Check out the new design

Kilniojo Korano reikšmių vertimas - Vertimas į urdu k. - Muchamed Džonakri * - Vertimų turinys

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Reikšmių vertimas Sūra: Al-A’raf   Aja (Korano eilutė):
فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚ— وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَمَنْ مَّعَهٗ ؕ— اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ۟
سو جب ان پر خوشحالی آجاتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارے لیے ہونا ہی چاہئے اور اگر ان کو کوئی بدحالی پیش آتی تو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے(1) ۔ یاد رکھو کہ ان کی نحوست اللہ تعالیٰ کے پاس ہے(2)، لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔
(1) ”حَسَنَةٌ“ (بھلائی) سے مراد غلے اور پھلوں کی فراوانی اور”سيِّئَةٌ“ (برائی) سے اس کے برعکس اور قحط سالی اور پیداوار میں کمی۔ حَسَنَةٌ کا سارا کریڈٹ خود لے لیتے کہ یہ ہماری محنت کا ثمرہ ہے اور بدحالی کا سبب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو قرار دیتے کہ یہ تم لوگوں کی نحوست کے اثرات ہمارے ملک پر پڑ رہے ہیں۔
(2) ”طَآئِرٌ“ کے معنی ہیں ”اڑنے والا“ یعنی پرندہ ۔ چوں کہ پرندے کے بائیں یا دائیں اڑنے سے وہ لوگ نیک فالی یا بدفالی لیا کرتے تھے۔ اس لیے یہ لفظ مطلق فال کے لیے بھی استعمال ہونے لگ گیا اور یہاں یہ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خیر یا شر، جو خوش حالی یا قحط سالی کی وجہ سے انہیں پہنچتا ہے، اس کے اسباب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیروکار اس کا سبب نہیں۔ کا مطلب ہوگا کہ ان کی بدشگونی کا سبب اللہ کے علم میں ہے اور وہ ان کا کفر وانکار ہے نہ کہ کچھ اور۔ یا اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی وجہ ان کا کفر ہے۔
Tafsyrai arabų kalba:
وَقَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَا ۙ— فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ ۟
اور یوں کہتے کیسی ہی بات ہمارے سامنے لاؤ کہ ان کے ذریعہ سے ہم پر جادو چلاؤ جب بھی ہم تمہاری بات ہر گز نہ مانیں گے۔(1)
(1) یہ اسی کفر وجحود کا اظہار ہے جس میں وہ مبتلا تھے، اور معجزات وآیات الٰہی کو اب بھی وہ جادوگری باور کرتے یا کراتے تھے۔
Tafsyrai arabų kalba:
فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ ۫— فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ ۟
پھر ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں اور گھن کا کیڑا اور مینڈک اور خون، کہ یہ سب کھلے کھلے معجزے تھے(1) ۔ سو وه تکبر کرتے رہے اور وه لوگ کچھ تھے ہی جرائم پیشہ۔
(1) طوفان سے سیلاب یا کثرت بارش، جس سے ہر چیز غرق ہوگئی ، یا کثرت اموات مراد ہے، جس سے ہر گھر میں ماتم برپا ہوگیا۔ ”جَرَادٌ“ ٹڈی کو کہتے ہیں ، ٹڈی دل کا حملہ فصلوں کی ویرانی کے لیے مشہور ہے۔ یہ ٹڈیاں ان کے غلوں اور پھلوں کی فصلوں کو کھا کر چٹ کر جاتیں۔ ”قُمَّلٌ“ سے مراد جوں ہیں جو انسان کے جسم، کپڑے اور بالوں میں ہوجاتی ہیں یا گھن کا کیڑا ہے جو غلے میں لگ جاتا ہے تو اس کے بیشتر حصے کو ختم کر دیتا ہے۔ جووں سے انسان کو گھن بھی آتی ہے اور اس کی کثرت سے سخت پریشانی بھی ۔ اور جب یہ بطور عذاب ہوں تو اسے لاحق ہونے والی پریشانی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح گھن کا عذاب بھی معیشت کو کھوکھلا کر دینے کے لیے کافی ہے۔ ”ضَفَادِعُ“ ضَفْدَعَةٌ کی جمع ہے یہ مینڈک کو کہتے ہیں جو پانی اور جوہڑوں، چھپڑوں میں ہوتا ہے۔ یہ مینڈک ان کے کھانوں میں، بستروں میں، ابلے ہوئے غلوں میں غرض ہر جگہ اور ہر طرف مینڈک ہی مینڈک ہوگئے، جس سے ان کا کھانا پینا، سونا اور آرام کرنا حرام ہوگیا۔ ”دم“ (خون) سے مراد ہے پانی کا خون بن جانا، یوں پانی پینا ان کے لیے ناممکن ہوگیا۔ بعض نے خون سے مراد نکسیر کی بیماری لی ہے۔ یعنی ہر شخص کی ناک سے خون جاری ہوگیا، ”آيَاتٌ مُفَصَّلاتٌ“ یہ کھلے کھلے اور جدا جدا معجزے تھے، جو وقفے وقفے سے ان کے پاس آئے۔
Tafsyrai arabų kalba:
وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَی ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ ۚ— لَىِٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ۟ۚ
اور جب ان پر کوئی عذاب واقع ہوتا تو یوں کہتے کہ اے موسیٰ! ہمارے لیے اپنے رب سے اس بات کی دعا کر دیجئے! جس کا اس نے آپ سے عہد کر رکھا ہے، اگر آپ اس عذاب کو ہم سے ہٹا دیں تو ہم ضرور ضرور آپ کے کہنے سے ایمان لے آئیں گے اور ہم بنی اسرائیل کو بھی (رہا کر کے) آپ کے ہمراه کر دیں گے۔
Tafsyrai arabų kalba:
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ اِلٰۤی اَجَلٍ هُمْ بٰلِغُوْهُ اِذَا هُمْ یَنْكُثُوْنَ ۟
پھر جب ان سے اس عذاب کو ایک خاص وقت تک کہ اس تک ان کو پہنچنا تھا ہٹا دیتے، تو وه فوراً ہی عہد شکنی کرنے لگتے۔(1)
(1) یعنی ایک عذاب آتا تو اس سے تنگ آکر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آتے، ان کی دعا سے وہ ٹل جاتا تو ایمان لانے کے بجائے، پھر اس کفر وشرک پر جمے رہتے۔ پھر دوسرا عذاب آجاتا تو پھر اسی طرح کرتے۔ یوں کچھ کچھ وقفوں سے پانچ عذاب ان پر آئے۔ لیکن ان کے دلوں میں جو رعونت اور دماغوں میں جو تکبر تھا، وہ حق کی راہ میں ان کے لیے زنجیر پابنا رہا اور اتنی اتنی واضح نشانیاں دیکھنے کے باوجود وہ ایمان کی دولت سے محروم ہی رہے۔
Tafsyrai arabų kalba:
فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ ۟
پھر ہم نے ان سے بدلہ لیا یعنی ان کو دریا میں غرق کر دیا اس سبب سے کہ وه ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اور ان سے بالکل ہی غفلت کرتے تھے۔(1)
(1) اتنی بڑی بڑی نشانیوں کے باوجود وہ ایمان لانے کے لیے اور خواب غفلت سے بیدار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ بالآخر انہیں دریا میں غرق کر دیا گیا، جس کی تفصیل قرآن مجید کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔
Tafsyrai arabų kalba:
وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ كَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا ؕ— وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ۙ۬— بِمَا صَبَرُوْا ؕ— وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهٗ وَمَا كَانُوْا یَعْرِشُوْنَ ۟
