Check out the new design

വിശുദ്ധ ഖുർആൻ പരിഭാഷ - ഉർദു വിവർത്തനം - മുഹമ്മദ് ജുനാകരി * - വിവർത്തനങ്ങളുടെ സൂചിക

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

പരിഭാഷ അദ്ധ്യായം: ബഖറഃ   ആയത്ത്:
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ ۙ— قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِیْكُمْ بِنَهَرٍ ۚ— فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَیْسَ مِنِّیْ ۚ— وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْهُ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۤ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِیَدِهٖ ۚ— فَشَرِبُوْا مِنْهُ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ ؕ— فَلَمَّا جَاوَزَهٗ هُوَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ ۙ— قَالُوْا لَا طَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِهٖ ؕ— قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوا اللّٰهِ ۙ— كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِیْرَةً بِاِذْنِ اللّٰهِ ؕ— وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۟
جب (حضرت) طالوت لشکروں کو لے کر نکلے تو کہا سنو اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر(1) سے آزمانے واﻻہے، جس نے اس میں سے پانی پی لیا وه میرا نہیں اور جو اسے نہ چکھے وه میرا ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھرلے۔ لیکن سوائے چند کے باقی سب نے وه پانی پی لیا(2) (حضرت) طالوت مومنین سمیت جب نہر سے گزر گئے تو وه لوگ کہنے لگے آج تو ہم میں طاقت نہیں کہ جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑیں(3)۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر یقین رکھنے والوں نے کہا، بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پالیتی ہیں، اللہ تعالیٰ صبر والوں کے ساتھ ہے۔
(1) یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان ہے۔ (ابن کثیر)
(2) اطاعت امیر ہرحال میں ضروری ہے، تاہم دشمن سے معرکہ آرائی کے وقت تو اس کی اہمیت دوچند، بلکہ صد چند ہو جاتی ہے۔ دوسرے، جنگ میں کامیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ فوجی اس دوران بھوک، پیاس اور دیگر شدائد کو نہایت صبر اور حوصلے سے برداشت کریں۔ چنانچہ ان دونوں باتوں کی تربیت اور امتحان کے لئے طالوت نے کہا کہ نہر پر تمہاری پہلی آزمائش ہوگی۔ جس نے پانی پی لیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ لیکن اس تنبیہ کے باوجود اکثریت نے پانی پی لیا۔ ان کی تعداد میں مفسرین نے مختلف اقوال نقل کئے ہیں۔ اسی طرح نہ پینے والوں کی تعداد بتلائی گئی ہے، جو اصحاب بدر کی تعداد ہے۔ واللہ اعلم۔
(3) ان اہل ایمان نے بھی، ابتداءً جب دشمن کی بڑی تعداد دیکھی تو اپنی قلیل تعداد کے پیش نظر اس رائے کا اظہار کیا، جس پر ان کے علما اور ان سے زیادہ پختہ یقین رکھنے والوں نے کہا کہ کامیابی، تعداد کی کثرت اور اسلحہ کی فراوانی پر منحصر نہیں، بلکہ اللہ کی مشیت اور اس کے اذن پر موقوف ہے اور اللہ کی تائید کے لئے صبر کا اہتمام ضروری ہے۔
അറബി ഖുർആൻ വിവരണങ്ങൾ:
وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ ۟ؕ
جب ان کا جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو انہوں نے دعا مانگی کہ اے پروردگار ہمیں صبر دے، ﺛابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما۔(1)
(1) جالوت اس دشمن قوم کا کمانڈو اور سربراہ تھا جس سے طالوت اور ان کے رفقا کا مقابلہ تھا۔ یہ قوم عمالقہ تھی جو اپنے وقت کی بڑی جنگجو اور بہادر قوم سمجھی جاتی تھی۔ ان کی اسی شہرت کے پیش نظر، عین معرکہ آرائی کے وقت اہل ایمان نے بارگاہ الٰہی میں صبروثبات اور کفر کے مقابلے میں ایمان کی فتح وکامیابی کی دعا مانگی۔ گویا مادی اسباب کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ نصرت الٰہی کے لئے ایسے موقعوں پر بطور خاص طلبگار رہیں، جیسے جنگ بدر میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے نہایت الحاح وزاری سے فتح ونصرت کی دعائیں مانگیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور مسلمانوں کی ایک نہایت قلیل تعداد کافروں کی بڑی تعداد پر غالب آئی۔
