Check out the new design

قرآن کریم کے معانی کا ترجمہ - اردو ترجمہ - محمد جوناگڑھی * - ترجمے کی لسٹ

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

معانی کا ترجمہ سورت: بقرہ   آیت:
وَاِنْ كُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ ؕ— فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ وَلْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ ؕ— وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ؕ— وَمَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ ؕ— وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ ۟۠
اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے واﻻ نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو(1) ، ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جسے امانت دی گئی ہے وه اسے ادا کردے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے(2)۔ اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وه گنہگار دل واﻻ ہے(3) اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔
(1) اگر سفر میں قرض کا معاملہ کرنے کی ضرورت پیش آجائے اور وہاں لکھنے والا یا کاغذ پنسل وغیرہ نہ ملے تو اس کی متبادل صورت بتلائی جا رہی ہے کہ قرض لینے والا کوئی چیز دائن (قرض دینے والے) کے پاس رہن (گروی) رکھ دے۔ اس سے گروی کی مشروعیت اور اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی۔ (صحیحین) تاہم اگرمَرْهُونَةٌ (گروی رکھی ہوئی چیز) ایسی ہے جس سے نفع موصول ہوتا ہے تو اس نفع کا حق دار مالک ہوگا نہ کہ دائن۔ البتہ اس پر دائن کا اگر کچھ خرچ ہوتا ہے تو اس سے وہ اپنا خرچہ وصول کرسکتا ہے۔ باقی نفع مالک کو ادا کرنا ضروری ہے۔
(2) یعنی اگر ایک دوسرے پر اعتماد ہو تو بغیر گروی رکھے بھی ادھار کا معاملہ کرسکتے ہو۔ امانت سے مراد یہاں قرض ہے، اللہ سے ڈرتے ہوئے اسے صحیح طریقے سے ادا کرے۔
(3) گواہی کا چھپانا کبیرہ گناہ ہے، اس لئے اس پر سخت وعید یہاں قرآن میں اور احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے۔ اسی لئے صحیح گواہی دینے کی فضیلت بھی بڑی ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: ”وہ سب سے بہتر گواہ ہے جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی از خود گواہی کے لئے پیش ہوجائے“، «أَلا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ الشُّهَدَاءِ؟ الَّذِي يَأْتِي بِشَهَادَتِه قَبْل أَنْ يُسْأَلَهَا»، (صحيح مسلم، كتاب الأقضية، باب بيان خير الشهود) ایک دوسری روایت میں بدترین گواہ کی نشان دہی بھی فرما دی گئی ہے۔ «أَلا أُخْبِرُكُمْ بِشَرّ الشُّهَدَاءِ؟ الَّذِي يَشْهَدُونَ قَبْلَ أنْ يُسْتَشْهَدُوا»، (صحيح بخاري، كتاب الرقاق- مسلم، كتاب فضائل الصحابة) ”کیا میں تمہیں وہ گواہ نہ بتلاؤں جو بدترین گواہ ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی گواہی دیتے ہیں۔“، مطلب ہے یعنی جھوٹی گواہی دے کر گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ نیز آیت میں دل کا خاص ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کہ کتمان دل کا فعل ہے۔ علاوہ ازیں دل تمام اعضا کا سردار ہے اور یہ ایسا مضغۂ گوشت ہے کہ اگر یہ صحیح رہے تو سارا جسم صحیح رہتا اور اگر اس میں فساد آ جائے تو سارا جسم فساد کا شکار ہوجاتا ہے۔ «أَلا! وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلا! وَهِيَ الْقَلْبُ»۔ (صحيح بخاري، كتاب الإيمان، باب فضل من استبرأ لدينه)
عربی تفاسیر:
لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ؕ— وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ یُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ ؕ— فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ ؕ— وَاللّٰهُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۟
آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہے۔ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ﻇاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ تعالیٰ اس کا حساب تم سے لے گا(1) ۔ پھر جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے سزا دے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
(1) احادیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام بڑے پریشان ہوئے۔ انہوں نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! نماز، روزہ، زکٰوۃ وجہاد وغیرہ یہ سارے اعمال، جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، ہم بجا لاتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہماری طاقت سے بالا نہیں ہیں۔ لیکن دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسوں پر تو ہمارا اختیار ہی نہیں ہے اور وہ تو انسانی طاقت سے ہی ماورا ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی محاسبہ کا اعلان فرما دیا ہے۔ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا۔ فی الحال تم«سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا»ہی کہو۔ چنانچہ صحابہ (رضي الله عنهم) کے جذبہ سمع وطاعت کو دیکھتے ہوئےاللہ تعالے نے اسے آیت «لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا» ”اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا“، سے منسوخ فرما دیا (ابن کثیر وفتح القدیر) صحیحین وسنن اربعہ کی یہ حدیث بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ «إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ»۔ (صحيح بخاري، كتاب العتق ، باب الخطأ والنسيان في العتاقة... ومسلم، كتاب الإيمان، باب تجوز أمته عن حديث النفس ....) ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے جی میں آنے والی باتوں کو معاف کردیا ہے۔ البتہ ان پر گرفت ہوگی جن پر عمل کیا جائے یا جن کا اظہار زبان سے کردیا جائے“، اس سے معلوم ہوا کہ دل میں گزرنے والے خیالات پر محاسبہ نہیں ہوگا، صرف ان پر محاسبہ ہوگا جو پختہ عزم وارادہ میں ڈھل جائیں یا عمل کا قالب اختیار کرلیں۔ اس کے برعکس امام ابن جریر طبری کا خیال ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے کیونکہ محاسبہ معاقبہ کو لازم نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کا بھی محاسبہ کرے، اس کو سزا بھی ضرور دے، بلکہ اللہ تعالیٰ محاسبہ تو ہر ایک کا کرے گا ، لیکن بہت سے لوگ ہوں گے کہ محاسبہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا بلکہ بعض کے ساتھ تو یہ معاملہ فرمائے گا کہ اس کا ایک ایک گناہ یاد کراکے ان کا اس سے اعتراف کروائے گا اور پھر فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں ان پر پردہ ڈالے رکھا، جاآج میں ان کو معاف کرتا ہوں (یہ حدیث صحیح بخاری، مسلم وغیرہما میں ہے بحوالہ ابن کثیر) اور بعض علما نے کہا ہے کہ یہاں نسخ اصطلاحی معنی میں نہیں ہے بلکہ بعض دفعہ اسے وضاحت کے معنی میں بھی استعمال کرلیا جاتا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام کے دل میں جو شبہ اس آیت سے پیدا ہوا تھا، اسے آیت«لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا» اور حدیث «إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي...»، وغیرہ سے دور کردیا گیا۔ اس طرح ناسخ منسوخ ماننے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
عربی تفاسیر:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ؕ— كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰٓىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ ۫— لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ ۫— وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَیْكَ الْمَصِیْرُ ۟
رسول ایمان ﻻیا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان ﻻئے، یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ﻻئے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے، انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب! اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے،
- اس آیت میں پھر ان ایمانیات کا ذکر ہے جن پر ا ہل ایمان کو ایمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے اگلی آیت «لا يُكَلِّفُ اللَّهُ» میں اللہ تعالیٰ کی رحمت وشفقت اور اس کے فضل وکرم کا تذکرہ ہے کہ اس نے انسانوں کو کسی ایسی بات کا مکلف نہیں کیا ہے جو ان کی طاقت سے بالا ہو۔ ان دونوں آیات کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: «جو شخص سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں رات کو پڑھ لیتا ہے تو یہ اس کو کافی ہوجاتی ہیں»۔ (صحیح بخاری۔ ابن کثیر) یعنی اس عمل کی بدولت اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) کو معراج کی رات جو تین چیزیں ملیں، ان میں سے ایک سورۂ بقرہ کی یہ آخری دو آیات بھی ہیں۔ (صحیح مسلم، باب فی ذکر سدرۃ المنتہی) کئی روایت میں یہ بھی وارد ہے کہ اس سورہ کی آخری آیات آپ (صلى الله عليه وسلم) کو ایک خزانے سے عطا کی گئیں جو عرش الٰہی کے نیچے ہے۔ اور یہ آیات آپ کے سوا کسی اور نبی کو نہیں دی گئیں (أحمد، نسائي ، طبراني، بيهقي، حاكم دارمي وغيره-در منثور) حضرت معاذ (رضي الله عنه) اس سورت کے خاتمے پر آمین کہا کرتے تھے۔ (ابن کثیر)
عربی تفاسیر:
لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ؕ— لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ؕ— رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا ۚ— رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ۚ— رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ ۚ— وَاعْفُ عَنَّا ۥ— وَاغْفِرْ لَنَا ۥ— وَارْحَمْنَا ۥ— اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ ۟۠
اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیاده تکلیف نہیں دیتا، جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا، اے ہمارے رب! ہم پر وه بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈاﻻ تھا، اے ہمارے رب! ہم پر وه بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما! اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر! تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما۔
عربی تفاسیر:
 
معانی کا ترجمہ سورت: بقرہ
سورتوں کی لسٹ صفحہ نمبر
 
قرآن کریم کے معانی کا ترجمہ - اردو ترجمہ - محمد جوناگڑھی - ترجمے کی لسٹ

محمد ابراہیم جوناگڑھی نے ترجمہ کیا۔ مرکز رواد الترجمہ کے زیر اشراف اسے اپڈیٹ کیا گیا ہے اور اصلی ترجمہ مطالعہ کے لیے فراہم کیا جا رہا ہے تاکہ قارئین کی رائے لی جائے اور مسلسل اپڈیٹ اور اصلاح کا کام جاری رہے۔

بند کریں