Check out the new design

Tradução dos significados do Nobre Qur’an. - Tradução em Urdu - Muhammad Gunakry * - Índice de tradução

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Tradução dos significados Surah: Al-Ahzab   Versículo:
یَسْـَٔلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ ؕ— قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ ؕ— وَمَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِیْبًا ۟
لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیئے! کہ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے، آپ کو کیا خبر بہت ممکن ہے قیامت بالکل ہی قریب ہو.
Os Tafssir em língua árabe:
اِنَّ اللّٰهَ لَعَنَ الْكٰفِرِیْنَ وَاَعَدَّ لَهُمْ سَعِیْرًا ۟ۙ
اللہ تعالیٰ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے.
Os Tafssir em língua árabe:
خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا ۚ— لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا ۟ۚ
جس میں وه ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ وه کوئی حامی ومددگار نہ پائیں گے.
Os Tafssir em língua árabe:
یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَاۤ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا ۟
اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے۔ (حسرت وافسوس سے) کہیں گے کہ کاش ہم اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرتے.
Os Tafssir em língua árabe:
وَقَالُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا ۟
اور کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راه راست سے بھٹکا دیا.(1)
(1) یعنی ہم نے تیرے پیغمبروں اور داعیان دین کے بجائے اپنے ان بڑوں اور بزرگوں کی پیروی کی، لیکن آج ہمیں معلوم ہوا کہ انہوں نے ہمیں تیرے پیغمبروں سے دور رکھ کر راہ راست سے بھٹکائے رکھا۔ آباپرستی اور تقلید اکابر آج بھی لوگوں کی گمراہی کا باعث ہے۔ کاش مسلمان آیات الٰہی پر غور کرکے ان پگڈنڈیوں سے نکلیں اور قرآن وحدیث کی صراط مستقیم کو اختیار کرلیں کہ نجات صرف اور صرف اللہ اور رسول کی پیروی میں ہی ہے۔ نہ کہ مشائخ واکابر کی تقلید میں یا آباواجداد کے فرسودہ طریقوں کے اختیار کرنے میں۔
Os Tafssir em língua árabe:
رَبَّنَاۤ اٰتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِیْرًا ۟۠
پروردگار تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت نازل فرما.
Os Tafssir em língua árabe:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا ؕ— وَكَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًا ۟
اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی پس جو بات انہوں نے کہی تھی اللہ نے انہیں اس سے بری فرما دیا(1) ، اور وه اللہ کے نزدیک باعزت تھے.
(1) اس کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) نہایت باحیا تھے، چنانچہ اپنا جسم انہوں نے کبھی لوگوں کے سامنے ننگا نہیں کیا۔ بنی اسرائیل کہنے لگے کہ شاید موسیٰ (عليه السلام) کے جسم میں برص کے داغ یا کوئی اس قسم کی آفت ہے جس کی وجہ سے یہ ہر وقت لباس میں ڈھکا چھپا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) تنہائی میں غسل کرنے لگے، کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیئے، پتھر (اللہ کے حکم سے) کپڑے لے بھاگ کھڑا ہوا۔ حضرت موسی (عليه السلام) اس کے پیچھے پیچھے دوڑے، حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی ایک مجلس میں پہنچ گئے، انہوں نے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو ننگا دیکھا تو ان کے سارے شبہات دور ہوگئے۔ موسیٰ (عليه السلام) نہایت حسین وجمیل اور ہر قسم کے داغ اور عیب سے پاک تھے۔ یوں اللہ تبارک وتعالیٰ نے معجزانہ طور پر پتھر کے ذریعے سے ان کی اس الزام اور شبہے سے براءت کردی جو بنی اسرائیل کی طرف سے ان پر کیا جاتا تھا (صحيح بخاري كتاب الأنبياء) حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے حوالے سے اہل ایمان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تم ہمارے پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) کو بنی اسرائیل کی طرح ایذا مت پہنچاؤ اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کی بابت ایسی بات مت کرو جسے سن کر آپ (صلى الله عليه وسلم) قلق اور اضطراب محسوس کریں، جیسے ایک موقعے پر مال غنیمت کی تقسیم میں ایک شخص نے کہا کہ اس میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیا گیا۔ جب آپ (صلى الله عليه وسلم) تک یہ الفاظ پہنچے تو غضب ناک ہوئے حتیٰ کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”موسیٰ (عليه السلام) پر اللہ کی رحمت ہو، انہیں اس سے کہیں زیادہ ایذا پہنچائی گئی، لیکن انہوں نے صبر کیا“۔ (بخاري كتاب الأنبياء، مسلم، كتاب الزكاة، باب إعطاء المؤلفة قلوبهم على الإسلام..)۔
