Check out the new design

വിശുദ്ധ ഖുർആൻ പരിഭാഷ - ഉർദു വിവർത്തനം - മുഹമ്മദ് ജുനാകരി * - വിവർത്തനങ്ങളുടെ സൂചിക

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

പരിഭാഷ അദ്ധ്യായം: അഹ്സാബ്   ആയത്ത്:
تَحِیَّتُهُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَهٗ سَلٰمٌ ۖۚ— وَّاَعَدَّ لَهُمْ اَجْرًا كَرِیْمًا ۟
جس دن یہ (اللہ سے) ملاقات کریں گے ان کا تحفہ سلام ہوگا(1) ، ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے باعزت اجر تیار کر رکھا ہے.
(1) یعنی جنت میں فرشتے اہل ایمان کو یا مومن آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے۔
അറബി ഖുർആൻ വിവരണങ്ങൾ:
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا ۟ۙ
اے نبی! یقیناً ہم نے ہی آپ کو (رسول بنا کر) گواہیاں دینے واﻻ(1) ، خوشخبریاں سنانے واﻻ، آگاه کرنے واﻻ بھیجا ہے.
(1) بعض لوگ شاہد کے معنی حاضر وناظر کے کرتے ہیں جو قرآن کی تحریف معنوی ہے۔ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) اپنی امت کی گواہی دیں گے، ان کی بھی جو آپ (صلى الله عليه وسلم) پر ایمان لائے اور ان کی بھی جنہوں نے تکذیب کی۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) قیامت والے دن اہل ایمان کو ان کے اعضائے وضو سے پہنچان لیں گے جو چمکتے ہوں گے، اسی طرح آپ (صلى الله عليه وسلم) دیگر انبیا علیہم السلام کی گواہی دیں گے کہ ا نہوں نے اپنی اپنی قوموں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور یہ گواہی اللہ کے دیئے ہوئے یقینی علم کی بنیاد پر ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) تمام انبیا علیہم السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے ہیں، یہ عقیدہ تو نصوص قرآنی کے خلاف ہے۔
അറബി ഖുർആൻ വിവരണങ്ങൾ:
وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا ۟
اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے واﻻ اور روشن چراغ.(1)
(1) جس طرح چراغ سے اندھیرے دور ہوجاتے ہیں، اسی طرح آپ (صلى الله عليه وسلم) کے ذریعے سے کفروشرک کی تاریکیاں دور ہوئیں۔ علاوہ ازیں اس چراغ سے کسب ضیا کرکے جو کمال وسعادت حاصل کرنا چاہے، کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ یہ چراغ قیامت تک روشن ہے۔
അറബി ഖുർആൻ വിവരണങ്ങൾ:
وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا ۟
آپ مومنوں کو خوشخبری سنا دیجئے! کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل ہے.
അറബി ഖുർആൻ വിവരണങ്ങൾ:
وَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَدَعْ اَذٰىهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَی اللّٰهِ ؕ— وَكَفٰی بِاللّٰهِ وَكِیْلًا ۟
اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ مانیئے! اور جو ایذا (ان کی طرف سے پہنچے) اس کا خیال بھی نہ کیجیئے اللہ پر بھروسہ کئے رہیں، اور کافی ہے اللہ تعالیٰ کام بنانے واﻻ.
അറബി ഖുർആൻ വിവരണങ്ങൾ:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ— فَمَتِّعُوْهُنَّ وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا ۟
اے مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے (ہی) طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو(1) ، پس تم کچھ نہ کچھ انہیں دے دو(2) اور بھلے طریق پر انہیں رخصت کر دو.(3)
(1) نکاح کے بعد جن عورتوں سے ہم بستری کی جاچکی ہو اور وہ ابھی جوان ہوں، ایسی عورتوں کو طلاق مل جائے تو ان کی عدت تین حیض ہے۔ (البقرۃ: 228) یہاں ان عورتوں کو حکم بیان کیا جا رہا ہے کہ جن سے نکاح ہوا ہے لیکن میاں بیوی کے درمیان ہم بستری نہیں ہوئی۔ ان کو اگر طلاق ہوجائے تو کوئی عدت نہیں ہے یعنی ایسی غیر مدخولہ مطلقہ بغیر عدت گزارے فوری طور پر کہیں نکاح کرنا چاہے، تو کر سکتی ہے، البتہ اگر ہم بستری سے قبل خاوند فوت ہوجائے تو پھر اسے 4 مہینے 10 دن ہی عدت گزارنی پڑے گی۔ (فتح القدیر، ابن کثیر) چھونا یا ہاتھ لگانا، یہ کنایہ ہے جماع (ہم بستری) سے۔ نکاح کا لفظ خاص جماع اور عقد زواج دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں عقد کے معنی میں ہے۔ اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہاں نکاح کے بعد طلاق کا ذکر ہے۔ اس لئے جو فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں عورت سے میں نے نکاح کیا تو اسے طلاق، تو ان کے نزدیک اس عورت سے نکاح ہوتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی۔ اسی طرح بعض جو یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ یہ کہے کہ میں نے کسی بھی عورت سے نکاح کیا تو اسے طلاق، تو جس عورت سے بھی نکاح کرے گا، طلاق واقع ہوجائے گی۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ حدیث میں بھی وضاحت ہے۔ ”لا طَلاقَ قَبْلَ نِكَاحٍ“ (ابن ماجه) ”لا طَلاقَ لابْنِ آدَمَ فِيمَا لا يَمْلِكُ“ (أبو داود ، باب في الطلاق قبل النكاح، ترمذي، ابن ماجه ومسند أحمد 2 /189) اس سے واضح ہے کہ نکاح سے قبل طلاق، ایک فعل عبث ہے جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔
(2) یہ متعہ، اگر مہر مقرر کیا گیا ہو تو نصف مہر ہے ورنہ حسب توفیق کچھ دے دیا جائے۔
(3) یعنی انہیں عزت و احترام سے ، بغیر کوئی ایذاء پہنچائے علیحدہ کردیا جائے۔
അറബി ഖുർആൻ വിവരണങ്ങൾ:
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِیْۤ اٰتَیْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَیْكَ وَبَنٰتِ عَمِّكَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَبَنٰتِ خَالِكَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِیْ هَاجَرْنَ مَعَكَ ؗ— وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْكِحَهَا ۗ— خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ؕ— قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ فِیْۤ اَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ لِكَیْلَا یَكُوْنَ عَلَیْكَ حَرَجٌ ؕ— وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۟
اے نبی! ہم نے تیرے لئے تیری وه بیویاں حلال کر دی ہیں جنہوں تو ان کا مہر دے چکا ہے(1) اور وه لونڈیاں بھی جو اللہ تعالیٰ نے غنیمت میں تجھے دی ہیں(2) اور تیرے چچا کی لڑکیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خاﻻؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے(3)، اور وه باایمان عورت جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کردے یہ اس صورت میں کہ خود نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے(4)، یہ خاص طور پر صرف تیرے لئے ہی ہے اور مومنوں کے لئے نہیں(5)، ہم اسے بخوبی جانتے ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں (احکام) مقرر کر رکھے ہیں(6)، یہ اس لئے کہ تجھ پر حرج واقع نہ ہو(7)، اللہ تعالیٰ بہت بخشنے اور بڑے رحم واﻻ ہے.
(1) بعض احکام شرعیہ میں نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کو امیتاز حاصل تھا، جنہیں آپ (صلى الله عليه وسلم) کی خصوصیات کہا جاتا ہے۔ مثلاً اہل علم کی ایک جماعت کے بقول قیام اللیل (تہجد) آپ (صلى الله عليه وسلم) پر فرض تھا، صدقہ آپ (صلى الله عليه وسلم) پر حرام تھا، اسی طرح کی بعض خصوصیات کا ذکر قرآن کریم کے اس مقام پر کیا گیا ہے جن کا تعلق نکاح سے ہے۔ 1 . جن عورتوں کو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے مہر دیا ہے، وہ حلال ہیں چاہے تعداد میں وہ کتنی ہی ہوں اور آپ (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت صفیہ (رضی الله عنها) اور جویریہ (رضی الله عنها) کا مہر ان کی آزادی کو قرار دیا تھا، ان کے علاوہ بصورت نقد سب کو مہر ادا کیا تھا۔ صرف ام حبیبہ (رضی الله عنها) کا مہر نجاشی نے اپنی طرف سے دیا تھا۔
(2) چنانچہ حضرت صفیہ (رضی الله عنها) اور جویریہ (رضی الله عنها) ملکیت میں آئیں جنہیں آپ (صلى الله عليه وسلم) نے آزاد کرکے نکاح کرلیا، اور ریحانہ (رضی الله عنها) اور ماریہ قبطیہ (رضی الله عنها) یہ بطور لونڈی آپ کےپاس رہیں۔
(3) اس کا مطلب ہے کہ جس طرح آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ہجرت کی، اسی طرح انہوں نے بھی مکے سے مدینہ ہجرت کی۔ کیونکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ تو کسی عورت نے بھی ہجرت نہیں کی تھی۔
(4) یعنی اپنے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو ہبہ کرنے والی عورت، اگر آپ (صلى الله عليه وسلم) اس سے نکاح کرنا پسند فرمائیں تو بغیر مہر کے آپ (صلى الله عليه وسلم) کے لئے اسے اپنے نکاح میں رکھنا جائزہے۔
(5) یہ اجازت صرف آپ (صلى الله عليه وسلم) کے لئے ہے۔ دیگر مومنوں کے لئے تو ضروری ہے کہ وہ حق مہر، ادا کریں، تب نکاح جائز ہوگا۔
(6) یعنی عقد کے جو شرائط اور حقوق ہیں جو ہم نے فرض کئے ہیں کہ مثلاً چار سے زیادہ عورتیں بیک وقت کوئی شخص اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا، نکاح کے لئے ولی، گواہ اور حق مہر ضروری ہے۔ البتہ لونڈیاں جتنی کوئی چاہے، رکھ سکتا ہے، تاہم آج کل لونڈیوں کا مسئلہ تو ختم ہے۔
അറബി ഖുർആൻ വിവരണങ്ങൾ:
 
പരിഭാഷ അദ്ധ്യായം: അഹ്സാബ്
സൂറത്തുകളുടെ സൂചിക പേജ് നമ്പർ
 
വിശുദ്ധ ഖുർആൻ പരിഭാഷ - ഉർദു വിവർത്തനം - മുഹമ്മദ് ജുനാകരി - വിവർത്തനങ്ങളുടെ സൂചിക

മുഹമ്മദ് ഇബ്രാഹിം ജോനാക്രി വിവർത്തനം ചെയ്തിരിക്കുന്നു. റുവാദൂത്തർജമ മർകസിൻ്റെ മേൽനോട്ടത്തിലാണ് ഇത് വികസിപ്പിച്ചെടുത്തത്. അഭിപ്രായങ്ങൾ പ്രകടിപ്പിക്കുന്നതിനും വിലയിരുത്തുന്നതിനും തുടർച്ചയായ പുരോഗമനത്തിനും വേണ്ടി വിവർത്തനത്തിൻ്റെ അവലംബം അവലോകനത്തിന് ലഭ്യമാണ്.

അടക്കുക