپنی مچھلی بھول گئے جس نے دریا میں سرنگ جیسا اپنا راستہ بنالیا.
Tafsir berbahasa Arab:
 
Terjemahan makna Surah: Al-Kahf
Daftar surah Nomor Halaman
 
Terjemahan makna Alquran Alkarim - Terjemahan Berbahasa Urdu - Muhammad Jonakri - Daftar isi terjemahan

Terjemahan oleh Muhammad Ibrahim Jonakri. Dikembangkan di bawah pengawasan Markaz Ruwād Terjemah. Teks terjemahan asli bisa dilihat untuk memberikan masukan dan evaluasi serta pengembangan berkelanjutan.

Tutup