Check out the new design

పవిత్ర ఖురాన్ యొక్క భావార్థాల అనువాదం - ఉర్దూ అనువాదం - ముహమ్మద్ జూనాగడి * - అనువాదాల విషయసూచిక

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

భావార్ధాల అనువాదం సూరహ్: అల్-ఫుర్ఖాన్   వచనం:
اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ ؕ— اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا ۟۠
کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں۔ وه تو نرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیاده بھٹکے ہوئے.(1)
(1) یعنی یہ چوپائے جس مقصد کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، اسے وہ سمجھتے ہیں۔ لیکن انسان، جسے صرف ایک اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کیاگیاتھا، وہ رسولوں کی یاد دہانی کے باوجود اللہ کے ساتھ شرک کاارﺗکاب کرتا اور دردر پر اپنا ماتھا ٹیکتا پھرتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ یقیناً چوپائے سے بھی زیادہ بد تر اور گمراہ ہے۔
అరబీ భాషలోని ఖుర్ఆన్ వ్యాఖ్యానాలు:
اَلَمْ تَرَ اِلٰی رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ ۚ— وَلَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا ۚ— ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًا ۟ۙ
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے سائے کو کس طرح پھیلا دیا ہے(1) ؟ اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا ہی کر دیتا(2)۔ پھر ہم نے آفتاب کو اس پر دلیل بنایا.(3)
(1) یہاں سے پھر توحید کے دلائل کا آغاز ہو رہا ہے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے کائنات میں کس طرح سایہ پھیلایا ہے، جو صبح صادق کے بعد سے سورج کے طلوع ہونے تک رہتا ہے۔ یعنی اس وقت دھوپ نہیں ہوتی، دھوپ کے ساتھ یہ سمٹنا اور سکڑنا شروع ہو جاتا ہے۔
(2) یعنی ہمیشہ سایہ ہی رہتا ،سورج کی دھوپ سائے کوختم ہی نہ کرتی۔
(3) یعنی دھوپ سے ہی سائے کا پتہ چلتا ہے کہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اگر سورج نہ ہوتا، تو سائے سے بھی لوگ متعارف نہ ہوتے۔
అరబీ భాషలోని ఖుర్ఆన్ వ్యాఖ్యానాలు:
ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا ۟
پھر ہم نے اسے آہستہ آہستہ اپنی طرف کھینچ لیا.(1)
(1) یعنی وہ سایہ آہستہ آہستہ ہم اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اس کی جگہ رات کا گمبھیر اندھیرا چھا جاتا ہے۔
అరబీ భాషలోని ఖుర్ఆన్ వ్యాఖ్యానాలు:
وَهُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِبَاسًا وَّالنَّوْمَ سُبَاتًا وَّجَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا ۟
اور وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے پرده بنایا(1) ۔ اور نیند کو راحت بنائی(2)۔ اور دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت.(3)
(1) یعنی لباس، جس طرح لباس انسانی دھانچے کو چھپالیتا ہے، اسی طرح رات تمہیں اپنی تاریکی میں چھپالیتی ہے۔
(2) سبات کے معنی کاٹنےکے ہوتے ہیں۔ نیند انسان کے جسم کو عمل سے کاﭦ دیتی ہے، جس سےاس کو راحت میسر آتی ہے۔ بعض کےنزدیک سبات کے معنی تمدد پھیلنے کے ہیں۔ نیند میں بھی انسان دراز ہو جاتا ہے، اس لیے اسے سبات کہا (ایسرالتفاسیرو فتح القدیر)۔
(3) یعنی نیند، جو موت کی بہن ہے، دن کو انسان اس نیند سے بیدار ہو کر کاروبار اور تجارت کے لیےپھراٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) صبح بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے۔ «الْحَمْدِ للهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَمَا أَمَاتَنَا وَإِلَيهِ النُّشُورُ» (رواه البخاري- مشكاة، كتاب الدعوات) ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اکٹھے ہونا ہے“۔
అరబీ భాషలోని ఖుర్ఆన్ వ్యాఖ్యానాలు:
وَهُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًاۢ بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ ۚ— وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًا ۟ۙ
