Check out the new design

د قرآن کریم د معناګانو ژباړه - اردو ژباړه - محمد جوناکرهي * - د ژباړو فهرست (لړلیک)

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

د معناګانو ژباړه سورت: یوسف   آیت:
فَلَمَّاۤ اَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰىهُ عَلٰی وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًا ۚؕ— قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ ۚ— اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ۟
جب خوشخبری دینے والے نے پہنچ کر ان کے منھ پر وه کرتا ڈاﻻ اسی وقت وه پھر سے بینا ہوگئے(1) ۔ کہا! کیا میں تم سے نہ کہا کرتا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وه باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.(2)
(1) یعنی جب وہ خوشخبری دینے والا آگیا اور آکر وہ قمیص حضرت یعقوب (عليه السلام) کے چہرے پر ڈال دی تو اس سے معجزانہ طور پر ان کی بینائی بحال ہوگئی۔
(2) کیونکہ میرے پاس ایک ذریعہ علم وحی بھی ہے، جو تم میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس وحی کے ذریعے سے اللہ تعالٰی اپنے پیغمبروں کو حالات سے مشیت و مصلحت آگاہ کرتا رہتا ہے۔
عربي تفسیرونه:
قَالُوْا یٰۤاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَاۤ اِنَّا كُنَّا خٰطِـِٕیْنَ ۟
انہوں نے کہا ابا جی! آپ ہمارے لئے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے بیشک ہم قصور وار ہیں.
عربي تفسیرونه:
قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّیْ ؕ— اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ۟
کہا اچھا میں جلد ہی تمہارے لئے اپنے پروردگار سے بخشش مانگوں گا(1) ، وه بہت بڑا بخشنے واﻻ اور نہایت مہربانی کرنے وﻻ ہے.
(1) فی الفور مغفرت کی دعا کرنے کی بجائے دعا کرنے کا وعدہ فرمایا، مقصد یہ تھا کہ رات کے پچھلے پہر میں، جو اللہ کے خاص بندوں کا اللہ کی عبادت کرنے کا خاص وقت ہوتا ہے، اللہ سے ان کی مغفرت کی دعا کروں گا، دوسری بات یہ کہ بھائیوں کی زیادتی یوسف (عليه السلام) پر تھی، ان سے مشورہ لینا ضروری تھا اس لئے انہوں نے تاخیر کی اور فوراً مغفرت کی دعا نہیں کی۔
عربي تفسیرونه:
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰوٰۤی اِلَیْهِ اَبَوَیْهِ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِیْنَ ۟ؕ
جب یہ سارا گھرانہ یوسف کے پاس پہنچ گیا تو یوسف نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی(1) اور کہا کہ اللہ کو منظور ہے تو آپ سب امن وامان کے ساتھ مصر میں آؤ.
(1) یعنی عزت و احترام کے ساتھ انہیں اپنے پاس جگہ دی اور ان کا خوب اکرام کیا۔
عربي تفسیرونه:
وَرَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا ۚ— وَقَالَ یٰۤاَبَتِ هٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْیَایَ مِنْ قَبْلُ ؗ— قَدْ جَعَلَهَا رَبِّیْ حَقًّا ؕ— وَقَدْ اَحْسَنَ بِیْۤ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَجَآءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَبَیْنَ اِخْوَتِیْ ؕ— اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآءُ ؕ— اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ ۟
