Check out the new design

அல்குர்ஆன் மொழிபெயர்ப்பு - உருது மொழிபெயர்ப்பு - முஹம்மது ஜுனாக்கரி * - மொழிபெயர்ப்பு அட்டவணை

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

மொழிபெயர்ப்பு அத்தியாயம்: அர்ரூம்   வசனம்:
وَلَىِٕنْ اَرْسَلْنَا رِیْحًا فَرَاَوْهُ مُصْفَرًّا لَّظَلُّوْا مِنْ بَعْدِهٖ یَكْفُرُوْنَ ۟
اور اگر ہم باد تند چلا دیں اور یہ لوگ انہی کھیتوں کو (مرجھائی ہوئی) زرد پڑی ہوئی دیکھ لیں تو پھر اس کے بعد ناشکری کرنے لگیں.(1)
(1) یعنی ان ہی کھیتوں کو، جن کو ہم بارش کے ذریعے سے شاداب کیا تھا، اگر سخت (گرم یا ٹھنڈی) ہوائیں چلا کر ان ہریالی کو زردی میں بدلدیں۔ یعنی تیار فصل کو تباہ کر دیں تو یہی بارش سےخوش ہونے والے اللہ کی ناشکری پر اتر آئیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو نہ ماننے والے صبر اور حوصلے سےبھی محروم ہوتے ہیں۔ ذرا سی بات پر مارے خوشی کے پھولے نہیں سماتے اور ذرا سی ابتلا پر فوراً ناامید اور گریہ کناں ہو جاتے ہیں۔ اہل ایمان کا معاملہ دونوں حالتوں میں ان سے مختلف ہوتا ہے جیسا کہ تفصیل گزر چکی ہے۔
அரபு விரிவுரைகள்:
فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ ۟
بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے(1) اور نہ بہروں کو (اپنی) آواز سنا سکتے ہیں(2) جب کہ وه پیٹھ پھیر کر مڑ گئے ہوں.(3)
(1) یعنی جس طرح مردے فہم وشعور سے عاری ہوتے ہیں، اسی طرح یہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی دعوت کو سمجھنے اور اسےقبول کرنے سے قاصر ہیں۔
(2) یعنی آپ (صلى الله عليه وسلم) کا وعظ ونصیحت ان کے لئے بےاثر ہے جس طرح کوئی بہرہ ہو، اسے تم اپنی بات نہیں سنا سکتے۔
(3) یہ ان کے اعراض وانحراف کی مزید وضاحت ہے کہ مردہ اور بہرہ ہونے کے ساتھ وہ پیٹھ پھیر کر جانے والے ہیں، حق کی بات ان کے کانوں میں کس طرح پڑ سکتی اور کیوں کر ان کے دل ودماغ میں سما سکتی ہے؟
அரபு விரிவுரைகள்:
وَمَاۤ اَنْتَ بِهٰدِ الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ ؕ— اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۟۠
اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے ہدایت کرنے والے(1) ہیں آپ تو صرف ان ہی لوگوں کو سناتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے(2) ہیں پس وہی اطاعت کرنے والے ہیں.(3)
(1) اس لئے کہ یہ آنکھوں سے کما حقہ فائدہ اٹھانے سے یابصیرت (دل کی بینائی) سے محروم ہیں۔ یہ گمراہی کی جس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، اس سے کس طرح نکلیں؟
(2) یعنی یہی سن کر ایمان لانے والے ہیں، اس لئے کہ اہل تفکر وتدبر ہیں اور آثار قدرت سے موثر حقیقی کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں۔
(3) یعنی حق کے آگے سر تسلیم خم کر دینے والے اور اس کے پیروکار۔
அரபு விரிவுரைகள்:
اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُؔعْفًا وَّشَیْبَةً ؕ— یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ ۚ— وَهُوَ الْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ ۟
اللہ تعالیٰ وه ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت(1) میں پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد توانائی(2) دی، پھر اس توانائی کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا(3) جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے(4)، وه سب سے پورا واقف اور سب پر پورا قادر ہے.
