Check out the new design

قرآن کریم کے معانی کا ترجمہ - اردو ترجمہ - محمد جوناگڑھی * - ترجمے کی لسٹ

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

معانی کا ترجمہ سورت: رعد   آیت:
اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰی ؕ— اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ ۟ۙ
کیا وه ایک شخص جو یہ علم رکھتا ہو کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اتارا گیا ہے وه حق ہے، اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو(1) نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہوں.(2)
(1) یعنی ایک وہ شخص جو قرآن کی حقانیت و صداقت پر یقین رکھتا ہو اور دوسرا اندھا ہو یعنی اسے قرآن کی صداقت میں شک ہوگیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ استفہام انکار کے لیے ہے یعنی یہ دونوں اسی طرح برابر نہیں ہو سکتے جس طرح جھاگ اور پانی یا سونا تانبا اور اس کی میل کچیل برابر نہیں ہو سکتے۔
(2) یعنی جن کے پاس قلب سلیم اور عقل صحیح نہ ہو اور جنہوں نے اپنے دلوں کو گناہوں کے زنگ سے آلودہ اور اپنی عقلوں کو خراب کر لیا ہو، وہ اس قرآن سے نصیحت حاصل نہیں کر سکتے۔
عربی تفاسیر:
الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَلَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَ ۟ۙ
جو اللہ کے عہد (وپیمان) کو پورا کرتے ہیں (1) اور قول وقرار کو توڑتے نہیں.(2)
(1) یہ اہل دانش کی صفات بیان کی جا رہی ہیں، اللہ کے عہد سے مراد، اس کے احکام (اوامر و نواہی) ہیں جنہیں بجا لاتے ہیں۔ یا وہ عہد ہے، جو عَھْدِ الَسْت کہلاتا ہے، جس کی تفصیل سورہ اعراف میں گزر چکی ہے۔
(2) اس سے مراد وہ باہمی معاہدے اور وعدے ہیں جو وہ آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں یا وہ جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہیں۔
عربی تفاسیر:
وَالَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَیَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَیَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِ ۟ؕ
اور اللہ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے وه اسے جوڑتے ہیں(1) اور وه اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہیں.
(1) یعنی رشتوں اور قرابتوں کو توڑتے نہیں ہیں، بلکہ ان کو جوڑتے اور صلہ رحمی کرتے ہیں۔
عربی تفاسیر:
وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَةً وَّیَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عُقْبَی الدَّارِ ۟ۙ
اور وه اپنے رب کی رضا مندی کی طلب کے لئے صبر کرتے ہیں(1) ، اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں (2)اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں(3) اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں، ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے.(4)
(1) اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے بچتے ہیں۔ یہ صبر کی ایک قسم ہے۔ تکلیفوں اور آزمائشوں پر صبر کرتے ہیں، یہ دوسری قسم ہے۔ اہل دانش دونوں قسم کا صبر کرتے ہیں۔
(2) ان کی حدود و مواقیت، خشوع و خضوع اور اعتدال ارکان کے ساتھ۔ نہ کہ اپنے من مانے طریقے سے۔
(3) یعنی جہاں جہاں اور جب بھی، خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے، اپنوں اور بیگانوں میں اور خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔
(4) یعنی ان کے ساتھ کوئی برائی سے پیش آتا ہے تو وہ اس کا جواب اچھائی سے دیتے ہیں، یا عفو و درگزر اور صبر جمیل سے کام لیتے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے فرمایا :«اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ» (حم السجدۃ:34) ”برائی کا جواب ایسے طریقے سے دو جو اچھا ہو (اگر تم ایسا کرو گے) تو وہ شخص جو تمہارا دشمن ہے، ایسا ہو جائے گا گویا وہ تمہارا گہرا دوست ہے“۔
(5) یعنی جو اعلٰی اخلاق کے حامل اور مزکورہ خوبیوں سے متصف ہوں گے، ان کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔
عربی تفاسیر:
جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآىِٕهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّیّٰتِهِمْ وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ ۟ۚ
ہمیشہ رہنے کے باغات(1) جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اوﻻدوں میں سے بھی جو نیکو کار ہوں گے(2)، ان کے پاس فرشتے ہر ہر دروازے سے آئیں گے.
(1) عدن کے معنی ہیں اقامت۔ یعنی ہمیشہ رہنے والے باغات۔
(2) یعنی اس طرح نیک قرابت داروں کو آپس میں جمع کر دے گا تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں حتٰی کہ ادنٰی درجے کے جنتی کو اعلٰی درجہ عطا فرما دے گا تاکہ وہ اپنے قرابت دار کے ساتھ جمع ہو جائے۔ فرمایا :
«وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ» (الطور:21) ”اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی تو ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ان کی اولاد کو اور ان کے عملوں سے ہم کچھ گھٹائیں گے نہیں“۔ اس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ نیک رشتے داروں کو اللہ تعالٰی جنت میں جمع فرما دے گا، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی کے پاس ایمان اور عمل صالح کی پونجی نہیں ہوگی، تو وہ جنت میں نہیں جائے گا، چاہے اس کے دوسرے نہایت قریبی رشتے دار جنت میں چلے گئے ہوں۔ کیونکہ جنت میں داخلہ حسب نسب کی بنیاد پر نہیں، ایمان و عمل کی بنیاد پر ہوگا۔«مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ»، (صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء، باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن)۔ جسے اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھائے گا۔
عربی تفاسیر:
سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ۟ؕ
کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو، صبر کے بدلے، کیا ہی اچھا (بدلہ) ہے اس دار آخرت کا.
عربی تفاسیر:
وَالَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ۙ— اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ ۟
اور جو اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جن چیزوں کےجوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں توڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، ان کے لئے لعنتیں ہیں اور ان کے لئے برا گھر ہے.(1)
(1) یہ نیکوں کے ساتھ بروں کا حشر بیان فرما دیا تاکہ انسان اس حشر سے بچنے کی کوشش کرے۔
عربی تفاسیر:
اَللّٰهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیَقْدِرُ ؕ— وَفَرِحُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ؕ— وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا مَتَاعٌ ۟۠
اللہ تعالیٰ جس کی روزی چاہتا ہے بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے(1) یہ تو دنیا کی زندگی میں مست ہو گئے(2)۔ حاﻻنکہ دنیا آخرت کے مقابلے میں نہایت (حقیر) پونجی ہے.(3)
(1) جب کافروں اور مشرکوں کے لئے یہ کہا کہ ان کے لئے برا گھر ہے، تو ذہن میں یہ اشکال آ سکتا ہے کہ دنیا میں تو انہیں ہر طرح کی آسائشیں اور سہولتیں مہیا ہیں۔ اس کے ازالے کے لئے فرمایا کہ دنیاوی اسباب اور رزق کی کمی بیشی یہ اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت، جس کو صرف وہی جانتا ہے، کے مطابق کسی کو زیادہ دیتا ہے کسی کو کم رزق کی فروانی، اس بات کی دلیل؛ نہیں کہ اللہ تعالٰی اس سے خوش ہے اور کمی کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالٰی اس پر ناراض ہے۔
(2) کسی کو اگر دنیا کا مال زیادہ مل رہا ہے، باوجودیکہ وہ اللہ کا نافرمان ہے تو یہ مقام فرحت و مسرت نہیں، کیونکہ یہ استدراج ہے، مہلت ہے پتہ نہیں کب یہ مہلت ختم ہو جائے اور اللہ کی پکڑ کے شکنجے میں آجائے۔
(3) حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کی حیثیت، آخرت کے مقابلے میں اس طرح ہے جیسے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر نکالے، تو دیکھے سمندر کے پانی کے مقابلے میں اس کی انگلی میں کتنا پانی آیا ہے؟ (صحيح مسلم، كتاب الجنة ، باب فناء الدنيا وبيان الحسر يوم القيامة) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کا گزر بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے ہوا، تو اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا، اللہ کی قسم دنیا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر ہے جتنا یہ مردہ، اپنے مالکوں کے نزدیک اس وقت حقیر تھا جب انہوں نے اسے پھینکا (صحيح مسلم، كتاب الزهد والرقاق)
عربی تفاسیر:
وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْلَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ؕ— قُلْ اِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَیَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ اَنَابَ ۟ۖۚ
کافر کہتے ہیں کہ اس پر کوئی نشانی (معجزه) کیوں نازل نہیں کیا گیا؟ جواب دے دیجئے کہ جسے اللہ گمراه کرنا چاہے کر دیتا ہے اور جو اس کی طرف جھکے اسے راستہ دکھا دیتا ہے.
عربی تفاسیر:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ؕ— اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ ۟ؕ
جو لوگ ایمان ﻻئے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے.(1)
(1) اللہ کا ذکر سے مراد، اس کی توحید کا بیان ہے، جس سے مشرکوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا ہو جاتا ہے، یا اس کی عبادت، تلاوت قرآن، نوافل اور دعا و مناجات ہے جو اہل ایمان کے دلوں کی خوراک ہے یا اس کے احکام و فرامین کی اطاعت و بجا آوری ہے، جس کے بغیر اہل ایمان و تقویٰ بےقرار رہتے ہیں۔
عربی تفاسیر:
 
معانی کا ترجمہ سورت: رعد
سورتوں کی لسٹ صفحہ نمبر
 
قرآن کریم کے معانی کا ترجمہ - اردو ترجمہ - محمد جوناگڑھی - ترجمے کی لسٹ

محمد ابراہیم جوناگڑھی نے ترجمہ کیا۔ مرکز رواد الترجمہ کے زیر اشراف اسے اپڈیٹ کیا گیا ہے اور اصلی ترجمہ مطالعہ کے لیے فراہم کیا جا رہا ہے تاکہ قارئین کی رائے لی جائے اور مسلسل اپڈیٹ اور اصلاح کا کام جاری رہے۔

بند کریں