Check out the new design

Kilniojo Korano reikšmių vertimas - Vertimas į urdu k. - Muchamed Džonakri * - Vertimų turinys

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Reikšmių vertimas Sūra: Ar-Ra’d   Aja (Korano eilutė):
وَیَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلٰتُ ؕ— وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی ظُلْمِهِمْ ۚ— وَاِنَّ رَبَّكَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ ۟
اور جو تجھ سے (سزا کی طلبی میں) جلد کر رہے ہیں راحت سے پہلے ہی، یقیناً ان سے پہلے سزائیں (بطور مثال) گزر چکی ہیں(1) ، اور بیشک تیرا رب البتہ بخشنے واﻻ ہے لوگوں کے بے جا ﻇلم پر بھی(2)۔ اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ تیرا رب بڑی سخت سزا دینے واﻻ بھی ہے.(3)
(1) یعنی عذاب الٰہی سے قوموں اور بستیوں کی تباہی کی کئی مثالیں پہلے گزر چکی ہیں، اس کے باوجود یہ عذاب جلدی مانگتے ہیں؟ یہ کفار کے جواب میں کہا گیا جو کہتے تھے کہ اے پیغمبر! اگر تو سچا ہے تو عذاب ہم پر لے آ۔ جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے۔
(2) یعنی لوگوں کے ظلم و معصیت کے باوجود وہ عذاب میں جلدی نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا ہے اور بعض دفعہ تو اتنی تاخیر کرتا ہے کہ معاملہ قیامت پر چھوڑ دیتا ہے، یہ اس کے حلم و کرم اور عفو و درگزر کا نتیجہ ہے ورنہ وہ فوراً مواخذہ کرنے اور عذاب دینے پر آجائے تو روئے زمین پر کوئی انسان ہی باقی نہ رہے۔ «وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ» (فاطر:45) ”اور اگر اللہ تعالٰی لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب پکڑ دھکڑ فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک تنفس کو نہ چھوڑتا“۔
(3) یہ اللہ کی دوسری صفت کا بیان ہے تاکہ انسان صرف ایک ہی پہلو پر نظر نہ رکھے اس کے دوسرے پہلو کو بھی دیکھتا رہے کیونکہ ایک ہی رخ اور ایک ہی پہلو کو مسلسل دیکھنے رہنے سے بہت سی چیزیں اوجھل رہ جاتی ہیں اسی لیے قرآن کریم میں جہاں اللہ کی صفت رحیمی وغفوری کا بیان ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی دوسری صفت قہاری و جباری کا بیان بھی ملتا ہے جیسا کہ یہاں بھی ہے تاکہ رجاء امید اور خوف دونوں پہلو سامنے رہیں کیونکہ اگر امید ہی امید سامنے رہے تو انسان معصیت الہی پر دلیر ہو جاتا ہے اور اگر خوف ہی خوف ہر وقت دل ودماغ پر مسلط رہے تو اللہ کی رحمت سے مایوسی ہو جاتی ہے اور دونوں ہی باتیں غلط اور انسان کے لیے تباہ کن ہیں اسی لیے کہا جاتا ہے«الإِيمَانُ بَيْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاءِ» ”ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے“ یعنی دونوں باتوں کے درمیان اعتدال وتوازن کا نام ایمان ہے انسان اللہ کے عذاب کے خوف سے بےپروا ہو اور نہ اس کی رحمت سے مایوس۔ اس مضمون کے ملاحظہ کے لیے دیکھئے (سورۃ الانعام:47، سورۃ الاعراف:167، سورۃ الحجر:49، 50)
Tafsyrai arabų kalba:
وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْلَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ؕ— اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ۟۠
اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزه) کیوں نہیں اتاری گئی۔ بات یہ ہے کہ آپ تو صرف آگاه کرنے والے ہیں.(1) ۔ اور ہر قوم کے لئے ہادی ہے.(2)
(1) ہر نبی کو اللہ نے حالات و ضروریات اور اپنی مشیت و مصلحت کے مطابق کچھ نشانیاں اور معجزات عطا فرمائے لیکن کافر اپنے حسب منشا معجزات کے طالب ہوتے رہے ہیں۔ جیسے کفار مکہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کو کہتے کہ کوہ صفا کو سونے کا بنا دیا جائے یا پہاڑوں کی جگہ نہریں اور چشمے جاری ہوجائیں، وغیرہ وغیرہ جب ان کی خواہش کے مطابق معجزہ صادر کر کے نہ دکھایا جاتا تو کہتے کہ اس پر کوئی نشان (معجزہ) نازل کیوں نہیں کیا گیا؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا، اے پیغمبر! تیرا کام صرف تبلیغ ہے۔ وہ تو کرتا رہ کوئی مانے نہ مانے، اس سے تجھے کوئی غرض نہیں، اس لئے کہ ہدایت دینا یہ ہمارا کام ہے۔ تیرا کام راستہ دکھانا ہے، اس راستے پر چلا دینا، یہ تیرا کام نہیں، ہمارا کام ہے۔
(2) یعنی ہر قوم کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ تعالٰی نے ہادی ضرور بھیجا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قوموں نے ہدایت کا راستہ اپنایا یا نہیں اپنایا۔ لیکن سیدھے راستے کی نشان دہی کرنے کے لئے پیغمبر ہر قوم کے اندر ضرور آیا۔ «وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلا خَلا فِيهَا نَذِيرٌ» ( فاطر:24)۔ ”ہر امت میں ایک نذیر ضرور آیا ہے“۔
