Check out the new design

Traducción de los significados del Sagrado Corán - Traducción al urdu - Muhammad Gunakry * - Índice de traducciones

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Traducción de significados Capítulo: Al-Baqara   Versículo:
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ ؕ— وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ ۟
اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہ پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں(1) ہاں اس کی پکڑ اس چیز پر ہے جو تمہارے دلوں کا فعل ہو، اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ اور بردبار ہے۔
(1) یعنی جو غیرارادی اور عادت کے طور پر ہوں۔ البتہ عمداً جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہے۔
Las Exégesis Árabes:
لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآىِٕهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْهُرٍ ۚ— فَاِنْ فَآءُوْ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۟
جو لوگ اپنی بیویوں سے (تعلق نہ رکھنے کی) قسمیں کھائیں، ان کے لئے چار مہینے کی مدت(1) ہے، پھر اگر وه لوٹ آئیں تو اللہ تعالیٰ بھی بخشنے واﻻ مہربان ہے۔
(1) إِيلاءٌ کے معنی قسم کھانے کے ہیں، یعنی کوئی شوہر اگر قسم کھا لے کہ اپنی بیوی سے ایک مہینے یا دو مہینے (مثلاً) تعلق نہیں رکھوں گا، پھر قسم کی مدت پوری کرکے تعلق قائم کرلیتا ہے تو کوئی کفارہ نہیں، ہاں اگر مدت پوری ہونے سے قبل تعلق قائم کرے گا تو کفارۂ قسم ادا کرنا ہوگا۔ اور اگر چار مہینے سے زیادہ مدت کے لئے یا مدت کی تعیین کے بغیر قسم کھاتا ہے تو اس آیت میں ایسے لوگوں کے لئے مدت کا تعین کردیا گیا ہے کہ وہ چار مہینے گزرنے کے بعد یا تو بیوی سے تعلق قائم کرلیں، یا پھر اسے طلاق دے دیں (اسے چار مہینے سے زیادہ معلق رکھنے کی اجازت نہیں ہے) پہلی صورت میں اسے کفارۂ قسم ادا کرنا ہوگا اور اگر دونوں میں سے کوئی صورت اختیار نہیں کرے گا تو عدالت اس کو دونوں میں سے کسی ایک بات کے اختیار کرنے پر مجبور کرے گی کہ وہ اس سے تعلق قائم کرے، یا طلاق دے، تاکہ عورت پر ظلم نہ ہو۔ (تفسیر ابن کثیر )
Las Exégesis Árabes:
وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۟
اور اگر طلاق کا ہی قصد کرلیں(1) تو اللہ تعالیٰ سننے واﻻ، جاننے واﻻ ہے۔
(1) ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ چار مہینے گزرتے ہی از خود طلاق واقع نہیں ہوگی (جیسا کہ بعض علما کا مسلک ہے) بلکہ خاوند کے طلاق دینے سے طلاق ہوگی، جس پر اسے عدالت بھی مجبور کرے گی۔ جیسا کہ جمہور علما کا مسلک ہے۔ (ابن کثیر )
Las Exégesis Árabes:
وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ ؕ— وَلَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ؕ— وَبُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا ؕ— وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۪— وَلِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ ؕ— وَاللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ۟۠
طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں(1) ، انہیں حلال نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہو اسے چھپائیں(2)، اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو، ان کے خاوند اس مدت میں انہیں لوٹا لینے کے پورے حقدار ہیں اگر ان کا اراده اصلاح کا ہو(3)۔ اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ۔(4) ہاں مردوں کو عورتوں پر فضلیت ہے اور اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمت واﻻ ہے۔
(1) اس سے وہ مطلقہ عورت مراد ہے جو حاملہ بھی نہ ہو (کیوں کہ حمل والی عورت کی مدت وضع حمل ہے) جسے دخول سے قبل طلاق مل گئی ہو، وہ بھی نہ ہو (کیوں کہ اس کی کوئی عدت ہی نہیں ہے) آئسہ بھی نہ ہو، یعنی جن کو حیض آنا بند ہوگیا ہو (کیوں کہ ان کی عدت تین مہینے ہے) گویا یہاں مذکورہ عورتوں کے علاوہ صرف مدخولہ عورت کی عدت بیان کی جا رہی ہے اور وہ تین قروء۔ جس کے معنی طہر یا تین حیض کے ہیں۔ یعنی تین طہریا تین حیض عدت گزار کے وہ دوسری جگہ شادی کرنے کی مجاز ہے۔ سلف نے قروء کے دونوں ہی معنی صحیح قرار دیئے ہیں، اس لئے دونوں کی گنجائش ہے (ابن کثیر وفتح القدیر)
(2) اس سے حیض اور حمل دونوں ہی مراد ہیں۔ حیض نہ چھپائیں، مثلاً کہے کہ طلاق کے بعد مجھے ایک یا دو حیض آئے ہیں، درآں حالیکہ اسے تینوں حیض آچکے ہوں۔ مقصد پہلے خاوند کی طرف رجوع کرنا ہو (اگر وہ رجوع کرنا چاہتا ہو) یا اگر رجوع کرنا نہ چاہتی ہو تو یہ کہہ دے کہ مجھے تو تین حیض آچکے ہیں جب کہ واقعتہً ایسا نہ ہو، تاکہ خاوند کا حق رجوع ثابت نہ ہوسکے۔ اسی طرح حمل نہ چھپائیں، کیوں کہ اس طرح دوسری جگہ شادی کرنے کی صورت میں نسب میں اختلاط ہوجائے گا۔ نطفہ وہ پہلے خاوند کا ہوگا اور منسوب دوسرے خاوند کی طرف ہوجائے گا۔ یہ سخت کبیرہ گناہ ہے۔
(3) رجوع کرنے سے خاوند کا مقصد اگر تنگ کرنا نہ ہو تو عدت کے اندر خاوند کو رجوع کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ عورت کے ولی کو اس حق میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔
