Check out the new design

Terjemahan makna Alquran Alkarim - Terjemahan Berbahasa Urdu - Muhammad Jonakri * - Daftar isi terjemahan

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Terjemahan makna Surah: Al-Baqarah   Ayah:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ هَادُوْا وَالنَّصٰرٰی وَالصّٰبِـِٕیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۪ۚ— وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ ۟
مسلمان ہوں، یہودی(1) ہوں، نصاریٰ(2) ہوں یا صابی(3) ہوں، جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ﻻئے اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے رب کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی(4)
(1) يَهُود هَوَادَةٌ (بمعنی محبت) سے یا تَهَوّدٌ (بمعنی توبہ) سے بنا ہے۔ گویا ان کا یہ نام اصل میں توبہ کرنے یا ایک دوسرے کے ساتھ محبت رکھنے کی وجہ سے پڑا۔ تاہم موسیٰ (عليه السلام) کے ماننے والوں کو یہود کہا جاتا ہے۔
(2) نَصَارَى، نَصْرَانٌ کی جمع ہے۔ جیسے سُكَارَى سَكْرَانُ کی جمع ہے۔ اس کا مادہ نصرت ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی وجہ سے ان کا نام پڑا، ان کو انصار بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو کہا تھا: «نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ» حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے پیروکاروں کو نصاریٰ کہا جاتا ہے، جن کو عیسائی بھی کہتے ہیں۔
(3) صَابِئِينَ صَابِئٌ کی جمع ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو یقیناً ابتداءً کسی دین حق کے پیرو رہے ہوں گے (اسی لئے قرآن میں یہودیت و عیسائیت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا ہے) لیکن بعد میں ان کے اندر فرشتہ پرستی اور ستارہ پرستی آگئی، یا یہ کسی بھی دین کے پیرو نہ رہے۔ اسی لئے لا مذہب لوگوں کو صابی کہا جانے لگا۔
(4) بعض جدید مفسرین کو اس آیت کا مفہوم سمجھنے میں بڑی غلطی لگی ہے اور اس سے انہوں نے وحدت ادیان کا فلسفہ کشید کرنے کی مذموم سعی کی ہے۔ یعنی رسالت محمدیہ پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو بھی جس دین کو مانتا ہے اور اس کے مطابق ایمان رکھتا اور اچھے عمل کرتا ہے، اس کی نجات ہوجائے گی، یہ فلسفہ سخت گمراہ کن ہے، آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیات میں یہود کی بدعلمیوں اور سرکشیوں اور اس کی بنا پر ان کے مستحق عذاب ہونے کا تذکرہ فرمایا تو ذہن میں اشکال پیدا ہوسکتا تھا کہ ان یہود میں جو لوگ صحیح، کتاب الٰہی کے پیرو اور اپنے پیغمبر کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ فرمایا؟ یا کیا معاملہ فرمائے گا؟ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرمادی کہ صرف یہودی ہی نہیں، نصاریٰ اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنہوں نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھا اور عمل صالح کرتے رہے، وہ سب نجات اخروی سے ہمکنار ہوں گے اور اسی طرح اب رسالت محمدیہ پر ایمان لانے والے مسلمان بھی اگر صحیح طریقے سے ایمان باللہ والیوم الآخر اور عمل صالح کا اہتمام کریں تو یہ بھی یقیناً آخرت کی ابدی نعمتوں کے مستحق قرار پائیں گے۔ نجات اخروی میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا۔
وہاں بےلاگ فیصلہ ہوگا۔ چاہے مسلمان ہوں یا رسول آخرالزمان (صلى الله عليه وسلم) سے پہلے گزر جانے والے یہودی، عیسائی اور صابی وغیرھم۔ اس کی تائید بعض مرسل آثار سے ہوتی ہے، مثلاً مجاہد حضرت سلمان فارسی! سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی (صلى الله عليه وسلم) سے ان اہل دین کے بارے میں پوچھا جو میرے ساتھی تھے، عبادت گزار اور نمازی تھے (یعنی رسالت محمدیہ سے قبل وہ اپنے دین کے پابند تھے) تو اس موقعے پر یہ آیت نازل ہوئی۔ «إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا»۔ الآیۃ (ابن کثیر) قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے اس کی مزید تائید ہوتی ہے مثلاً «إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإِسْلامُ» (آل عمران: 19) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔ «وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ» (آل عمران: 85) جواسلام کے سوا کسی اور دین کا متلاشی ہوگا، وہ ہرگز مقبول نہیں ہوگا اور احادیث میں بھی نبی (صلى الله عليه وسلم) نے وضاحت فرمادی کہ اب میری رسالت پر ایمان لائے بغیر کسی شخص کی نجات نہیں ہوسکتی، مثلاً فرمایا: «والَّذِي نَفْسِي بِيَدِه! لا يَسْمَعُ بِي رَجَلٌ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَّلا نَصْرَانِيٌّ ثُمّ لا يُؤْمِنُ بِي إِلا دَخَل النَّارَ» (صحيح مسلم ، كتاب الإيمان ، باب وجوب الإيمان برسالة نبينا محمد (صلى الله عليه وسلم) ) ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری اس امت میں جو شخص بھی میری بابت سن لے، وہ یہودی ہو یا عیسائی، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ وحدت ادیان کی گمراہی، جہاں دیگر آیات قرآنی کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ ہے، وہاں احادیث کے بغیر قرآن کو سمجھنے کی مذموم سعی کا بھی اس میں بہت دخل ہے۔ اسی لئے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ احادیث صحیحہ کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جاسکتا۔
