Check out the new design

قرآن کریم کے معانی کا ترجمہ - اردو ترجمہ - محمد جوناگڑھی * - ترجمے کی لسٹ

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

معانی کا ترجمہ سورت: مُمْتحنہ   آیت:

مُمْتحنہ

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ ۚ— یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ ؕ— اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَآءَ مَرْضَاتِیْ تُسِرُّوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ ۖۗ— وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَاۤ اَخْفَیْتُمْ وَمَاۤ اَعْلَنْتُمْ ؕ— وَمَنْ یَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ ۟
اے وه لوگو جو ایمان ﻻئے ہو! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ(1) تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے(2) ہو اور وه اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں، پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو(3)، اگر تم میری راه میں جہاد کے لیے اور میری رضا مندی کی طلب میں نکلتے ہو (تو ان سے دوستیاں نہ کرو(4))، تم ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیده پوشیده بھیجتے ہو اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا اور وه بھی جو تم نے ﻇاہر کیا، تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا وه یقیناً راه راست سے بہک جائے گا.(5)
(1) کفار مکہ اور نبی (صلى الله عليه وسلم) کے درمیان حدیبیہ میں جو معاہدہ ہوا تھا، اہل مکہ نے اس کی خلاف ورزی کی۔ اس لیے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے بھی مسلمانوں کو خفیہ طور پر لڑائی کی تیاری کا حکم دے دیا۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رضي الله عنه) ، ایک مہاجر بدری صحابی تھے، جن کی قریش کے ساتھ کوئی رشتے داری نہیں تھی، لیکن ان کے بیوی بچے مکے میں ہی تھے۔ انہوں نے سوچا کہ میں قریش مکہ کو آپ (صلى الله عليه وسلم) کی تیاری کی اطلاع کر دوں تاکہ اس احسان کے بدلے وہ میرے بال بچوں کا خیال رکھیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک عورت کے ذریعے سے یہ پیغام تحریری طور پر اہل مکہ کی طرف روانہ کر دیا، جس کے اطلاع بذریعہ وحی نبی (صلى الله عليه وسلم) کو کر دی گئی چنانچہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت علی ، حضرت مقداد اور حضرت زبیر (رضي الله عنهم) کو فرمایا کہ جاؤ روضئہ خاخ پر ایک عورت ہوگی جو مکہ جا رہی ہوگی، اس کے پاس ایک رقعہ ہے، وہ لے آؤ، چنانچہ وہ حضرات گئے اور اس سے یہ رقعہ لے آئے جو اس نے سر کے بالوں میں چھپا رکھا تھا۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت حاطب (رضي الله عنه)، سے پوچھا۔ یہ تم نے کیا کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے یہ کام کفر وارتداد کی بنا پر نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ دیگر مہاجرین کے رشتے دار مکے میں موجود ہیں جو ان کے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ میرا وہاں کوئی رشتے دار نہیں ہے تو میں نے یہ سوچا کہ میں اہل مکہ کو کچھ اطلاع کر دوں تاکہ وہ میرے احسان مند رہیں اور میرے بچوں کی حفاظت کریں۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ان کی سچائی کی وجہ سے انہیں کچھ نہیں کہا۔ تاہم اللہ نے تنبیہ کے طور پر یہ آیات نازل فرما دیں، تاکہ آئندہ کوئی مومن کسی کافر کے ساتھ اس طرح کا تعلق مودت قائم نہ کرے۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة الممتحنة ، وصحيح مسلم، كتاب فضائل الصحابة)۔
(2) مطلب ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) کی خبریں ان تک پہنچا کر ان سے دوستانہ تعلق قائم کرنا چاہتے ہو؟
(3) جب ان کا تمہارے ساتھ اور حق کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو تمہارے لیے کیا یہ مناسب ہے کہ تم ان سے محبت اور ہمدردی کا رویہ اختیار کرو؟
(4) یہ جواب شرط، جو محذوف ہے، کا ترجمہ ہے۔
(5) یعنی میرے اور اپنے دشمنوں سے محبت کا تعلق جوڑنا اور انہیں خفیہ نامہ وپیام بھیجنا، یہ گمراہی کا راستہ ہے، جو کسی مسلمان کے شایان شان نہیں۔
عربی تفاسیر:
اِنْ یَّثْقَفُوْكُمْ یَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَآءً وَّیَبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ وَاَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوْٓءِ وَوَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ ۟ؕ
اگر وه تم پر کہیں قابو پالیں تو وه تمہارے (کھلے) دشمن ہو جائیں اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں اور (دل سے) چاہنے لگیں کہ تم بھی کفر کرنے لگ جاؤ.(1)
(1) یعنی تمہارے خلاف ان کے دلوں میں تو اس طرح بغض وعناد ہے اور تم ہو کہ ان کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہو؟
عربی تفاسیر:
لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَلَاۤ اَوْلَادُكُمْ ۛۚ— یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ۛۚ— یَفْصِلُ بَیْنَكُمْ ؕ— وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۟
تمہاری قرابتیں، رشتہداریاں، اور اوﻻد تمہیں قیامت کے دن کام نہ آئیں گی(1) ، اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان فیصلہ کر دے گا(2) اور جو کچھ تم کر رہے ہو اسے اللہ خوب دیکھ رہا ہے.