Os Tafssir em língua árabe:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا ۟ۙ
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو.(1)
(1) یعنی ایسی بات جس میں کجی اور انحراف ہو، نہ دھوکہ اور فریب۔ بلکہ سچ اور حق ہو۔ سَدِيدٌ يَعْنِي تَسْدِيدُ السَّهْمِ سے ہے، یعنی جس طرح تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے تاکہ ٹھیک نشانے پر لگے، اسی طرح تمہاری زبان سےنکلی ہوئی بات اور تمہارا کردار راستی پر مبنی ہو، حق وصداقت سے بال برابر انحراف نہ ہو۔
Os Tafssir em língua árabe:
یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ؕ— وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا ۟
تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناه معاف فرما دے(1) ، اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی.
(1) یہ تقویٰ اور قول سدید کا نتیجہ ہے کہ تمہارے عملوں کی اصلاح ہوگی اور مزید توفیق مرضیات سے نوازے جاؤ گے اور کچھ کمی کوتاہی رہ جائے گی، تو اسے اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔
Os Tafssir em língua árabe:
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ؕ— اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا ۟ۙ
ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اسے اٹھا لیا(1) ، وه بڑا ہی ﻇالم جاہل ہے.(2)
(1) جب اللہ تعالیٰ نے اہل اطاعت کا اجر وثواب اور اہل معصیت کا وبال اور عذاب بیان کردیا تو اب شرعی احکام اور اس کی صعوبت کا تذکرہ فرما رہا ہے۔ امانت سے وہ احکام شرعیہ اور فرائض وواجبات مراد ہیں جن کی ادائیگی پر ثواب اور ان سے اعراض وانکار پر عذاب ہوگا۔ جب یہ تکالیف شرعیہ آسمان وزمین اور پہاڑوں پر پیش کی گئیں تو وہ ان کے اٹھانے سے ڈر گئے۔ لیکن جب انسان پر یہ چیز پیش کی گئی تو وہ اطاعت الٰہی (امانت) کے اجر وثواب اور اس کی فضیلت کو دیکھ کر اس بار گراں کو اٹھانے پر آمادہ ہوگیا۔ احکام شرعیہ کو امانت سے تعبیر کرکے اشارہ فرما دیا کہ ان کی ادائیگی انسانوں پر اسی طرح واجب ہے، جس طرح امانت کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔ پیش کرنے کا مطلب کیا ہے؟ اور آسمان وزمین اور پہاڑوں نے کس طرح اس کا جواب دیا؟ اور انسان نے اسے کس وقت قبول کیا؟ اس کی پوری کیفیت نہ ہم جان سکتے ہیں نہ اسے بیان کرسکتے ہیں۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ نے اپنی ہر مخلوق میں ایک خاص قسم کا احساس وشعور رکھا ہے، گو ہم اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ تو ان کی بات سمجھنے پر قادر ہے، اس نے ضرور اس امانت کو ان پر پیش کیا ہوگا جسے قبول کرنے سے انہوں نے انکار کردیا۔ اور یہ ا نکار انہوں نے سرکشی وبغاوت کی بنا پر نہیں کیا بلکہ اس میں یہ خوف کار فرما تھا کہ اگر ہم اس امانت کے تقاضے پورے نہ کرسکے تو اس کی سخت سزا ہمیں بھگتنی ہوگی۔ انسان چونکہ جلد باز ہے، اس نے عقوبت وتعزیر کے پہلو پر زیادہ غور نہیں کیا اور حصول فضیلت کے شوق میں اس ذمے داری کو قبول کرلیا۔
Os Tafssir em língua árabe:
لِّیُعَذِّبَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِكِیْنَ وَالْمُشْرِكٰتِ وَیَتُوْبَ اللّٰهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ؕ— وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۟۠
(یہ اس لئے) کہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں عورتوں اور مشرک مردوں عورتوں کو سزا دے اور مومن مردوں عورتوں کی توبہ قبول فرمائے(1) ، اور اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے واﻻ اور مہربان ہے.
(1) یعنی یہ بار گراں اٹھا کر اس نے اپنے نفس پر ظلم کا ارتکاب کیا اور اس کے مقتضیات سے اعراض یا اس کی قدر وقیمت سے غفلت کرکے جہالت کا مظاہرہ پیش کیا۔
(2) اس کا تعلق حَمَلَهَا سے ہے یعنی انسان کو اس امانت کا ذمے دار بنانے سے مقصد یہ ہے کہ اہل نفاق واہل شرک کا نفاق وشرک اور اہل ایمان کا ایمان ظاہر ہوجائے اور پھر اس کے مطابق جزا وسزا دی جائے۔
Os Tafssir em língua árabe:
 
Tradução dos significados Surah: Al-Ahzab
Índice de capítulos Número de página
 
Tradução dos significados do Nobre Qur’an. - Tradução em Urdu - Muhammad Gunakry - Índice de tradução

Tradução por Muhammad Ibrahim Gunakry. Desenvolvido sob a supervisão do Centro de Mestres em Tradução. A tradução original está disponível para sugestões e avaliação contínua.

Fechar