Tafsir berbahasa Arab:
وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ ؕ— خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ۟
اور جب ہم نے تم سے وعده لیا اور تم پر طور پہاڑ ﻻکھڑا کردیا(1) (اور کہا) جو ہم نے تمہیں دیا ہے، اسے مضبوطی سے تھام لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد کرو تاکہ تم بچ سکو
(1) جب تورات کے احکام کے متعلق یہود نے از راہ شرارت کہا کہ ہم سے تو ان احکام پر عمل نہیں ہوسکے گا تو اللہ تعالیٰ نے طور پہاڑ کو سائبان کی طرح ان کے اوپر کردیا، جس سے ڈر کرانہوں نے عمل کرنے کا وعدہ کیا۔
Tafsir berbahasa Arab:
ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِكَ ۚ— فَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَكُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ ۟
لیکن تم اس کے بعد بھی پھر گئے، پھر اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم نقصان والے ہوجاتے۔
Tafsir berbahasa Arab:
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـِٕیْنَ ۟ۚ
اور یقیناً تمہیں ان لوگوں کا علم بھی ہے جو تم میں سے ہفتہ(1) کے بارے میں حد سے بڑھ گئے اور ہم نے بھی کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ۔
(1) سَبْتٌ (ہفتہ) کے دن یہودیوں کو مچھلی کا شکار، بلکہ کوئی بھی دنیاوی کام کرنے سے منع کیا گیا تھا، لیکن انہوں نے ایک حیلہ اختیار کرکے حکم الٰہی سےتجاوز کیا۔ ہفتے والے (بطور امتحان) مچھلیاں زیادہ آتیں، انہوں نے گڑھے کھود لئے، تاکہ مچھلیاں ان میں پھنسی رہیں اور پھر اتوار والے دن ان کو پکڑ لیتے۔
Tafsir berbahasa Arab:
فَجَعَلْنٰهَا نَكَالًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ ۟
اسے ہم نے اگلوں پچھلوں کے لئے عبرت کا سبب بنا دیا اور پرہیزگاروں کے لئے وعظ ونصیحت کا۔
Tafsir berbahasa Arab:
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً ؕ— قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ؕ— قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ ۟
اور (حضرت) موسیٰ﴿علیہ السلام﴾ نے جب اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے(1) تو انہوں نے کہا ہم سے مذاق کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ میں ایسا جاہل ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناه پکڑتا ہوں۔
(1) بنی اسرائیل میں ایک لاولد مالدار آدمی تھا جس کا وارث صرف ایک بھتیجا تھا، ایک رات اس بھتیجے نے اپنے چچا کو قتل کرکے لاش کسی آدمی کے دروازے پر ڈال دی، صبح قاتل کی تلاش میں ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے لگے، بالآخربات حضرت موسیٰ (عليه السلام) تک پہنچی تو انہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا، گائے کا ایک ٹکڑا مقتول کو مارا گیا جس سے وہ زندہ ہوگیا اور قاتل کی نشاندہی کرکے مرگیا (فتح القدیر)
Tafsir berbahasa Arab:
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ ؕ— قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّلَا بِكْرٌ ؕ— عَوَانٌ بَیْنَ ذٰلِكَ ؕ— فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ ۟
انہوں نے کہا اے موسیٰ! دعا کیجیئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اس کی ماہیت بیان کردے، آپ نے فرمایا سنو! وه گائے نہ تو بالکل بڑھیا ہو، نہ بچہ، بلکہ درمیانی عمر کی نوجوان ہو، اب جو تمہیں حکم دیا گیا ہے بجا لاؤ۔
Tafsir berbahasa Arab:
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُهَا ؕ— قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءُ ۙ— فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ ۟
وه پھر کہنے لگے کہ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ بیان کرے کہ اس کا رنگ کیا ہے؟ فرمایا وه کہتا ہے کہ وه گائے زرد رنگ کی ہے، چمکیلا اور دیکھنے والوں کو بھلا لگنے واﻻ اس کا رنگ ہے۔
Tafsir berbahasa Arab:
 
Terjemahan makna Surah: Al-Baqarah
Daftar surah Nomor Halaman
 
Terjemahan makna Alquran Alkarim - Terjemahan Berbahasa Urdu - Muhammad Jonakri - Daftar isi terjemahan

Terjemahan oleh Muhammad Ibrahim Jonakri. Dikembangkan di bawah pengawasan Markaz Ruwād Terjemah. Teks terjemahan asli bisa dilihat untuk memberikan masukan dan evaluasi serta pengembangan berkelanjutan.

Tutup