ߞߎ߬ߙߣߊ߬ ߞߟߊߒߞߋ ߞߘߐ ߟߎ߬ ߘߟߊߡߌߘߊ - ߎߙߑߘߎߞߊ߲ ߘߟߊߡߌߘߊ * - ߘߟߊߡߌߘߊ ߟߎ߫ ߦߌ߬ߘߊ߬ߥߟߊ

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

ߞߘߐ ߟߎ߬ ߘߟߊߡߌ߬ߘߊ߬ߟߌ ߟߝߊߙߌ ߘߏ߫: (77) ߝߐߘߊ ߘߏ߫: ߝߊߟߊ߲ ߝߐߘߊ
فَانْطَلَقَا ۫— حَتّٰۤی اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَهْلَ قَرْیَةِ ١سْتَطْعَمَاۤ اَهْلَهَا فَاَبَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْهُمَا فَوَجَدَا فِیْهَا جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ ؕ— قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَیْهِ اَجْرًا ۟
پھر دونوں چلے ایک گاؤں والوں کے پاس آکر ان سے کھانا طلب کیا تو انہوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کر دیا(1) ، دونوں نے وہاں ایک دیوار پائی جو گراہی چاہتی تھی، اس نے اسے ٹھیک اور درست (2)کر دیا، موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے.(3)
(1) یعنی یہ بخیلوں کی بستی تھی کہ مہمانوں کی مہمان نوازی سے انکار کر دیا، دراں حالیکہ مسافروں کو کھانا کھلانا اور مہمان نوازی کرنا ہر شریعت کی اخلاقی تعلیمات کا اہم حصہ رہا ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی مہمان نوازی اور اکرام ضیف کو ایمان کا تقاضا قرار دیا ہے۔ فرمایا :«مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ» (فيض القدير شرح الجامع الصغير: 5/209) ”جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت وتکریم کرے“۔
(2) حضرت خضر نے اس دیوار کو ہاتھ لگایا اور اللہ کے حکم سے معجزانہ طور پر سیدھی ہوگئی۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت سے واضح ہے۔
(3) حضرت موسیٰ (عليه السلام)، جو اہل بستی کے رویے سے پہلے ہی کبیدہ خاطر تھے، حضرت خضر کے بلا معاوضہ احسان پر خاموش نہ رہ سکے اور بول پڑے کہ جب ان بستی والوں نے ہماری مسافرت، ضرورت مندی اور شرف وفضل کسی چیز کا بھی لحاظ نہیں کیا تو یہ لوگ کب اس لائق ہیں کہ ان کے ساتھ احسان کیا جائے؟
ߊߙߊߓߎߞߊ߲ߡߊ ߞߘߐߦߌߘߊ ߟߎ߬:
 
ߞߘߐ ߟߎ߬ ߘߟߊߡߌ߬ߘߊ߬ߟߌ ߟߝߊߙߌ ߘߏ߫: (77) ߝߐߘߊ ߘߏ߫: ߝߊߟߊ߲ ߝߐߘߊ
ߝߐߘߊ ߟߎ߫ ߦߌ߬ߘߊ߬ߥߟߊ ߞߐߜߍ ߝߙߍߕߍ
 
ߞߎ߬ߙߣߊ߬ ߞߟߊߒߞߋ ߞߘߐ ߟߎ߬ ߘߟߊߡߌߘߊ - ߎߙߑߘߎߞߊ߲ ߘߟߊߡߌߘߊ - ߘߟߊߡߌߘߊ ߟߎ߫ ߦߌ߬ߘߊ߬ߥߟߊ

ߞߎ߬ߙߣߊ߬ ߞߟߊߒߞߋ ߘߟߊߡߌߘߊ ߎߙߑߘߎߞߊ߲ ߘߐ߫߸ ߡߎ߬ߤ߭ߊߡߡߊߘߎ߫ ߌߓߑߙߊ߬ߤߌ߯ߡߎ߫ ߖߏߣߞߊߙߌ߯ ߟߊ߫ ߘߟߊߡߌߘߊ ߟߋ߬. ߊ߬ ߛߊߞߍ߫ ߘߊ߫ ߙߎ߬ߥߊ߯ߘߎ߫ ߘߟߊߡߌߘߊ ߝߊ߲ߓߊ ߟߊ߫ ߞߎ߲߬ߠߊ߬ߛߌ߰ߟߌ ߟߋ߫ ߞߐ߬ߣߐߡߊ߬߸ ߘߟߊߡߌߘߊ ߓߊߖߏߣߊ ߦߋ߫ ߓߟߏߞߘߐ߫ ߖߌ߲ߞߌ߲߫ ߞߊߡߵߊ߬ ߡߊ߬ ߡߙߌߣߊ߲ߦߌߘߊ ߘߐ߫ ߊ߬ ߞߊ߲߬߸ ߊ߬ ߣߴߊ߬ ߡߐ߬ߟߐ߲߬ߦߊ ߣߴߊ߬ ߟߊߥߙߎߞߌ ߘߊߓߊ߲ߠߌ߲.

ߘߊߕߎ߲߯ߠߌ߲