للإطلاع على الموقع بحلته الجديدة

ترجمة معاني القرآن الكريم - الترجمة الأردية - محمد جوناكرهي * - فهرس التراجم

XML CSV Excel API
تنزيل الملفات يتضمن الموافقة على هذه الشروط والسياسات

ترجمة معاني سورة: البقرة   آية:
اَلَمْ تَرَ اِلَی الْمَلَاِ مِنْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی ۘ— اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ؕ— قَالَ هَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا ؕ— قَالُوْا وَمَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاَبْنَآىِٕنَا ؕ— فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ ؕ— وَاللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ ۟
کیا آپ نے (حضرت) موسیٰ کے بعد والی بنی اسرائیل کی جماعت کو نہیں دیکھا(1) جب کہ انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاه بنا دیجیئے(2) تاکہ ہم اللہ کی راه میں جہاد کریں۔ پیغمبر نے کہا کہ ممکن ہے جہاد فرض ہوجانے کے بعد تم جہاد نہ کرو، انہوں نے کہا بھلا ہم اللہ کی راه میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کردیئے گئے ہیں۔ پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سوائے تھوڑے سے لوگوں کے سب پھر گئے اور اللہ تعالیٰ ﻇالموں کو خوب جانتا ہے۔
(1) مَلأ کسی قوم کے ان اشراف، سردار اور اہل حل وعقد کو کہا جاتا ہے جو خاص مشیر اور قائد ہوتے ہیں، جن کے دیکھنے سے آنکھیں اور دل رعب سے بھر جاتے ہیں، ملا کے لغوی معنی (بھرنے کے ہیں) (ایسرالتفاسیر) جس پیغمبر کا یہاں ذکر ہے اس کا نام شمویل بتلایا جاتا ہے۔ ابن کثیر وغیرہ مفسرین نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنواسرائیل حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے بعد کچھ عرصے تک تو ٹھیک رہے، پھر ان میں انحراف آگیا، دین میں بدعات ایجاد کرلیں۔ حتیٰ کہ بتوں کی پوجا شروع کردی۔ انبیا ان کو روکتے رہے، لیکن یہ معصیت اور شرک سے باز نہیں آئے۔ اس کے نتیجے میں اللہ نے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کردیا، جنہوں نے ان کے علاقے بھی چھین لئے اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قیدی بھی بنا لیا، ان میں نبوت وغیرہ کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا، بالآخر بعض لوگوں کی دعاؤں سے شمویل نبی پیدا ہوئے، جنہوں نے دعوت وتبلیغ کا کام شروع کیا۔ انہوں نے پیغمبر سے یہ مطالبہ کیا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کردیں جس کی قیادت میں ہم دشمنوں سے لڑیں۔ پیغمبر نے ان کے سابقہ کردار کے پیش نظر کہا کہ تم مطالبہ تو کر رہے ہو، لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ تم اپنی بات پر قائم نہیں رہو گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے۔
(2) نبی کی موجودگی میں بادشاہ مقرر کرنے کا مطالبہ، بادشاہت کے جواز کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگر بادشاہت جائز نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس مطالبے کو رد فرما دیتا، لیکن اللہ نے اس معاملہ کو رد نہیں فرمایا، بلکہ طالوت کو ان کے لئے بادشاہ مقرر کر دیا، جیسا کہ آگے آرہا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ بادشاہ اگر مطلق العنان نہیں ہے بلکہ وہ احکام الٰہی کا پابند اور عدل وانصاف کرنے والا ہے تو اس کی بادشاہت جائز ہی نہیں، بلکہ مطلوب ومحبوب بھی ہے۔ مزید دیکھیے : سورۃ المائدۃ، آیت 20 کا حاشیہ۔
التفاسير العربية:
وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا ؕ— قَالُوْۤا اَنّٰی یَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ؕ— قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَیْكُمْ وَزَادَهٗ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ؕ— وَاللّٰهُ یُؤْتِیْ مُلْكَهٗ مَنْ یَّشَآءُ ؕ— وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۟
اور انہیں ان کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاه بنا دیا ہے تو کہنے لگے بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے تو بہت زیاده حقدار بادشاہت کے ہم ہیں، اس کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔ نبی نے فرمایا سنو، اللہ تعالیٰ نے اسی کو تم پر برگزیده کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے(1) بات یہ ہے کہ اللہ جسے چاہے اپنا ملک دے، اللہ تعالیٰ کشادگی واﻻ اور علم واﻻ ہے۔