(1) یہاں سے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا ایک اور کمال بیان فرما رہا ہے اور وہ ہے مختلف اطوار سےانسان کی تخلیق۔ ضعف (کمزوری کی حالت) سےمراد نطفہ یعنی قطرۂ آب ہے یا عالم طفولیت۔
(2) یعنی جوانی، جس میں قوائے عقلی وجسمانی تکمیل ہو جاتی ہے۔
(3) کمزوری سے مراد کہولت کی عمر ہے جس میں عقلی وجسمانی قوتوں میں نقصان کا آغاز ہو جاتا ہے اور بڑھاپے سے مراد شیخوخت کا وہ دور ہے جس میں ضعف بڑھ جاتا ہے۔ ہمت پست، ہاتھ پیروں کی حرکت وگرفت کمزور،بال سفید اور تمام ظاہری وباطنی صفات متغیر ہو جاتی ہیں۔ قرآن نے انسان کے یہ چار بڑےاطوار بیان کیے ہیں،بعض علما نے دیگر چھوٹے چھوٹے اطوار بھی شمار کر کے انہیں قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے جو قرآن کےاجمال کی توضیح اور اس کے اعجاز بیان کی شرح ہے مثلاً امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ انسان یکے بعد دیگرے ان حالات واطوار سےگزرتا ہے۔ اس کی اصل مٹی ہے۔ یعنی اس کے باپ آدم (عليه السلام) کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی۔ یا انسان جو کچھ کھاتا ہے، جس سے وہ منی پیدا ہوتی ہے جو رحم مادر میں جاکر اس کے وجود وتخلیق کا باعث بنتی ہے، وہ سب مٹی ہی کی پیداوار ہے پھر وہ نطفہ، نطفہ سے علقہ، پھر مضغہ، پھر ہڈیاں، جنہیں گوشت کا لباس پہنایا جاتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ پھر ماں کے پیٹ سے اس حال میں نکلتا ہے کہ نحیف ونزار اور نہایت نرم ونازک ہوتا ہے۔ پھر بتدریج نشوونما پاتا، بچپن، بلوغت اور جوانی کو پہنچتا ہے اور پھر بتدریج رجعت قہقریٰ کا عمل شروع ہو جاتا ہے، کہولت، شیخوخت اور پھر کبر سنی (بڑھاپا) تا آنکہ موت اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔
(4) انہی اشیاء میں ضعف وقوت بھی ہے۔ جس سے انسان گزرتا ہے جیسا کہ ابھی تفصیل بیان ہوئی ہے۔
அரபு விரிவுரைகள்:
وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ۙ۬— مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَةٍ ؕ— كَذٰلِكَ كَانُوْا یُؤْفَكُوْنَ ۟
اور جس دن قیامت(1) برپا ہو جائے گی گناه گار لوگ قسمیں کھائیں گے کہ (دنیا میں) ایک گھڑی(2) کے سوا نہیں ٹھہرے، اسی طرح یہ بہکے ہوئے ہی رہے.(3)
(1) ساعت کے معنی ہیں، گھڑی، لمحہ، مراد قیامت ہے، اس کو ساعت اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کا وقوع جب اللہ چاہے گا، ایک گھڑی میں ہو جائے گا۔ یا اس لئے کہ یہ اس گھڑی میں ہوگی جب دنیا کی آخری گھڑی ہوگی۔
(2) دنیا میں یاقبروں میں۔ یہ اپنی عادت کے مطابق جھوٹی قسم کھائیں گے، اس لئے کہ دنیا میں وہ جتنا عرصہ رہے ہوں گے، ان کے علم میں ہی ہوگا اور اگر مراد قبر کی زندگی ہے تو ان کا حلف جہالت پر ہوگا کیونکہ وہ قبر کی مدت نہیں جانتے ہوں گے۔ بعض کہتے ہیں کہ آخرت کے شدائد اور ہولناک احوال کے مقابلے میں دنیا کی زندگی انہیں گھڑی کی طرح ہی لگے گی۔
(3) أَفَكَ الرَّجُلُ کے معنی ہیں۔ سچ سے پھر گیا، مطلب یہ ہوگا، اسی پھرنے کے مثل وہ دنیا میں پھرتے رہے یا بہکے رہے۔
அரபு விரிவுரைகள்:
وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَالْاِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ اِلٰى یَوْمِ الْبَعْثِ ؗ— فَهٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰكِنَّكُمْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ۟
اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا وه جواب دیں گے(1) کہ تم تو جیسا کہ کتاب اللہ میں(2) ہے یوم قیامت تک ٹھہرے رہے(3)۔ آج کا یہ دن قیامت ہی کا دن ہے لیکن تم تو یقین ہی نہیں مانتے تھے.(4)
(1) جس طرح یہ علما دنیا میں بھی سمجھاتے رہے تھے۔
(2) كِتَابِ اللهِ سے مراد اللہ کا علم اور اس کا فیصلہ ہے یعنی لوح محفوظ۔
(3) یعنی پیدائش کے دن سے قیامت کے دن تک۔
(4) کہ وہ آئے گی بلکہ استہزا اور تکذیب کےطور پر اس کا تم مطالبہ کرتے تھے۔
அரபு விரிவுரைகள்:
فَیَوْمَىِٕذٍ لَّا یَنْفَعُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ ۟
پس اس دن ﻇالموں کو ان کا عذر بہانہ کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان سے توبہ اور عمل طلب کیا جائے گا.(1)
(1) یعنی انہیں دنیا میں بھیج کر یہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہاں توبہ واطاعت کے ذریعے سےعتاب الٰہی کا ازالہ کرلو۔
அரபு விரிவுரைகள்:
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ ؕ— وَلَىِٕنْ جِئْتَهُمْ بِاٰیَةٍ لَّیَقُوْلَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُبْطِلُوْنَ ۟
بیشک ہم نےاس قرآن میں لوگوں کے سامنے کل مثالیں بیان کر دی ہیں(1) ۔ آپ ان کے پاس کوئی بھی نشانی ﻻئیں(2)، یہ کافر تو یہی کہیں گے کہ تم (بے ہوده گو) بالکل جھوٹے ہو.(3)
(1) جن سے اللہ کی توحید کا اثبات اور رسولوں کی صداقت واضح ہوتی ہےاور اسی طرح شرک کی تردید اور اس کا بطلان نمایاں ہوتا ہے۔
(2) وہ قرآن کریم کی پیش کردہ کوئی دلیل ہو یا ان کی خواہش کے مطابق کوئی معجزہ وغیرہ۔
(3) یعنی ان کی مخالفت وعناد اور ان کی تکلیف دہ باتوں پر، اس لئے کہ اللہ نے آپ سے مدد کا جو وعدہ کیا ہے، وہ یقیناً حق ہے جو بہر صورت پورا ہوگا۔
அரபு விரிவுரைகள்:
كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ۟
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں پر جو سمجھ نہیں رکھتے یوں ہی مہر کر دیتا ہے.
அரபு விரிவுரைகள்:
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّلَا یَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِیْنَ لَا یُوْقِنُوْنَ ۟۠
پس آپ صبر کریں(1) یقیناً اللہ کا وعده سچا ہے۔ آپ کو وه لوگ ہلکا (بے صبرا) نہ کریں جویقین نہیں رکھتے.
(1) یعنی جادو وغیرہ کے پیرو کار۔ مطلب یہ ہے کہ بڑی سے بڑی نشانی اور واضح سےواضح دلیل بھی اگر وہ دیکھ لیں، تب بھی ایمان بہرحال نہیں لائیں گے، کیوں؟ اس کی وجہ آگے بیان کر دی گئی ہے کہ اللہ نے ان کےدلوں پر مہر لگا دی ہے جو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ان کا کفر وطغیان اس آخری حد کو پہنچ گیا ہے جس کے بعد حق کی طرف واپسی کےتمام راستے ان کے لئے مسدود ہیں۔
(2) یعنی آپ کو غضب ناک کرکےصبر وعلم ترک کرنے یا مداہنت پر مجبور نہ کر دیں بلکہ آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور اس سے سرمو انحراف نہ کریں۔
அரபு விரிவுரைகள்:
 
மொழிபெயர்ப்பு அத்தியாயம்: அர்ரூம்
அத்தியாயங்களின் அட்டவணை பக்க எண்
 
அல்குர்ஆன் மொழிபெயர்ப்பு - உருது மொழிபெயர்ப்பு - முஹம்மது ஜுனாக்கரி - மொழிபெயர்ப்பு அட்டவணை

முகமது இப்ராஹிம் ஜூனாக்ரி மொழிபெயர்த்தார். மொழிபெயர்ப்பு முன்னோடிகள் மையத்தின் கண்காணிப்பில் உருவாக்கப்பட்டது. தொடர் மேம்படுத்தல் நோக்கில்மதிப்பீடு செய்திடவும், கருத்துத் தெரிவிக்கவும் பிரதான மொழிபெயர்ப்பை பார்க்க அனுமதி வழங்கப்படும்.

மூடுக