Check out the new design

Traduzione dei Significati del Sacro Corano - Traduzione urdu - Muhammad Gunakry * - Indice Traduzioni

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Traduzione dei significati Sura: Al-Ahzâb   Versetto:
تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَتُـْٔوِیْۤ اِلَیْكَ مَنْ تَشَآءُ ؕ— وَمَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكَ ؕ— ذٰلِكَ اَدْنٰۤی اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُهُنَّ وَلَا یَحْزَنَّ وَیَرْضَیْنَ بِمَاۤ اٰتَیْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ؕ— وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ ؕ— وَكَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَلِیْمًا ۟
ان میں سے جسے تو چاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے(1) ، اور اگر تو نے ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلالے جنہیں تو نے الگ کر رکھا تھا تو تجھ پر کوئی گناه نہیں(2)، اس میں اس بات کی زیاده توقع ہے کہ ان عورتوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وه رنجیده نہ ہوں اور جو کچھ بھی تو انہیں دے دے اس پر سب کی سب راضی رہیں(3)۔ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ (خوب) جانتا ہے(4)۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی علم اور حلم واﻻ ہے.
(1) اس کا تعلق إِنَّا أَحْلَلْنَا سے ہے یعنی مذکورہ تمام عورتوں کی آپ (صلى الله عليه وسلم) کے لئے حلت اس لئے ہے تاکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کو تنگی محسوس نہ ہو اور آپ (صلى الله عليه وسلم) ان میں سے کسی کے ساتھ نکاح میں گناہ نہ سمجھیں۔
(2) یعنی جن بیویوں کی باریاں موقوف کر رکھی تھیں اگر آپ (صلى الله عليه وسلم) چاہیں کہ ان سے بھی مباشرت کا تعلق قائم کیا جائے، تو یہ اجازت بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) کو حاصل ہے۔
(3) یعنی باری موقوف ہونے اور ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کے باوجود وہ خوش ہوں گی، غمگین نہیں ہوں گی اور جتنا کچھ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی طرف سے انہیں مل جائے گا، اس پر مطمئن رہیں گی۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہیں معلوم ہے کہ پیغمبر (صلى الله عليه وسلم) یہ سب کچھ اللہ کے حکم اور اجازت سے کر رہے ہیں اور یہ ازواج مطہرات اللہ کے فیصلہ پر راضی اور مطمئن ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کو یہ اختیار ملنے کے باوجود آپ (صلى الله عليه وسلم) نے اسے استعمال نہیں کیا اور سوائے حضرت سودہ (رضی الله عنها) کے (کہ انہوں نے اپنی باری خود ہی حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کے لئے ہبہ کردی تھی) آپ (صلى الله عليه وسلم) نے تمام ازواج مطہرات کی باریاں برابر برابر مقرر کر رکھی تھیں، اس لئے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے مرض الموت میں ازواج مطہرات سے اجازت لے کر بیماری کے ایام حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کے پاس گزارے ”أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ“ کا تعلق آپ (صلى الله عليه وسلم) کے اسی طرز عمل سے ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) پر تقسیم اگرچہ (دوسرے لوگوں کی طرح) واجب نہیں تھی، اس کے باوجود آپ (صلى الله عليه وسلم) نے تقسیم کو اختیار فرمایا، تاکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی بیویوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کے اس حسن سلوک اور عدل وانصاف سے خوش ہوجائیں کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے خصوصی اختیار استعمال کرنے کے بجائے ان کی دلجوئی اور دلداری کا اہتمام فرمایا۔
(4) یعنی تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے، ان میں یہ بات بھی یقیناً ہے کہ سب بیویوں کی محبت دل میں یکساں نہیں ہے۔ کیوں کہ دل پر انسان کا اختیار ہی نہیں ہے۔ اس لئے بیویوں کے درمیان مساوات باری میں، نان و نفقہ اور دیگر ضروریات زندگی اور آسائشوں میں ضروری ہے، جس کا اہتمام انسان کرسکتا ہے۔ دلوں کے میلان میں مساوات چونکہ اختیار ہی میں نہیں ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اس پر گرفت بھی نہیں فرمائے گا بشرطیکہ دلی محبت کسی ایک بیوی سے امتیازی سلوک کا باعث نہ ہو۔ اسی لئے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) فرمایا کرتے تھے یااللہ یہ میری تقسیم ہے جو میرے اختیار میں ہے، لیکن جس چیز پر تیرا اختیار ہے، میں اس پر اختیار نہیں رکھتا، اس میں مجھے ملامت نہ کرنا۔ (أبو داود، باب القسم في النساء، ترمذي، نسائي، ابن ماجه، مسند أحمد 6 / 144)۔
Esegesi in lingua araba:
لَا یَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ وَلَاۤ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ ؕ— وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ رَّقِیْبًا ۟۠
اس کے بعد اور عورتیں آپ کے لئے حلال نہیں اور نہ یہ (درست ہے) کہ ان کے بدلے اور عورتوں سے (نکاح کرے) اگر چہ ان کی صورت اچھی بھی لگتی ہو مگر(1) جو تیری مملوکہ ہوں(2)۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا (پورا) نگہبان ہے.
(1) آیت تخییر کے نزول کے بعد ازواج مطہرات نے دنیا کے اسباب عیش و راحت کے مقابلے میں عسرت کے ساتھ، نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ رہنا پسند کیا تھا، اس کا صلہ اللہ نے یہ دیا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کو ان ازواج کے علاوہ (جن کی تعداد اس وقت 9 تھی) دیگر عورتوں سے نکاح کرنے یا اس میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ اور سے نکاح کرنے سے منع فرمایا دیا۔ بعض کہتے ہیں کہ بعد میں آپ (صلى الله عليه وسلم) کو یہ اختیار دے دیا گیا تھا، لیکن آپ (صلى الله عليه وسلم) نے کوئی نکاح نہیں کیا۔ (ابن کثیر)۔
