Check out the new design

Kilniojo Korano reikšmių vertimas - Vertimas į urdu k. - Muchamed Džonakri * - Vertimų turinys

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Reikšmių vertimas Sūra: Al-Bakara   Aja (Korano eilutė):
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ؕ— بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ۟
اور اللہ تعالیٰ کی راه کے شہیدوں کو مرده مت کہو(1) وه زنده ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے۔
(1) شہدا کو مردہ نہ کہنا، ان کے اعزاز وتکریم کے لئے ہے، یہ زندگی برزخ کی زندگی ہے جسے ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہ زندگی علیٰ قدر مراتب انبیا ومومنین، حتیٰ کہ کفار کو بھی حاصل ہے۔ شہید کی روح اور بعض روایات میں مومن کی روح بھی ایک پرندے کے جوف (یا سینہ) میں جنت میں جہاں چاہتی ہیں پھرتی ہیں (ابن کثیر، نیز دیکھیے آل عمران۔ 169)
Tafsyrai arabų kalba:
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ؕ— وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ ۟ۙ
اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیئے۔
Tafsyrai arabų kalba:
الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ ۙ— قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ ۟ؕ
جنہیں، جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
Tafsyrai arabų kalba:
اُولٰٓىِٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۫— وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ ۟
ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔(1)
(1) ان آیات میں صبر کرنے والوں کے لئے خوش خبریاں ہیں۔ حدیث میں نقصان کے وقت «إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ» کے ساتھ «اللَّهُمَّ آجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِّنْهَا» پڑھنے کی بھی فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ (صحيح مسلم، كتاب الجنائز باب ما يقال عند المصيبة، حديث 918 )۔
Tafsyrai arabų kalba:
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ ۚ— فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا ؕ— وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا ۙ— فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ ۟
صفا اور مروه اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں(1) ، اس لئے بیت اللہ کا حج وعمره کرنے والے پر ان کا طواف کرلینے میں بھی کوئی گناه نہیں(2) اپنی خوشی سے بھلائی کرنے والوں کا اللہ قدردان ہے اور انہیں خوب جاننے واﻻ ہے۔
(1) شَعَائِرُ شَعِيرَةٌ کی جمع ہے، جس کے معنی علامت کے ہیں، یہاں حج کے وہ مناسک (مثلاً موقف، سعی، منحر، ہدی (قربانی) کو اشعار کرنا وغیرہ) مراد ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔
(2) صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا، حج کا ایک رکن ہے۔ لیکن قرآن کے الفاظ (کوئی گناہ نہیں) سے بعض صحابہ (رضي الله عنهم) کو یہ شبہ ہوا کہ شاید یہ ضروری نہیں ہے۔ حضرت عائشہ (رضي الله عنه) کے علم مین جب یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا: اگر اس کا یہ مطلب ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ یوں فرماتا: «فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لا يَطَّوَّفَ بِهمَا» ”اگر ان کا طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں“ پھر اس کی شان نزول بیان فرمائی کہ انصار قبول اسلام سے قبل مناۂ طاغیہ (بت) کے نام کا تلبیہ پکارتے، جس کی وہ مشلل پہاڑی پر عبادت کرتے تھے اور پھر مکہ پہنچ کر ایسے لوگ صفا مروہ کے درمیان سعی کو گناہ سمجھتے تھے، مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سے پوچھا تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں کہا گیا کہ صفا مروہ کے درمیان سعی گناہ نہیں۔ (صحيح بخاري، كتاب الحج باب وجوب الصفا والمروة) بعض حضرات نے اس کا پس منظر اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جاہلیت میں مشرکوں نے صفا پہاڑی پر ایک بت (اساف) مروہ پہاڑی پر نائلہ بت رکھا ہوا تھا، جنہیں وہ سعی کے دوران بوسہ دیتے یا چھوتے۔ جب مسلمان ہوئے تو ان کے ذہن میں آیا کہ صفا مروہ کے درمیان سعی تو شاید گناہ ہو، کیوں کہ اسلام سے قبل دو بتوں کی وجہ سے سعی کرتے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے اس وہم اور خلش کو دور فرما دیا۔ اب یہ سعی ضروری ہے جس کا آغاز صفا سے اور خاتمہ مروہ پر ہوتا ہے۔ (ایسر التفاسیر)۔
Tafsyrai arabų kalba:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْهُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتٰبِ ۙ— اُولٰٓىِٕكَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَیَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ ۟ۙ
جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کرچکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔(1)
(1) اللہ تعالیٰ نے جو باتیں اپنی کتاب میں نازل فرمائی ہیں، انہیں چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگر لعنت کرنے والے بھی اس پر لعنت کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے : «مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ، أُلْجِمَ يَوْمَ القِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ» (أبو داود ، كتاب العلم باب كراهية منع العلم ، وسنن ترمذي حديث 651 وقال حديث حسن) ”جس سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی جس کا اس کو علم تھا اور اس نے اسے چھپایا تو قیامت والے دن آگ کی لگام اس کے منہ میں دی جائے گی۔“
Tafsyrai arabų kalba:
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَیَّنُوْا فَاُولٰٓىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَیْهِمْ ۚ— وَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ۟
مگر وه لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کردیں، تو میں ان کی توبہ قبول کرلیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے واﻻ اور رحم وکرم کرنے واﻻ ہوں۔
Tafsyrai arabų kalba:
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَهُمْ كُفَّارٌ اُولٰٓىِٕكَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَالْمَلٰٓىِٕكَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ۟ۙ
یقیناً جو کفار اپنے کفر میں ہی مرجائیں، ان پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔(1)
(1) اس سے معلوم ہوا کہ جن کی بابت یقینی علم ہے کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے، ان پر لعنت جائز ہے، لیکن ان کے علاوہ کسی بھی بڑے سے بڑے گنہگار مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ ممکن ہے مرنے سے پہلے اس نے توبہ نصوح کرلی ہو یا اللہ نے اس کے دیگر نیک اعمال کی وجہ سے اس کی غلطیوں پر قلم عفو پھیر دیا ہو۔ جس کا علم ہمیں نہیں ہوسکتا۔ البتہ جن بعض معاصی پر لعنت کا لفظ آیا ہے، ان کے مرتکبین کی بابت کہا جاسکتا ہے کہ یہ لعنت والے کام کر رہے ہیں، ان سے اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو یہ بارگاہ الٰہی میں ملعون قرار پاسکتے ہیں۔
Tafsyrai arabų kalba:
خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ۚ— لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ ۟
جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی۔
Tafsyrai arabų kalba:
وَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ— لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ ۟۠
تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں(1) وه بہت رحم کرنے واﻻ اور بڑا مہربان ہے۔
(1) اس آیت میں پھر دعوت توحید دی گئی ہے۔ یہ دعوت توحید مشرکین مکہ کے لئے ناقابل فہم تھی، انہوں نے کہا : «أَجَعَلَ الآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ» (سورة ص: 5) ”کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا یہ تو بڑی عجیب بات ہے!۔“ اس لئے اگلی آیت میں اس توحید کے دلائل بیان کئے جارہے ہیں۔
Tafsyrai arabų kalba:
 
Reikšmių vertimas Sūra: Al-Bakara
Sūrų turinys Puslapio numeris
 
Kilniojo Korano reikšmių vertimas - Vertimas į urdu k. - Muchamed Džonakri - Vertimų turinys

Išvertė Muchamed Ibrahim Džonakri. Sukurta prižiūrint Ruad vertimo centrui, o vertimo originalą galima peržiūrėti nuomonės išreiškimo, vertinimo ir nuolatinio tobulinimo tikslais.

Uždaryti