Check out the new design

Tradução dos significados do Nobre Qur’an. - Tradução em Urdu - Muhammad Gunakry * - Índice de tradução

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Tradução dos significados Surah: Al-Muminun   Versículo:
مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَهَا وَمَا یَسْتَاْخِرُوْنَ ۟ؕ
نہ تو کوئی امت اپنے وقت مقرره سے آگے بڑھی اور نہ پیچھے رہی.(1)
(1) یعنی سب امتیں بھی قوم نوح اور عاد کی طرح، جب ان کی ہلاکت کا وقت آیا تو تباہ اور برباد ہوگئیں، ایک لمحہ آگے پیچھے نہ ہوئیں۔ جیسے فرمایا «إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُونَ»(یونس:49)
Os Tafssir em língua árabe:
ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا ؕ— كُلَّ مَا جَآءَ اُمَّةً رَّسُوْلُهَا كَذَّبُوْهُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَّجَعَلْنٰهُمْ اَحَادِیْثَ ۚ— فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ ۟
پھر ہم نے لگاتار رسول(1) بھیجے، جب جب اس امت کے پاس اس کا رسول آیا اس نے جھٹلایا، پس ہم نے ایک دوسرے کے پیچھے لگا دیا(2) اور انہیں افسانہ(3) بنا دیا۔ ان لوگوں کو دوری ہے جو ایمان قبول نہیں کرتے.
(1) تَتْرَا کے معنی ہیں۔ یکے بعد دیگرے، متواتر لگا تار۔
(2) ہلاکت اور بربادی میں۔ یعنی جس طرح یکے بعد دیگرے رسول آئے، اسی طرح رسالت کے جھٹلانے پر یہ قومیں یکے بعد دیگرے، عذاب سے دو چار ہو کر ہست و نیست ہوتی رہیں۔
(3) جس طرح اَعَاجِیْبُ، اُعْجُوبَۃً کی جمع ہے (تعجب انگیز چیز یا بات) اسی طرح اَحَاحِیْثُ اُحْدُوْثَۃًکی جمع ہے بمعنی مشہور معروف مخلو قات کے واقعات اور قصص۔
Os Tafssir em língua árabe:
ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی وَاَخَاهُ هٰرُوْنَ ۙ۬— بِاٰیٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ ۟ۙ
پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اپنی آیتوں اور کھلی دلیل(1) کے ساتھ بھیجا.
(1) آیات سے مراد وہ نو آیات ہیں، جن کا ذکر سورہ اعراف میں ہے، جن کی وضاحت گزر چکی ہے اور سُلْطَانٍ مُبِیْنٍ سے مراد واضح اور پختہ دلیل ہے، جس کا کوئی جواب فرعون اور اس کے درباریوں سے نہ بن پڑا۔
Os Tafssir em língua árabe:
اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَاۡىِٕهٖ فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا عَالِیْنَ ۟ۚ
فرعون اور اس کے لشکروں کی طرف، پس انہوں نے تکبر کیا اور تھے ہی وه سرکش لوگ.(1)
(1) استکبار اور اپنے کو بڑا سمجھنا، اس کی بنیادی وجہ بھی وہی عقیدہ آخرت سے انکار اور اسباب دنیا کی فروانی ہی تھی، جس کا ذکر پچھلی قوموں کے واقعات میں گزرا۔
Os Tafssir em língua árabe:
فَقَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ ۟ۚ
کہنے لگے کہ کیا ہم اپنے جیسے دو شخصوں پر ایمان ﻻئیں؟ حاﻻنکہ خود ان کی قوم (بھی) ہمارے ماتحت(1) ہے.
(1) یہاں بھی انکار کے لیے دلیل انہوں نے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کی بشریت ہی پیش کی اور اسی بشریت کی تاکید کے لیے انہوں نے کہا کہ یہ دونوں اسی قوم کے افراد ہیں جو ہماری غلام ہے۔
Os Tafssir em língua árabe:
فَكَذَّبُوْهُمَا فَكَانُوْا مِنَ الْمُهْلَكِیْنَ ۟
پس انہوں نے ان دونوں کو جھٹلایا آخر وه بھی ہلاک شده لوگوں میں مل گئے.
Os Tafssir em língua árabe:
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْكِتٰبَ لَعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ ۟