(1) یعنی جس اولاد کے لیے تم کفار کے ساتھ محبت کا اظہار کر رہے ہو، یہ تمہارے کچھ کام نہیں آئے گی، پھر اس کی وجہ سے تم کافروں سے دوستی کرکے کیوں اللہ کو ناراض کرتے ہو۔ قیامت والے دن جو چیز کام آئے گی وہ تو اللہ اور رسول (صلى الله عليه وسلم) کی اطاعت ہے، اس کا اہتمام کرو۔
(2) دوسرے معنی ہیں تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا یعنی اہل طاعت کو جنت میں اور اہل معصیت کو جہنم میں داخل کرے گا۔ بعض کہتے ہیں آپس میں جدائی کا مطلب ہے کہ ایک دوسرے سے بھاگیں گے۔ جیسے فرمایا يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ (سورۂ عبس: 34) یعنی شدت ہول سے بھائی ، بھائی سے بھاگے گا۔
عربی تفاسیر:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَهٗ ۚ— اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ؗ— كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗۤ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَاۤ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ ؕ— رَبَّنَا عَلَیْكَ تَوَكَّلْنَا وَاِلَیْكَ اَنَبْنَا وَاِلَیْكَ الْمَصِیْرُ ۟
(مسلمانو!) تمہارے لیے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے(1) ، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں(2)۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ ﻻؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لیے بغض وعداوت ﻇاہر ہوگئی(3) لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی(4) کہ میں تمہارے لیے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لیے مجھے اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں۔ اے ہمارے پروردگار تجھی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے(5) اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے.
(1) کفار سے عدم موالات کے مسئلے کی توضیح کے لیے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی مثال دی جارہی ہے أُسْوَةٌ کے معنی ہوتے ہیں، ایسا نمونہ جس کی اقتدا کی جائے۔
(2) یعنی شرک کی وجہ سے ہمارا اور تمہارا کوئی تعلق نہیں، اللہ کے پرستاروں کا بھلا غیر اللہ کے پجاریوں سے کیا تعلق؟
(3) یعنی یہ علیحدگی اور بیزاری اس وقت تک رہے گی جب تک تم کفروشرک چھوڑ کر توحید کو نہیں اپنالو گے۔ ہاں جب تم ایک اللہ کو ماننے والے بن جاؤ گے تو پھر یہ عداوت موالات میں اور یہ بغض محبت میں بدل جائے گا۔
(4) یہ ایک استثنا ہے جو فی ابراہیم میں مقدر محذوف مضاف سے ہے۔ یعنی «قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي مَقَالاتِ إِبْرَاهيِمَ إِلا قَوْلَهُ لأبِيهِ یا أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ» سے استثنا ہے، اس لیے کہ قول بھی منجملہ اسوہ ہے۔ گویا کہا جارہا ہے۔ «قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ فِي جَمِيعِ أَقْوَالِهِ وَأَفْعَالِهِ إِلا قَوْلَهُ لأبِيهِ»(فتح القدير) مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی پوری زندگی ایک قابل تقلید نمونہ ہے، البتہ ان کا اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنا ایک ایسا عمل ہے جس میں ان کی پیروی نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ ان کا یہ فعل اس وقت کا ہے جب ان کو اپنے باپ کی بابت علم نہیں تھا، چنانچہ جب ان پر یہ واضح ہوگیا کہ ان کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اپنے باپ سے بھی اظہار براءت کر دیا، جیسا کہ سورۂ براءت آیت 114 میں ہے۔ (سورۂ براءت سورۂ توبہ کو کہا جاتا ہے)۔
(5) توکل کا مطلب ہے۔ امکانی حد تک ظاہری اسباب ووسائل اختیار کرنے کے بعد معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا جائے۔ یہ مطلب نہیں کہ ظاہری وسائل اختیار کیے بغیر ہی اللہ پر اعتماد اور توکل کا اظہار کیا جائے، اس سے ہمیں منع کیا گیا ہے، اس لیے توکل کا یہ مفہوم بھی غلط ہوگا۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اونٹ کو باہر کھڑا کرکے اندر آگیا ، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے پوچھا تو کہا میں اونٹ اللہ کے سپرد کر آیا ہوں، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا۔ یہ توکل نہیں ہے۔ ”اعْقِلْ وَتَوَكَّلْ“ پہلے اسے کسی چیز سے باندھ ، پھر اللہ پر بھروسہ کر۔ (ترمذی) انابت کا مطلب ہے، اللہ کی طرف رجوع کرنا۔
عربی تفاسیر:
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا ۚ— اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ۟
اے ہمارے رب! تو ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال(1) اور اے ہمارے پالنے والے ہماری خطاؤں کو بخش دے، بیشک تو ہی غالب، حکمت واﻻ ہے.
(1) یعنی کافروں کو ہم پر غلبہ وتسلط عطا نہ فرما، اس طرح وہ سمجھیں گے کہ وہ حق پر ہیں، اور یوں ہم ان کے لیے فتنے کا باعث بن جائیں گے یا یہ مطلب ہے کہ ان کے ہاتھوں یا اپنی طرف سے ہمیں کسی سزا سے دو چار نہ کرنا، اس طرح بھی ہمارا وجود ان کے لیے فتنہ بن جائے گا، وہ کہیں گے کہ اگر یہ حق پر ہوتے تو ان کو یہ تکلیف کیوں پہنچتی؟
عربی تفاسیر:
 
معانی کا ترجمہ سورت: مُمْتحنہ
سورتوں کی لسٹ صفحہ نمبر
 
قرآن کریم کے معانی کا ترجمہ - اردو ترجمہ - محمد جوناگڑھی - ترجمے کی لسٹ

محمد ابراہیم جوناگڑھی نے ترجمہ کیا۔ مرکز رواد الترجمہ کے زیر اشراف اسے اپڈیٹ کیا گیا ہے اور اصلی ترجمہ مطالعہ کے لیے فراہم کیا جا رہا ہے تاکہ قارئین کی رائے لی جائے اور مسلسل اپڈیٹ اور اصلاح کا کام جاری رہے۔

بند کریں