Check out the new design

د قرآن کریم د معناګانو ژباړه - اردو ژباړه - محمد جوناکرهي * - د ژباړو فهرست (لړلیک)

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

د معناګانو ژباړه سورت: مؤمنون   آیت:
وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰی رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ ۟ۙ
اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وه اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں.(1)
(1) یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں لیکن اللہ سے ڈرتے ہیں کہ کسی کوتاہی کی وجہ سے ہمارا عمل یا صدقہ نامقبول قرار نہ پائے۔ حدیث میں آتا ہے۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنها)نے پوچھا ”ڈرنے والے کون ہیں؟ وہ جو شراب پیتے، بدکاری کرتے اور چوریاں کرتے ہیں؟ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، نہیں، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے، روزہ رکھتے اور صدقہ و خیرات کرتے ہیں لیکن ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں یہ نامقبول نہ ٹھہریں“۔ (ترمذی تفسیر سورہ المومنون۔ مسند احمد 6/195،160)۔
عربي تفسیرونه:
اُولٰٓىِٕكَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ ۟
یہی ہیں جو جلدی جلدی بھلائیاں حاصل کر رہے ہیں اور یہی ہیں جو ان کی طرف دوڑ جانے والے ہیں.
عربي تفسیرونه:
وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا وَلَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ۟
ہم کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیاده تکلیف نہیں دیتے(1) ، اور ہمارے پاس ایسی کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے، ان کے اوپر کچھ ﻇلم نہ کیا جائے گا.
(1) ایسی ہی آیت سورہ بقرہ کے آخر میں گزر چکی ہے۔
عربي تفسیرونه:
بَلْ قُلُوْبُهُمْ فِیْ غَمْرَةٍ مِّنْ هٰذَا وَلَهُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ هُمْ لَهَا عٰمِلُوْنَ ۟
بلکہ ان کے دل اس طرف سے غفلت میں ہیں اور ان کے لئے اس کے سوا بھی بہت سے اعمال ہیں(1) جنہیں وه کرنے والے. ہیں
(1) یعنی شرک کے علاوہ دیگر کبائر یاوہ اعمال مراد ہیں، جو مومنوں کے اعمال (خشیت الٰہی، ایمان با توحید وغیرہ) کے برعکس ہیں۔ تاہم مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔
عربي تفسیرونه:
حَتّٰۤی اِذَاۤ اَخَذْنَا مُتْرَفِیْهِمْ بِالْعَذَابِ اِذَا هُمْ یَجْـَٔرُوْنَ ۟ؕ
یہاں تک کہ جب ہم نے ان کے آسوده حال لوگوں کو عذاب میں پکڑ لیا(1) تو وه بلبلانے لگے.
(1) مترفین سے مراد آسودہ حال (متنعمین)ہیں۔ عذاب تو آسودہ اور غیر آسودہ حال دونوں کو ہی ہوتا ہے۔ لیکن آسودہ حال لوگوں کا نام خصوصی طور پر شاید اس لئے لیا گیا کہ قوم کی قیادت بالعموم انہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، وہ جس طرف چاہیں قوم کا رخ پھیر سکتے ہیں۔ اگر وہ اللہ کی نافرمانی کا راستۃ اختیار کریں اور اس پر ڈٹے رہیں تو انہی کی دیکھا دیکھی قوم بھی ٹس سے مس نہیں ہوتی۔اور توبہ و ندامت کی طرف نہیں آتی۔ یہاں مترفین سے مراد وہ کفار ہیں، جنہیں مال و دولت کی فراوانی اور اولاد و احفاد سے نواز کر مہلت دی گئی۔ جس طرح کہ چند آیات قبل ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ یا مراد چوہدری اور سردار قسم کے لوگ ہیں۔ اور عذاب سے مراد اگر دنیاوی ہے، تو جنگ بدر میں کفار مکہ مارے گئے بلکہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی بد دعا کے نتیجے میں بھوک اور قحط سالی کا عذاب مسلط ہوا، وہ مراد ہے یا پھر مراد آخرت کا عذاب ہے۔ مگر یہ سیاق سے بعید ہے۔