اور وہی ہے جو باران رحمت سے پہلے خوش خبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے اور ہم آسمان سے پاک پانی برساتے ہیں.(1)
(1) طَهُورٌ (بِفَتْحِ الطَّاءِ) فعول کے وزن پر آلے کے معنی میں ہے یعنی ایسی چیز جس سے پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے۔ جیسے وضو کے پانی کو وضو اورایندھن کو وقود کہا جاتا ہے، اس معنی میں پانی طاہر (خود بھی پاک) اور مطہر (دوسروں کو پاک کرنے والا) بھی ہے۔ حدیث میں بھی ہے «إِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ لا يُنَجِّسُه شَيْءٌ» (أبو داود والترمذي ـ نمبر 66 النسائي و ابن ماجه وصححه الألباني في السنن) ”پانی پاک ہے، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی“ ہاں اگر اس کا رنگ یابو یاذائقہ بدل جائے تو ایسا پانی ناپاک ہے۔ كَمَا فِي الحَدِيثِ۔
అరబీ భాషలోని ఖుర్ఆన్ వ్యాఖ్యానాలు:
لِّنُحْیِ بِهٖ بَلْدَةً مَّیْتًا وَّنُسْقِیَهٗ مِمَّا خَلَقْنَاۤ اَنْعَامًا وَّاَنَاسِیَّ كَثِیْرًا ۟
تاکہ اس کے ذریعے سے مرده شہر کو زنده کردیں اوراسے ہم اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چوپایوں اور انسانوں کو پلاتے ہیں.
అరబీ భాషలోని ఖుర్ఆన్ వ్యాఖ్యానాలు:
وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ لِیَذَّكَّرُوْا ۖؗ— فَاَبٰۤی اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا ۟
اور بے شک ہم نے اسےان کے درمیان طرح طرح سے بیان کیا تاکہ(1) وه نصیحت حاصل کریں، مگر پھر بھی اکثر لوگوں نے سوائے ناشکری کے مانا نہیں.(2)
(1) یعنی قرآن کریم کو۔ اور بعض نے صَرَّفْنَاه ُ ہ میں ھا کا مرجع بارش قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ بارش کو ہم پھیر پھیر کر برساتے ہیں یعنی کبھی ایک علاقے میں، کبھی دوسرے علاقے میں۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی ایک ہی شہر کے ایک حصے میں بارش ہوتی ہے، دوسروں میں نہیں ہوتی اور کبھی دوسرے حصوں میں ہوتی ہے، پہلے حصے میں نہیں ہوتی یہ اللہ کی حکمت و مشیت ہے، وہ جس طرح چاہتا ہے، کہیں بارش برساتا ہے اور کہیں نہیں اور کبھی کسی علاقے میں اور کبھی کسی اور علاقے میں۔
(2) اور ایک کفر اور ناشکری یہ بھی ہے کہ بارش کو مشیت الٰہی کی بجائے ستاروں کی گردش کا نتیجہ قرار دیا جائے، جیسا کہ اہل جاہلیت کہا کرتے تھے۔ کما فی الحدیث۔
అరబీ భాషలోని ఖుర్ఆన్ వ్యాఖ్యానాలు:
وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ نَّذِیْرًا ۟ؗۖ
اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ایک ڈرانے واﻻ بھیج(1) دیتے. @సరిదిద్దబడింది
اگر ہم چاہتے تو ہر ہر بستی میں ایک ایک ڈرانے واﻻ بھیج دیتے
(1) لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور صرف آپ کو ہی تمام بستیوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے نذیر بنا کر بھیجا ہے۔
అరబీ భాషలోని ఖుర్ఆన్ వ్యాఖ్యానాలు:
فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَجَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِیْرًا ۟
پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعے ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں.(1)
(1) جَاهِدْهُمْ بِهِ میں ”ھا“ کا مرجع قرآن ہے یعنی اس قرآن کے ذریعے سے جہاد کریں، یہ آیت مکی ہے، ابھی جہاد کا حکم نہیں ملا تھا۔ اس لیے مطلب یہ ہوا کہ قرآن کے اوامرونواہی کھول کھول کر بیان کریں اور اہل کفر کے لیے جو زجر وتوبیخ اور وعیدیں ہیں، وہ واضح کریں۔
అరబీ భాషలోని ఖుర్ఆన్ వ్యాఖ్యానాలు:
وَهُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّهٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ۚ— وَجَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا ۟
اور وہی ہے جس نے دو سمندر آپس میں ملا رکھے ہیں، یہ ہے میٹھا اور مزیدار اور یہ ہے کھاری کڑوا(1) ، اور ان دونوں کے درمیان ایک حجاب اور مضبوط اوٹ کردی.(1)
(1) آب شیریں کو فُرَاتٌ کہتے ہیں، فرات کے معنی ہیں کاﭦ دینا، توڑ دینا، میٹھا پانی پیاس کو کاٹ دیتا ہے یعنی ختم کردیتا ہے۔ أُجَاجٌ سخت کھاری یا کڑوا۔