اور اپنے تخت پر اپنے ماں باپ(1) کو اونچا بٹھایا اور سب اس کے سامنے سجدے میں گر گئے(2)۔ تب کہا کہ اباجی! یہ میرے پہلے کے خواب کی تعبیر ہے(3) میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا، اس نے میرے ساتھ بڑا احسان کیا جب کہ مجھے جیل خانے سے نکالا(4) اور آپ لوگوں کو صحرا سے لے آیا(5) اس اختلاف کے بعد جو شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ڈال دیا (6)تھا۔ میرا رب جو چاہے اس کے لئے بہترین تدبیر کرنے واﻻ ہے۔ اور وه بہت علم وحکمت واﻻ ہے.
(1) بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ سوتیلی ماں اور سگی خالہ تھیں کیونکہ یوسف (عليه السلام) کی حقیقی ماں بنیامین کی ولادت کے بعد فوت ہوگئی تھیں۔ حضرت یعقوب (عليه السلام) نے اس کی وفات کے بعد اس کی ہمشیرہ سے نکاح کر لیا تھا یہی خالہ اب حضرت یعقوب (عليه السلام) کے ساتھ مصر میں گئی تھیں (فتح القدیر) لیکن امام ابن جریرطبری نے اس کے برعکس یہ کہا ہے کہ یوسف (عليه السلام) کی والدہ فوت نہیں ہوئی تھیں اور وہی حقیقی والدہ تھیں۔ (ابن کثیر)
(2) بعض نے اس کا ترجمہ کیا ہے کہ ادب و تعظیم کے طور پر یوسف (عليه السلام) کے سامنے جھک گئے۔ لیکن «وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا» (یوسف:100) کے الفاظ بتلاتے ہیں کہ وہ زمین پر یوسف (عليه السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہوئے، یعنی یہ سجدہ، سجدہ ہی کے معنی میں ہے۔ تاہم یہ سجدہ، سجدہ تعظیمی ہے سجدہ عبادت نہیں اور سجدہ تعظیمی حضرت یعقوب (عليه السلام) کی شریعت میں جائز تھا۔ اسلام میں شرک کے سد باب کے لئے سجدہ تعظیمی کو بھی حرام کر دیا گیا ہے، اور اب سجدہ تعظیمی بھی کسی کے لئے جائز نہیں۔
(3) یعنی حضرت یوسف (عليه السلام) نے جو خواب میں دیکھا تھا اتنی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بالآخر اس کی تعبیر سامنے آئی کہ اللہ تعالٰی نے حضرت یوسف (عليه السلام) کو تخت شاہی پر بٹھایا اور والدین سمیت تمام بھائیوں نے اسے سجدہ کیا۔
(4) اللہ کے احسنات میں کنویں سے نکلنے کا ذکر نہیں کیا تاکہ بھائی شرمندہ نہ ہوں۔ یہ اخلاق نبوی ہے۔
(5) مصر جیسے متمدن علاقے کے مقابلے میں کنعان کی حیثیت ایک صحرا کی تھی، اس لئے اسے بَدُوْ سے تعبیر کیا۔
(6) یہ بھی اخلاق کریمانہ کا ایک نمونہ کہ بھائیوں کو ذرا مورد الزام نہیں ٹھہرایا اور شیطان کو اس کارستانی کا باعث قرار دیا۔
عربي تفسیرونه:
رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ ۚ— فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۫— اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ— تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ ۟
اے میرے پروردگار! تو نے مجھے ملک عطا فرمایا(1) اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلائی(2)۔ اے آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے! تو ہی دنیا وآخرت میں میرا ولی (دوست) اور کارساز ہے، تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور نیکوں میں ملا دے.(3)
(1) یعنی ملک مصر کی فرمانروائی عطا فرمائی، جیسا کہ تفصیل گزری۔
(2) حضرت یوسف (عليه السلام) اللہ کے پیغمبر تھے، جن پر اللہ کی طرف سے وحی کا نزول ہوتا اور خاص خاص باتوں کا علم انہیں عطا کیا جاتا۔ چنانچہ اس علم نبوت کی روشنی میں پیغمبر خوابوں کی تعبیر بھی صحیح طور پر کر لیتے۔ تھے تاہم معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (عليه السلام) کو اس فن تعبیر میں خصوصی ملکہ حاصل تھا جیسا کہ قید کے ساتھیوں کے خواب کی اور سات موٹی گایوں کے خواب کی تعبیر پہلے گزری۔