(1) حضرت طالوت اس نسل سے نہیں تھے جس سے بنی اسرائیل کے بادشاہوں کا سلسلہ چلا آرہا تھا۔ یہ غریب اور ایک عام فوجی تھے، جس پر انہوں نے اعتراض کیا۔ پیغمبر نے کہا کہ یہ میرا انتخاب نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں مقرر کیا ہے۔ علاوہ ازیں قیادت وسیادت کے لئے مال سے زیادہ عقل وعلم اور جسمانی قوت وطاقت کی ضرورت ہے اور طالوت اس میں تم سب میں ممتاز ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس منصب کے لئے چن لیا ہے۔ وہ واسع الفضل ہے، جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت وعنایات سے نوازتا ہے، علیم ہے، یعنی وہ جانتا ہے کہ بادشاہت کا مستحق کون ہے اور کون نہیں ہے (معلوم ہوتا ہے کہ جب انہیں بتلایا گیا کہ یہ تقرری اللہ کی طرف سے ہے تو اس کے لئے انہوں نے مزید کسی نشانی کا مطالبہ کیا، تاکہ وہ پوری طرح مطمئن ہوجائیں۔ چنانچہ اگلی آیت میں ایک اور نشانی کا بیان ہے)۔
التفاسير العربية:
وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اٰیَةَ مُلْكِهٖۤ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ التَّابُوْتُ فِیْهِ سَكِیْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَبَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ هٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ ؕ— اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۟۠
ان کے نبی نے انہیں پھر کہا کہ اس کی بادشاہت کی ﻇاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وه صندوق(1) آ جائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلجمعی ہے اور آل موسیٰ اور آل ہارون کا بقیہ ترکہ ہے، فرشتے اسے اٹھا کر ﻻئیں گے۔ یقیناً یہ تو تمہارے لئے کھلی دلیل ہے اگر تم ایمان والے ہو۔
(1) صندوق یعنی تابوت، جو توب سے ہے، جس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں۔ کیوں کہ بنی اسرائیل تبرک کے لئے اس کی طرف رجوع کرتے تھے (فتح القدیر) اس تابوت میں حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کے تبرکات تھے، یہ تابوت بھی ان کے دشمن ان سے چھین کر لے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر یہ تابوت فرشتوں کے ذریعے سے حضرت طالوت کے دروازے پر پہنچا دیا۔ جسے دیکھ کر بنو اسرائیل خوش بھی ہوئے اور اسے طالوت کی بادشاہی کے لئے منجانب اللہ کی نشانی بھی سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اسے ان کے لئے ایک اعجاز (آیت) اور فتح وسکینت کا سبب قرار دیا۔ سکینت کا مطلب ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص نصرت کا ایسا نزول ہے جو وہ اپنے خاص بندوں پر نازل فرماتا ہے اور جس کی وجہ سے جنگ کی خون ریز معرکہ آرائیوں میں جس سے بڑے بڑے شیردل بھی کانپ اٹھتے ہیں، اہل ایمان کے دل دشمن کے خوف اور ہیبت سے خالی اور فتح وکامرانی کی امید سے لبریز ہوتے ہیں۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء و صالحین کے تبرکات یقینا باذن اللہ اہمیت و افادیت رکھتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ واقعی تبرکات ہوں۔ جس طرح اس تابوت میں یقینا حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے تبرکات تھے لیکن محض جھوٹی نسبت سے کوئی چیز متبرک نہیں بن جاتی، جس طرح آج کل "تبرکات" کے نام پر کئی جگہوں پر مختلف چیزیں رکھی ہوئی ہیں، جن کا تاریخی طور پر پورا ثبوت نہیں ہے۔ اسی طرح خود ساختہ چیزوں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ جس طرح بعض لوگ نبی (صلى الله عليه وسلم) کے نعل مبارک کی تمثال بنا کر اپنے پاس رکھنے کو، یا گھروں میں لٹکانے کو، یا مخصوص طریقے سے اس کے استعمال کو قضائے حاجات اور دفع بلیات کے لئے اکشیر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح قبروں پر بزرگوں کے ناموں کی نذر و نیاز کی چیزوں کو اور لنگر کو متبرک سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ غیر اللہ کے نام کا چڑھاوا ہے جو شرک کے دائرے میں آتا ہے، اس کا کھان قطعاً حرام ہے، قبروں کو غسل دیا جاتا ہے اور اس کے پانی کو متبرک سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ قبروں کو غسل دینا بھی خانہ کعبہ کے غسل کی نقل ہے، جس کا کوئی جواز نہیں ہے، یہ گندا پانی متبرک کیسے ہوسکتا ہے؟ بہر حال یہ سب باتیں غلط ہیں جن کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے۔
التفاسير العربية:
 
ترجمة معاني سورة: البقرة
فهرس السور رقم الصفحة
 
ترجمة معاني القرآن الكريم - الترجمة الأردية - محمد جوناكرهي - فهرس التراجم

ترجمها محمد إبراهيم جوناكري. تم تطويرها بإشراف مركز رواد الترجمة، ويتاح الإطلاع على الترجمة الأصلية لغرض إبداء الرآي والتقييم والتطوير المستمر.

إغلاق