(2) جوایک دوسرے سےملنے نہیں دیتی۔ بعض نے حِجْرًا مَحْجُورًا کےمعنی کیے ہیں حَرَامًا مُحَرَّمًا ، ان پر حرام کردیاگیا ہےکہ میٹھا پانی کھاری یا کھاری پانی میٹھا ہوجائے۔ اوربعض مفسرین نے مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ کا ترجمہ کیا ہے، خَلَقَ الْمَاءَيْنِ، دوپانی پیدا کیے، ایک میٹھا اور دوسرا کھاری۔ میٹھا پانی تو وہ ہے جو نہروں،چشموں اور کنوؤں کی شکل میں آبادیوں کے درمیان پایا جاتا ہے جس کو انسان اپنی ضروریات کے لیے استعمال کرتا ہے اور کھاری پانی وہ ہے جو مشرق و مغرب میں پھیلے ہوئے بڑے بڑے سمندروں میں ہے، جو کہتے ہیں کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ ہیں اورایک چوتھائی حصہ خشکی کا ہے جس میں انسانوں اور حیوانوں کا بسیرا ہے۔ یہ سمندر ساکن ہیں۔ البتہ ان میں مدوجزر ہوتا رہتا اور موجوں کا تلاطم جاری رہتا ہے۔ سمندری پانی کے کھاری رکھنے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمت ہے۔ میٹھا پانی زیادہ دیر تک کہیں ٹھہرا رہے تو وہ خراب ہو جاتا ہے، اس کے ذائقے، رنگ یا بو میں تبدیلی آجاتی ہے۔ کھاری پانی خراب نہیں ہوتا، نہ اس کا ذائقہ بدلتا ہے نہ رنگ اور بو۔ اگر ان ساکن سمندروں کا پانی بھی میٹھا ہوتا، تو اس میں بدبو پیدا ہوجاتی، جس سے انسانوں اورحیوانوں کاﺯمیﻦ میں رہنا مشکل ہو جاتا۔ اس میں مرنے والے جانوروں کی سڑاند اس پر مستزاد۔ اللہ کی حکمت تو یہ ہے کہ ہزاروں برس سے یہ سمندر موجود ہیں اور ان میں ہزاروں جانور مرتے ہیں اور انہی میں گل سڑجاتے ہیں۔ لیکن اللہ نے ان میں ملاحت (نمکیات) کی اتنی مقدار رکھ دی ہے کہ وہ اس کے پانی میں ذرا بھی بدبو پیدا نہیں ہونے دیتی۔ ان سے اٹھنے والی ہوائیں بھی صحیح ہیں اور ان کا پانی بھی پاک ہے حتیٰ کہ ان کا مردار بھی حلال ہے۔ کما فی الحدیث۔ (موطأ إمام مالك، ابن ماجه، أبو داود ، الترمذي ، كتاب الطهارة ، النسائي ، كتاب المياه) تفسير ابن كثير۔
అరబీ భాషలోని ఖుర్ఆన్ వ్యాఖ్యానాలు:
وَهُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّصِهْرًا ؕ— وَكَانَ رَبُّكَ قَدِیْرًا ۟
وه ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب واﻻ اور سسرالی رشتوں واﻻ کردیا(1) ۔ بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے.
(1) نسب سےمراد وہ رشتے داریاں ہیں جو باپ یا ماں کی طرف سے ہوں اورصھر سے مراد وہ قرابت مندی ہے جو شادی کے بعد بیوی کی طرف سے ہو، جس کو ہماری زبان میں سسرالی رشتے کہا جاتا ہے۔ ان دونوں رشتے داریوں کی تفصیل آیت حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ (النساء۔ 23) اور«وَلا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ» (النساء ۔ 23) میں بیان کردی گئی ہے۔ اور رضاعی رشتے داریاں حدیث کی رو سے نسبی رشتوں میں شامل ہے۔ جیسا کہ فرمایا «يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاِع مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ»(البخاري ـ نمبر 2645 - ومسلم، نمبر 1070)۔
అరబీ భాషలోని ఖుర్ఆన్ వ్యాఖ్యానాలు:
وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُهُمْ وَلَا یَضُرُّهُمْ ؕ— وَكَانَ الْكَافِرُ عَلٰی رَبِّهٖ ظَهِیْرًا ۟
یہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ تو انہیں کوئی نفع دے سکیں نہ کوئی نقصان پہنچاسکیں، اور کافر تو ہے ہی اپنے رب کے خلاف (شیطان کی) مدد کرنے واﻻ.
అరబీ భాషలోని ఖుర్ఆన్ వ్యాఖ్యానాలు:
 
భావార్ధాల అనువాదం సూరహ్: అల్-ఫుర్ఖాన్
సూరాల విషయసూచిక పేజీ నెంబరు
 
పవిత్ర ఖురాన్ యొక్క భావార్థాల అనువాదం - ఉర్దూ అనువాదం - ముహమ్మద్ జూనాగడి - అనువాదాల విషయసూచిక

దీనిని మహ్మద్ ఇబ్రాహీం జునాకరి అనువదించారు. ఇది రువాద్ అనువాద కేంద్రం యొక్క పర్యవేక్షణలో అభివృద్ధి పరచబడింది. మరియు పాఠకులు తమ అభిప్రాయాలను తెలియజేయడానికి మూలఅనువాదాన్ని పొందుపరచబడుతుంది. మరియు నిరంతరాయంగా అభివృద్ధి మరియు అప్డేట్ కార్యక్రమం కొనసాగుతుంది.

మూసివేయటం