അറബി ഖുർആൻ വിവരണങ്ങൾ:
فَهَزَمُوْهُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۙ۫— وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَاٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهٗ مِمَّا یَشَآءُ ؕ— وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ۟
چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہوں نے جالوتیوں کو شکست دے دی اور (حضرت) داؤد (علیہ السلام) کے ہاتھوں جالوت قتل ہوا(1) اور اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کو مملکت وحکمت(2) اور جتنا کچھ چاہا علم بھی عطا فرمایا۔ اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا، لیکن اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر بڑا فضل وکرم کرنے واﻻ ہے۔(3)
(1) حضرت داود (عليه السلام) بھی، جو ابھی پیغمبر تھے نہ بادشاہ، اس لشکر طالوت میں ایک سپاہی کے طور پر شامل تھے۔ ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے جالوت کا خاتمہ کیا اور ان تھوڑے سے اہل ایمان کے ذریعے سے ایک بڑی قوم کو شکست فاش دلوائی۔
(2) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت داود (عليه السلام) کو بادشاہت بھی عطا فرمائی اور نبوت بھی۔ حکمت سے بعض نے نبوت، بعض نے صنعت آہن گری اور بعض نے ان امور کی سمجھ مراد لی ہے، جو اس موقع جنگ پر اللہ تعالیٰ کی مشیت وارادے سے فیصلہ کن ثابت ہوئے۔
(3) اس میں اللہ کی ایک سنت الٰہی کا بیان ہے کہ وہ انسانوں کے ہی ایک گروہ کے ذریعے سے، دوسرے انسانی گروہ کے ظلم اور اقتدار کا خاتمہ فرماتا رہتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا اور کسی ایک ہی گروہ کو ہمیشہ قوت واختیار سے بہرہ ور کئے رکھتا تو یہ زمین ظلم وفساد سے بھر جاتی۔ اس لئے یہ قانون الٰہی اہل دنیا کے لئے فضل الٰہی کا خاص مظہر ہے۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ حج کی آیت 38 اور 40 میں بھی فرمایا ہے۔
അറബി ഖുർആൻ വിവരണങ്ങൾ:
تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ ؕ— وَاِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۟
یہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں جنہیں ہم حقانیت کے ساتھ آپ پر پڑھتے ہیں، بالیقین آپ رسولوں میں سے ہیں۔(1)
(1) یہ گزشتہ واقعات، جو آپ (صلى الله عليه وسلم) پر نازل کردہ کتاب کے ذریعے سے دنیا کو معلوم ہو رہے ہیں، اے محمد (صلى الله عليه وسلم) یقیناً آپ کی رسالت وصداقت کی دلیل ہیں، کیوں کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہ نہ کتاب میں پڑھے ہیں، نہ کسی سے سنے ہیں۔ جس سے یہ واضح ہے کہ یہ غیب کی وہ خبریں ہیں جو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ آپ پر نازل فرما رہا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر گزشتہ امتوں کے واقعات کے بیان کو آپ (صلى الله عليه وسلم) کی صداقت کے لئے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
അറബി ഖുർആൻ വിവരണങ്ങൾ:
 
പരിഭാഷ അദ്ധ്യായം: ബഖറഃ
സൂറത്തുകളുടെ സൂചിക പേജ് നമ്പർ
 
വിശുദ്ധ ഖുർആൻ പരിഭാഷ - ഉർദു വിവർത്തനം - മുഹമ്മദ് ജുനാകരി - വിവർത്തനങ്ങളുടെ സൂചിക

മുഹമ്മദ് ഇബ്രാഹിം ജോനാക്രി വിവർത്തനം ചെയ്തിരിക്കുന്നു. റുവാദൂത്തർജമ മർകസിൻ്റെ മേൽനോട്ടത്തിലാണ് ഇത് വികസിപ്പിച്ചെടുത്തത്. അഭിപ്രായങ്ങൾ പ്രകടിപ്പിക്കുന്നതിനും വിലയിരുത്തുന്നതിനും തുടർച്ചയായ പുരോഗമനത്തിനും വേണ്ടി വിവർത്തനത്തിൻ്റെ അവലംബം അവലോകനത്തിന് ലഭ്യമാണ്.

അടക്കുക