ہم نے تو موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب (بھی) دی کہ لوگ راه راست پر آجائیں.(1)
(1) امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو تورات، فرعون اور اس کی قوم کو غرق کرنے کے بعد دی گئی۔ اور نزول تورات کے بعد اللہ نے کسی قوم کو عذاب عام سے ہلاک نہیں کیا۔ بلکہ مومنوں کو حکم دیا جاتا رہا کہ وہ کافروں سے جہاد کریں۔
Os Tafssir em língua árabe:
وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّهٗۤ اٰیَةً وَّاٰوَیْنٰهُمَاۤ اِلٰی رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ ۟۠
ہم نے ابن مریم اور اس کی والده کو ایک نشانی بنایا(1) اور ان دونوں کو بلند صاف قرار والی اور جاری پانی(2) والی جگہ میں پناه دی.
(1) کیونکہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی، جو رب کی قدرت کی ایک نشانی ہے، جس طرح آدم (عليه السلام) کو بغیر ماں باپ کے اور ہوا کو بغیر مادہ کے حضرت آدم (عليه السلام) سے اور دیگر تمام انسانوں کو ماں اور باپ سے پیدا کرنا اس کی نشانیوں میں سے ہے۔
(2) رَبْوَۃٍ (بلند جگہ) سے بیت المقدس اور مَعِیْنٍ (چشمہ جاری) سے وہ چشمہ مراد ہے جو ایک قول کے مطابق ولادت عیسیٰ (عليه السلام) کے وقت اللہ نے بطور معجزہ، حضرت مریم کے پیروں کے نیچے سے جاری فرمایا تھا۔ جیسا سورہ مریم میں گزرا۔
Os Tafssir em língua árabe:
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ؕ— اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ ۟ؕ
اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو(1) تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں.
(1) طَيِّبَاتٌ‌ سے مراد پاکیزہ اور لذت بخش چیزیں ہیں، بعض نے اس کا ترجمہ حلال چیزیں کیا ہے۔ دونوں ہی اپنی جگہ صحیح ہیں کیونکہ ہر پاکیزہ چیز اللہ نے حلال کر دی ہے اور ہر حلال چیز پاکیزہ اور لذت بخش ہے۔ خبائث کو اللہ نے اس لئے حرام کیا ہے کہ وہ اثرات و نتائج کے لحاظ سے پاکیزہ نہیں ہیں۔ گو خبائث خور قوموں کو اپنے ماحول اور عادت کی وجہ سے ان میں ایک گونہ لذت ہی محسوس ہوتی ہو۔ عمل صالح وہ ہے جو شریعت یعنی قرآن و حدیث کے موافق ہو، نہ کہ وہ جسے لوگ اچھا سمجھیں کیوں کہ لوگوں کو تو بدعات بھی بہت اچھی لگتی ہیں بلکہ اہل بدعت کے ہاں جتنا اہتمام بدعات کا ہے، اتنا فرائض اسلام اور سنن و مستحبات کا بھی نہیں ہے۔اکل حلال کے ساتھ عمل صالح کی تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسر کے معاون ہیں۔ اکل حلال سے عمل صالح آسان اور عمل صالح انسان کو اکل حلال پر آمادہ اور اسی پر قناعت کرنے کا سبق دیتا ہے۔ اسی لئے اللہ نے تمام پیغمبروں کو ان دونوں باتوں کا حکم دیا۔ چنانچہ تمام پیغمبر محنت کر کے حلال روزی کمانے اور کھانے کا اہتمام کرتے رہے، جس طرح حضرت داؤد (عليه السلام) کے بارے میں آتا ہے«كَانَ يَأْكُلُ مِنْ كَسْبِ يَدِهِ» (صحیح بخاری، کتاب البیوع باب کسب الرجل وعمله بیده) ”کہ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے“ اور نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا " ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں، میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند سکوں کے عوض چراتا رہا ہوں"۔(صحیح بخاری، کتاب الاجارة، باب رعی الغنم علی قراریط) آج کل بلیک میلروں، سمگلروں، رشوت و سود خوروں اور دیگر حرام خوروں نے محنت کرکے حلال روزی کھانے والوں کو حقیر اور پست طبقہ بنا کر رکھ دیا ہے دراں حالیکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں حرام خورعوں کے لئے عزت و شرف کا کوئی مقام نہیں، چاہے وہ قارون کے خزانوں کے مالک ہوں، احترام و تکریم کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو محنت کرکے حلال کی روزی کھاتے ہیں چاہے روکھی سوکھی ہی ہو۔ اس لئے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے اور فرمایا ہےکہ ”اللہ تعالیٰ حرام کمائی والے کا صدقہ قبول فرماتا ہے نہ اس کی دعا“۔ (صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ باب قبول الصدقة من الکسب الطیب)
Os Tafssir em língua árabe:
وَاِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُوْنِ ۟
یقیناً تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے(1) اور میں ہی تم سب کا رب ہوں، پس تم مجھ سے ڈرتے رہو.
(1) اُ مَّۃ سے مراد دین ہے، اور ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سب انبیاء نے ایک اللہ کی عبادت ہی کی دعوت پیش کی ہے۔ لیکن لوگ دین توحید چھوڑ کر الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے اور ہر گروہ اپنے عقیدہ و عمل پر خوش ہے، چاہے وہ حق سے کتنا بھی دور ہو۔
Os Tafssir em língua árabe:
فَتَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ زُبُرًا ؕ— كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ ۟
پھر انہوں نے خود (ہی) اپنے امر (دین) کے آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیئے، ہر گروه جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر اترا رہا ہے.
Os Tafssir em língua árabe:
فَذَرْهُمْ فِیْ غَمْرَتِهِمْ حَتّٰی حِیْنٍ ۟
پس آپ (بھی) انہیں ان کی غفلت میں ہی کچھ مدت پڑا رہنے دیں.(1)
(1) غمرة، ماء کثیر کو کہتے ہیں جو زمین کو ڈھانپ لیتا ہے۔گمراہی کی تاریکیاں بھی اتنی گمبھیر ہوتی ہیں کہ اس میں گھرے ہوئے انسان کی نظروں سے حق اوجھل ہی رہتا ہے عُمرۃ، حیرت، غفلت اور ضلالت ہے۔ آیت میں بطور دھمکی ان کو چھوڑنے کا حکم ہے، مقصود وعظ و نصیحت سے روکنا نہیں ہے۔
Os Tafssir em língua árabe:
اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ ۟ۙ
کیا یہ (یوں) سمجھ بیٹھے ہیں؟ کہ ہم جو بھی ان کے مال و اوﻻد بڑھا رہے ہیں.
Os Tafssir em língua árabe:
نُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَیْرٰتِ ؕ— بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ ۟
وه ان کے لئے بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں (نہیں نہیں) بلکہ یہ سمجھتے ہی نہیں.
Os Tafssir em língua árabe:
اِنَّ الَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ ۟ۙ
یقیناً جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں.
Os Tafssir em língua árabe:
وَالَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ ۟ۙ
اور جو اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں.
Os Tafssir em língua árabe:
وَالَّذِیْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا یُشْرِكُوْنَ ۟ۙ
اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے.
Os Tafssir em língua árabe:
 
Tradução dos significados Surah: Al-Muminun
Índice de capítulos Número de página
 
Tradução dos significados do Nobre Qur’an. - Tradução em Urdu - Muhammad Gunakry - Índice de tradução

Tradução por Muhammad Ibrahim Gunakry. Desenvolvido sob a supervisão do Centro de Mestres em Tradução. A tradução original está disponível para sugestões e avaliação contínua.

Fechar