Tafsyrai arabų kalba:
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُ وَمَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ؕ— وَكُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ ۟
ماده اپنے شکم میں جو کچھ رکھتی ہے اسے اللہ بخوبی جانتا ہے(1) اور پیٹ کا گھٹنا بڑھنا بھی(2)، ہر چیز اس کے پاس اندازے سے ہے.(3)
(1) رحم مادر میں کیا ہے، نر یا مادہ، خوبصورت یا بد صورت، نیک ہے یا بد، طویل العمر ہے یا قصیر العمر؟ یہ سب باتیں صرف اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے۔
(2) اس سے مراد حمل مدت ہے جو عام طور پر ٩ مہینے ہوتی ہے لیکن گھٹتی بڑھتی بھی ہے، کسی وقت یہ مدت 10مہینے اور کسی وقت 7،8 مہینے ہو جاتی ہے، اس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔
(3) یعنی کسی کی زندگی کتنی ہے؟ اسے رزق سے کتنا حصہ ملے گا؟ اس کا پورا اندازہ اللہ کو ہے۔
Tafsyrai arabų kalba:
عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِیْرُ الْمُتَعَالِ ۟
ﻇاہر وپوشیده کا وه عالم ہے (سب سے) بڑا اور (سب سے) بلند وباﻻ.
Tafsyrai arabų kalba:
سَوَآءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِالَّیْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ ۟
تم میں سے کسی کا اپنی بات کو چھپا کر کہنا اور بﺂواز بلند اسے کہنا اور جو رات کو چھپا ہوا ہو اور جو دن میں چل رہا ہو، سب اللہ پر برابر ویکساں ہیں.
Tafsyrai arabų kalba:
لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْ بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ؕ— وَاِذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ— وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ ۟
اس کے پہرے دار(1) انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وه خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے(2)۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی سزا کا اراده کر لیتا ہے تو وه بدﻻ نہیں کرتا اور سوائے اس کے کوئی بھی ان کا کارساز نہیں.
(1) مُعَقِّبَاتٌ، مُعَقِّبَةٌ۔ کی جمع ہے ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے، مراد فرشتے ہیں جو باری باری ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں۔ دن کے فرشتے جاتے ہیں تو شام کے آجاتے ہیں شام کے جاتے ہیں تو دن کے آجاتے ہیں۔
(2) اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورہ انفال آیت 53 کا حاشیہ۔
Tafsyrai arabų kalba:
هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّیُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ ۟ۚ
وه اللہ ہی ہے جو تمہیں بجلی کی چمک ڈرانے اور امید دﻻنے کے لئے دکھاتا ہے(1) اور بھاری بادلوں کو پیدا کرتا ہے.(2)
(1) جس سے راہ گیر مسافر ڈرتے ہیں اور گھروں میں مقیم کسان اور کاشت کار اس کی برکت و منفعت کی امید رکھتے ہیں۔
(2) بھاری بادلوں سے مراد، وہ بادل ہیں جس میں بارش کا پانی ہوتا ہے۔
Tafsyrai arabų kalba:
وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ مِنْ خِیْفَتِهٖ ۚ— وَیُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیْبُ بِهَا مَنْ یَّشَآءُ وَهُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اللّٰهِ ۚ— وَهُوَ شَدِیْدُ الْمِحَالِ ۟ؕ
گرج اس کی تسبیح وتعریف کرتی ہے اور فرشتے بھی، اس کے خوف سے(1) ۔ وہی آسمان سے بجلیاں گراتا ہے اور جس پر چاہتا ہے اس پر ڈالتا ہے(2) کفار اللہ کی بابت لڑ جھگڑ رہے ہیں اور اللہ سخت قوت والا ہے.(3)
(1) جیسے دوسرے مقام پر فرمایا «وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ» ( بني إسرائيل:44) ”ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے“۔
(2) یعنی اس کے ذریعے جس کو چاہتا ہے، ہلاک کر ڈالتا ہے۔
(3) مِحَالٌ ۔ کے معنی قوت مواخذہ اور تدبیر وغیرہ کے کیے گئے ہیں یعنی وہ بڑی قوت والا، نہایت مواخذہ کرنے والا اور تدبیر کرنے والا ہے۔
Tafsyrai arabų kalba:
 
Reikšmių vertimas Sūra: Ar-Ra’d
Sūrų turinys Puslapio numeris
 
Kilniojo Korano reikšmių vertimas - Vertimas į urdu k. - Muchamed Džonakri - Vertimų turinys

Išvertė Muchamed Ibrahim Džonakri. Sukurta prižiūrint Ruad vertimo centrui, o vertimo originalą galima peržiūrėti nuomonės išreiškimo, vertinimo ir nuolatinio tobulinimo tikslais.

Uždaryti