(2) یعنی لونڈیاں رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ بعض نے اس کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ کافر لونڈی بھی رکھنے کی آپ (صلى الله عليه وسلم) کو اجازت تھی اور بعض نے وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ (الممتحنة: 10) کے پیش نظر اسے آپ (صلى الله عليه وسلم) کے حلال نہیں سمجھا۔ (فتح القدیر)۔
Esegesi in lingua araba:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُ وَلٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ ؕ— اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ ؗ— وَاللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ ؕ— وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ— ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ ؕ— وَمَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَلَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا ؕ— اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا ۟
اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لئے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہوجایا کرو۔ نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے۔ تو وه لحاظ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ (بیان) حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا(1) ، جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو(2)۔ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے کامل پاکیزگی یہی ہے(3)، نہ تمہیں یہ جائز ہے کہ تم رسول اللہ کو تکلیف دو(4) اور نہ تمہیں یہ حلال ہے کہ آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو۔ (یاد رکھو) اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا (گناه) ہے.(5)
(1) اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی دعوت پر حضرت زینب (رضی الله عنها) کے ولیمے میں صحابہ کرام (رضي الله عنهم) تشریف لائے جن میں سے بعض کھانے کے بعد بیٹھے ہوئے باتیں کرتے رہے جس سے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو خاص تکلیف ہوئی، تاہم حیا واخلاق کی وجہ سے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے انہیں جانے کے لئے کہا نہیں۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة الأحزاب) چنانچہ اس آیت میں دعوت کے آداب بتلا دیئے گئے کہ ایک تو اس وقت جاؤ، جب کھانا تیار ہوچکا ہو، پہلے سے ہی جا کر دھرنا مار کر نہ بیٹھ جاؤ۔ دوسرا، کھاتے ہی اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ، وہاں بیٹھے ہوئے باتیں مت کرتے رہو، کھانے کا ذکر تو سبب نزول کی وجہ سے ہے، ورنہ مطلب یہ ہے کہ جب بھی تمہیں بلایا جائے چاہے کھانے کے لئے یا کسی اور کام کے لئے، اجازت کے بغیر گھر کے اندر داخل مت ہو۔
(2) یہ حکم حضرت عمر (رضي الله عنه) کی خواہش پر نازل ہوا۔ حضرت عمر (رضي الله عنه) نے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) سے عرض کیا، یا رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)! آپ کے پاس اچھے برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، کاش آپ امہات المومنین کو پردے کا حکم دیں تو کیا اچھا ہو۔ جس پر اللہ نے یہ حکم نازل فرما دیا۔ (صحيح بخاري ، كتاب الصلاة ، وتفسير سورة البقرة، مسلم باب فضائل عمر بن الخطاب)۔
(3) یہ پردے کی حکمت اور علت ہے کہ اس سے مرد اور عورت دونوں کے دل ریب وشک سے اور ایک دوسرے کے ساتھ فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں گے۔
(4) چاہے وہ کسی بھی لحاظ سے ہو۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونا، آپ (صلى الله عليه وسلم) کی خواہش کے بغیر گھر میں بیٹھے رہنا اور بغیر حجاب کے ازواج مطہرات سے گفتگو کرنا، یہ امور بھی ایذا کے باعث ہیں، ان سے بھی اجتناب کرو۔
(5) یہ حکم ان ازواج مطہرات کے بارے میں ہے جو وفات کے وقت نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے حبالۂ عقد میں تھیں۔ تاہم جن کو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ہم بستری کے بعد زندگی میں طلاق دے کر اپنے سےعلیحدہ کردیا ہو، وہ اس کے عموم میں داخل ہیں یا نہیں؟ اس میں دو رائے ہیں۔ بعض ان کو بھی شامل سمجھتے ہیں اور بعض نہیں۔ لیکن آپ (صلى الله عليه وسلم) کی ایسی کوئی بیوی تھی ہی نہیں۔ اس لئے یہ محض ایک فرضی شکل ہے۔ علاوہ ازیں ایک تیسری قسم ان عورتوں کی ہے جن سے آپ (صلى الله عليه وسلم) نکاح ہوا لیکن ہم بستری سے قبل ہی ان کو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے طلاق دے دی۔ ان سے دوسرے لوگوں کا نکاح درست ہونے میں کوئی نزاع معلوم نہیں۔ (تفسیر ابن کثیر)
Esegesi in lingua araba:
اِنْ تُبْدُوْا شَیْـًٔا اَوْ تُخْفُوْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا ۟
تم کسی چیز کو ﻇاہر کرو یا مخفی رکھو اللہ تو ہر چیز کا بخوبی علم رکھنے واﻻ ہے. @Ricorretto
تم کسی چیز کو ﻇاہر کرو یا مخفی رکھو اللہ تو ہر ہر چیز کا بخوبی علم رکھنے واﻻ ہے
Esegesi in lingua araba:
 
Traduzione dei significati Sura: Al-Ahzâb
Indice delle Sure Numero di pagina
 
Traduzione dei Significati del Sacro Corano - Traduzione urdu - Muhammad Gunakry - Indice Traduzioni

Tradotta da Muhammad Ibrahim Gunakry. Sviluppata sotto la supervisione del Pioneer Translation Center (Ruwwad at-Tarjama), è disponibile la consultazione della traduzione originale per esprimere opinioni, valutazioni e miglioramenti continui.

Chiudi