(3) اللہ تعالٰی نے حضرت یوسف (عليه السلام) پر جو احسانات کیے، انہیں یاد کرکے اور اللہ تعالٰی کی دیگر صفات کا تذکرہ کرکے دعا فرما رہے ہیں کہ جب مجھے موت آئے تو اسلام کی حالت میں آئے اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔ اس سے مراد حضرت یوسف (عليه السلام) کے آباواجداد، حضرت ابراہیم و اسحاق علیہا السلام وغیرہ مراد ہیں۔ بعض لوگوں کو اس دعا سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ حضرت یوسف (عليه السلام) نے موت کی دعا مانگی حالانکہ یہ موت کی دعا نہیں ہے آخر وقت تک اسلام پر استقامت کی دعا ہے۔
عربي تفسیرونه:
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ ۚ— وَمَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ اَجْمَعُوْۤا اَمْرَهُمْ وَهُمْ یَمْكُرُوْنَ ۟
یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جس کی ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ آپ ان کے پاس نہ تھے جب کہ انہوں نے اپنی بات ٹھان لی تھی اور وه فریب کرنے لگے تھے.(1)
(1) یعنی یوسف (عليه السلام) کے ساتھ، جب کہ انہیں کنوئیں میں پھینک آئے یا مراد حضرت یعقوب (عليه السلام) ہیں یعنی ان کو یہ کہہ کر کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے اور یہ اس کی قمیص ہے، جو خون میں لت پت ہے ان کے ساتھ فریب کیا۔ اللہ تعالٰی نے اس مقام پر بھی اس بات کی نفی فرمائی ہے کہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کو غیب کا علم تھا لیکن یہ نفی مطلق علم کی نہیں ہے کیونکہ اللہ نے وحی کے ذریعے سے آپ کو آگاہ فرمایا دیا۔ یہ نفی مشاہد کی ہے کہ اس وقت آپ وہاں موجود نہیں تھے۔ اسی طرح ایسے لوگوں سے بھی آپ کا رابطہ و تعلق نہیں رہا ہے جن سے آپ نے سنا ہو۔ یہ صرف اللہ تعالٰی ہی ہے جس نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے سچے نبی ہیں اور اللہ تعالٰی کی طرف سے آپ کو وحی نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالٰی نے اور بھی کئی مقامات پر اسی طرح غیب اور مشاہدے کی نفی فرمائی ہے۔ (مثلاً ملاحظہ ہو سورہ آل عمران:7، 44، القصص:46-45، سورۂ ص:70۔69)۔
عربي تفسیرونه:
وَمَاۤ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ ۟
گو آپ لاکھ چاہیں لیکن اکثر لوگ ایمان دار نہ ہوں گے.(1)
(1) یعنی اللہ تعالٰی آپ کو پچھلے واقعات سے آگاہ فرما رہا ہے تاکہ لوگ ان سے عبرت پکڑیں اور اللہ کے پیغمبروں کا راستہ اختیار کر کے نجات ابدی کے مستحق بن جائیں۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ہے کیونکہ وہ گذشتہ قوموں کے واقعات سنتے ہیں لیکن عبرت پذیری کے لئے نہیں، صرف دلچسپی اور لذت کے لئے، اس لئے وہ ایمان سے، محروم ہی رہتے ہیں۔
عربي تفسیرونه:
 
د معناګانو ژباړه سورت: یوسف
د سورتونو فهرست (لړلیک) د مخ نمبر
 
د قرآن کریم د معناګانو ژباړه - اردو ژباړه - محمد جوناکرهي - د ژباړو فهرست (لړلیک)

محمد ابراهیم جوناكري لخوا ژباړل شوی دی. د رواد الترجمة مرکز تر څارنې لاندې انکشاف ورکړل شوی، او اصلي ژباړې ته د نظرونو څرګندولو، ارزونې، او دوامداره پرمختګ او بیاکتنې لپاره فرصت شتون لري.

بندول