عربي تفسیرونه:
لَا تَجْـَٔرُوا الْیَوْمَ ۫— اِنَّكُمْ مِّنَّا لَا تُنْصَرُوْنَ ۟
آج مت بلبلاؤ یقیناً تم ہمارے مقابلہ پر مدد نہ کئے جاؤ گے.(1)
(1) یعنی دنیا میں عذاب الٰہی سے دوچار ہو جانے کے بعد کوئی چیخ پکاراور جزع و فزع انہیں اللہ کی گرفت سے چھڑا نہیں سکتی۔ اسی طرح عذاب آخرت سے بھی انہیں چھڑانے والا یا مدد کرنے والا، کوئی نہیں ہوگا۔
عربي تفسیرونه:
قَدْ كَانَتْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰی عَلَیْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلٰۤی اَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُوْنَ ۟ۙ
میری آیتیں تو تمہارے سامنے پڑھی جاتی تھیں(1) پھر بھی تم اپنی ایڑیوں کے بل الٹے بھاگتے تھے.(2)
(1) یعنی قرآن مجید یا کلام الٰہی، جن میں پیغمبر کے فرمودات بھی شامل ہیں۔
(2) نکوص کے معنی ہیں "رجعت قھقری" (الٹے پاؤں لوٹنا) لیکن بطور استعارہ اعراض اور روگردانی کے معنی و مفہوم میں استمعمال ہوتا ہے۔ یعنی آیات و احکام الٰہی سن کر تم منہ پھیر لیتے تھے اور ان سے بھا گتے تھے۔
عربي تفسیرونه:
مُسْتَكْبِرِیْنَ ۖۚۗ— بِهٖ سٰمِرًا تَهْجُرُوْنَ ۟
اکڑتے اینٹھتے(1) افسانہ گوئی کرتے اسے چھوڑ دیتے تھے.(2)
(1) به کا مرجع جمہور مفسرین نے ”البیت العتیق“ (خانہ کعبہ) یا حرم لیا ہے۔ یعنی انہیں اپنی تولیت خانہ کعبہ اور اس کا خادم و نگران ہونے کا جو غرور تھا، اس کی بنا پر آیات الٰہی کا انکار کیا اور بعض نے اس کا مرجع قرآن کو بنایا ہے اور مطلب یہ ہے کہ قرآن سن کر ان کے دل میں کھلبلی پیدا ہو جاتی جو انہیں قرآن پر ایمان لانے سے روک دیتی۔
(2) سَمَر کے معنی ہیں رات کی گفتگو یہاں اس کے معنی خاص طور پر ان باتوں کے ہیں جو قرآن کریم اور نبی (صلى الله عليه وسلم) کے بارے میں وہ کرتے تھے اور اس کی بنا پر وہ حق کی بات سننے اور قبول کرنے سے انکار کر دیتے۔ یعنی چھوڑ دیتے۔ اور بعض نے ہجر کے معنی فحش گوئی کے کئے ہیں۔ یعنی راتوں کی گفتگو میں تم قرآن کی شان میں بےہودہ اور فحش باتیں کرتے ہو، جن میں کوئی بھلائی نہیں (فتح القدیر)
عربي تفسیرونه:
اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآءَهُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآءَهُمُ الْاَوَّلِیْنَ ۟ؗ
کیا انہوں نے اس بات میں غور وفکر ہی نہیں کیا(1) ؟ بلکہ ان کے پاس وه آیا جو ان کے اگلے باپ دادوں کے پاس نہیں آیا تھا؟(2)
- بات سے مراد قرآن مجید ہے۔ یعنی اس میں غور کر لیتے تو انہیں اس پر ایمان لانے کی توفیق نصیب ہو جاتی۔
(2) یہ أَم منقطعہ یا انتقالیہ یعنی بل کے معنی میں ہے، یعنی ان کے پاس وہ دین اور شریعت آئی ہے جس سے ان کے آباؤ اجداد زمانہ جاہلیت میں محروم رہے۔ جس پر انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا اور دین اسلام کو قبول کر لینا چاہیے تھا۔
عربي تفسیرونه:
اَمْ لَمْ یَعْرِفُوْا رَسُوْلَهُمْ فَهُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ ۟ؗ
یا انہوں نے اپنے پیغمبر کو پہچانا نہیں کہ اس کے منکر ہو رہے ہیں؟(1)
(1) یہ بطور توبیخ کے ہے، کیونکہ وہ پیغمبر کے نسب، خاندان اور اسی طرح اس کی صداقت و امانت، راست بازی اور اخلاق و کردار کی بلندی کو جانتے تھے اور اس کا اعتراف کرتے تھے۔
عربي تفسیرونه:
اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِهٖ جِنَّةٌ ؕ— بَلْ جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ وَاَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ ۟
یا یہ کہتے ہیں کہ اسے جنون ہے(1) ؟ بلکہ وه تو ان کے پاس حق ﻻیا ہے۔ ہاں ان میں اکثر حق سے چڑنے والے ہیں.(2)
(1) یہ بھی زجر و توبیخ کے طور پر ہی ہے یعنی اس پیغمبر نے ایسا قرآن پیش کیا جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ اسی طرح اس کی تعلیمات نوع انسانی کے لئے رحمت اور امن و سکون کا باعث ہیں۔ کیا ایسا قرآن اور ایسی تعلیمات ایسا شخص بھی پیش کر سکتا ہے جو دیوانہ اور مجنون ہو؟۔
(2) یعنی ان کے اعراض اور استکبار کی اصل وجہ حق سے ان کی کراہت (ناپسدیدگی) ہے جو عرصہ دراز سے باطل کو اختیار کئے رکھنے کی وجہ سے ان کے اندر پیدا ہوگئی ہے۔
عربي تفسیرونه:
وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ ؕ— بَلْ اَتَیْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُوْنَ ۟ؕ
اگر حق ہی ان کی خواہشوں کا پیرو ہوجائے تو زمین وآسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز درہم برہم ہو جائے(1) ۔ حق تو یہ ہے کہ ہم نے انہیں ان کی نصیحت پہنچا دی ہے لیکن وه اپنی نصیحت سے منھ موڑنے والے ہیں.
(1) حق سے مراد دین اور شریعت ہے۔ یعنی اگر دین ان کی خواہشات کے مطابق اترے تو ظاہر بات ہے کہ زمین و آسمان کا سارا نظام ہی درہم برہم ہو جائے۔ مثلاً وہ چاہتے ہیں کہ ایک معبود کے بجائے متعدد معبود ہوں، اگر فی الواقع ایسا ہو، تو کیا نظام کائنات ٹھیک رہ سکتا ہے؟ وعلى هذا القياس دیگر ان کی خواہشات ہیں۔
عربي تفسیرونه:
اَمْ تَسْـَٔلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَیْرٌ ۖۗ— وَّهُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ ۟
کیا آپ ان سے کوئی اجرت چاہتے ہیں؟ یاد رکھیئے کہ آپ کے رب کی اجرت بہت ہی بہتر ہے اور وه سب سے بہتر روزی رساں ہے.
عربي تفسیرونه:
وَاِنَّكَ لَتَدْعُوْهُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۟
یقیناً آپ تو انہیں راه راست کی طرف بلا رہے ہیں.
عربي تفسیرونه:
وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنٰكِبُوْنَ ۟
بےشک جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وه سیدھے راستے سے مڑ جانے والے ہیں.
(1) یعنی صراط مستقیم سے انحراف کی وجہ آخرت پر عدم ایمان ہے۔
عربي تفسیرونه:
 
د معناګانو ژباړه سورت: مؤمنون
د سورتونو فهرست (لړلیک) د مخ نمبر
 
د قرآن کریم د معناګانو ژباړه - اردو ژباړه - محمد جوناکرهي - د ژباړو فهرست (لړلیک)

محمد ابراهیم جوناكري لخوا ژباړل شوی دی. د رواد الترجمة مرکز تر څارنې لاندې انکشاف ورکړل شوی، او اصلي ژباړې ته د نظرونو څرګندولو، ارزونې، او دوامداره پرمختګ او بیاکتنې لپاره فرصت شتون لري.

بندول