اور ہم نے ان لوگوں کو جو کہ بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے(1) ۔ اس سرزمین کے پورب پچھم کا مالک بنا دیا، جس میں ہم نے برکت رکھی ہے(2) اور آپ کے رب کا نیک وعده، بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوگیا(3) اور ہم نے فرعون کے اور اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وه اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے، سب کو درہم برہم کر دیا۔(4)
(1) یعنی بنی اسرائیل کو، جن کو فرعون نے غلام بنا رکھا تھا اور ان پر ظلم روا رکھتا تھا۔ اس بنا پر وہ فی الواقع مصر میں کمزور سمجھے جاتے تھے کیونکہ مغلوب اور غلام تھے ۔ لیکن جب اللہ نے چاہا تو اسی مغلوب اور غلام قوم کو زمین کا وارث بنا دیا۔ ”وَتُعِزُّ مَن تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَآءُ“ [آل عمران: 26].
(2) زمین سے مراد شام کا علاقہ فلسطین ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے عمالقہ کے بعد بنی اسرائیل کو غلبہ عطا فرمایا، شام میں بنی اسرائیل حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کی وفات کے بعد اس وقت گئے جب حضرت یوشع بن نون نے عمالقہ کو شکست دے کر بنی اسرائیل کے لیے راستہ ہموار کر دیا۔ اور زمین کے ان حصوں میں برکتیں رکھیں، یعنی شام کے علاقے میں۔ جو بکثرت انبیا کا مسکن ومدفن رہا اور ظاہری شادابی وخوش حالی میں بھی ممتاز ہے۔ یعنی ظاہری وباطنی دونوں قسم کی برکتوں سے یہ زمین مالامال رہی ہے۔ مشارق مشرق کی جمع اور مغارب مغرب کی جمع ہے۔ حالانکہ مشرق اور مغرب ایک ایک ہی ہیں ۔ جمع سے مراد اس ارض بابرکت کے مشرقی اور مغربی حصے ہیں یعنی جہات مشرق ومغرب ۔
(3) یہ وعدہ یہی ہے جو اس سے قبل حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبانی آیت 128، 129 میں فرمایا گیا ہے اور سورہ قصص میں بھی ۔ «وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى ٱلَّذِينَ ٱسۡتُضۡعِفُواْ فِي ٱلۡأَرۡضِ وَنَجۡعَلَهُمۡ أَئِمَّةٗ وَنَجۡعَلَهُمُ ٱلۡوَٰرِثِينَ، وَنُمَكِّنَ لَهُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ وَنُرِيَ فِرۡعَوۡنَ وَهَٰمَٰنَ وَجُنُودَهُمَا مِنۡهُم مَّا كَانُواْ يَحۡذَرُونَ» [القصص: 5-6]. ”ہم چاہتے ہیں کہ ان پر احسان کریں جو زمین میں کمزور سمجھے جاتے ہیں اور ان کو پیشوا بنائیں اور ملک کا وارث کریں اور ملک میں ان کو قوت وطاقت دیں اور فرعون وہامان اور ان کے لشکروں کو وہ چیز دکھا دیں جس سے وہ ڈرتے ہیں“، اوریہ فضل واحسان اس صبر کی وجہ سے ہوا جس کا مظاہرہ انہوں نے فرعونی مظالم کے مقابلے میں کیا۔
(4) مصنوعات سے مراد کارخانے، عمارتیں اور ہتھیار وغیرہ ہیں اور يَعْرِشُونَ (جو وہ بلند کرتے تھے سے مراد اونچی اونچی عمارتیں بھی ہوسکتی ہیں اور انگوروں وغیرہ کے باغات بھی جو وہ چھپروں پر پھیلاتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی شہری عمارتیں، ہتھیار اور دیگر سامان بھی تباہ کر دیا اور ان کے باغات بھی۔
Tafsyrai arabų kalba:
 
Reikšmių vertimas Sūra: Al-A’raf
Sūrų turinys Puslapio numeris
 
Kilniojo Korano reikšmių vertimas - Vertimas į urdu k. - Muchamed Džonakri - Vertimų turinys

Išvertė Muchamed Ibrahim Džonakri. Sukurta prižiūrint Ruad vertimo centrui, o vertimo originalą galima peržiūrėti nuomonės išreiškimo, vertinimo ir nuolatinio tobulinimo tikslais.

Uždaryti