(4) یعنی دونوں کے حقوق ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، جن کے پورے کرنے کے دونوں شرعاً پابند ہیں، تاہم مرد کو عورت پر فضیلت یا درجہ حاصل ہے، مثلاً فطری قوتوں میں، جہاد کی اجازت میں، میراث کے دو گنا ہونے میں، قوامیت اورحاکمیت میں اور اختیار طلاق ورجوع (وغیرہ) میں۔
Las Exégesis Árabes:
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۪— فَاِمْسَاكٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ ؕ— وَلَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْـًٔا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ؕ— فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۙ— فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ؕ— تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا ۚ— وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۟
یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں(1) ، پھر یا تو اچھائی سے روکنا(2) یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے(3) اور تمہیں حلال نہیں کہ تم نے انہیں جو دے دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو، اس لئے اگر تمہیں ڈر ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے، اس میں دونوں پر گناه نہیں(4) یہ اللہ کی حدود ہیں خبردار ان سے آگے نہ بڑھنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کرجائیں وه ﻇالم ہیں۔
(1) یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو (عدت کے اندر) رجوع کا حق حاصل ہے، وہ دو مرتبہ ہے، پہلی طلاق کے بعد بھی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع ہوسکتا ہے۔ تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع کی اجازت نہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں یہ حق طلاق ورجوع غیر محدود تھا جس سے عورتوں پر بڑا ظلم ہوتا تھا، آدمی بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا تھا، اس طرح اسے نہ بساتا تھا، نہ آزاد کرتا تھا۔ اللہ نے اس ظلم کا راستہ بند کردیا۔ اور پہلی یا دوسری مرتبہ سوچنے اور غور کرنے کی سہولت سے محروم بھی نہیں کیا۔ ورنہ اگر پہلی مرتبہ کی طلاق میں ہی ہمیشہ کے لئے جدائی کا حکم دے دیا جاتا تو اس سے پیدا ہونے والی معاشرتی مسائل کی پیچیدگیوں کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے”طَلْقَتَانِ“ (دو طلاقیں) نہیں فرمایا، بلکہ الطَّلاقُ مَرَّتَانِ (طلاق دو مرتبہ) فرمایا، جس سے اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ بیک وقت دو یا تین طلاقیں دینا اور انہیں بیک وقت نافذ کر دینا حکمت الٰہیہ کے خلاف ہے۔ حکمت الٰہیہ اسی بات کی مقتضی ہے کہ ایک مرتبہ طلاق کے بعد (چاہے وہ ایک ہو یا کئی ایک) اور اسی طرح دوسری مرتبہ طلاق کے بعد (چاہے وہ ایک ہو یا کئی ایک) مرد کو سوچنے سمجھنے اور جلد بازی یا غصے میں کئے گئے کام کے ازالے کا موقع دیا جائے، یہ حکمت ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق رجعی قرار دینے میں ہی باقی رہتی ہے، نہ کہ تینوں کو بیک وقت نافذ کرکے سوچنے اور غلطی کا ازالہ کرنے کی سہولت سے محروم کردینے کی صورت میں، (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : کتاب مجموعہ مقالات علمیہ بابت۔ ایک مجلس کی تین طلاق۔ اور (اختلاف امت اور صراط مستقیم)۔ نیز معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے علما ایک مجلس کی تین طلاقوں کے واقع ہونے ہی کا فتویٰ دیتے ہیں۔
(2) یعنی رجوع کرکے اچھے طریقے سے اسے بسانا۔
(3) یعنی تیسری مرتبہ طلاق دے کر۔
(4) اس میں خلع کا بیان ہے، یعنی عورت خاوند سے علیحدگی حاصل کرنا چاہے تو اس صورت میں خاوند عورت سے اپنا دیا ہوا مہر واپس لے سکتا ہے۔ خاوند اگر علیحدگی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو تو عدالت خاوند کو طلاق دینے کا حکم دے گی اور اگر وہ اسے نہ مانے تو عدالت نکاح فسخ کردے گی۔ گویا خلع بذریعہ طلاق بھی ہوسکتا ہے اور بذریعہ فسخ بھی۔ دونوں صورتوں میں عدت ایک حیض ہے (ابوداود، ترمذی، نسائی والحاکم۔ فتح القدیر) عورت کو یہ حق دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی سخت تاکیدکی گئی ہے کہ عورت بغیر کسی معقول عذر کے خاوند سے علیحدگی یعنی طلاق کا مطالبہ نہ کرے۔ اگر ایسا کرے گی تو نبی (صلى الله عليه وسلم) نے ایسی عورتوں کے لئے یہ سخت وعید بیان فرمائی ہے کہ وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائیں گی۔ (ابن کثیر وغیرہ )
Las Exégesis Árabes:
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ ؕ— فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ؕ— وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ۟
پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب تک وه عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے، پھر اگر وه بھی طلاق دے دے تو ان دونوں کو میل جول کرلینے میں کوئی گناه نہیں(1) بشرطیکہ یہ جان لیں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں جنہیں وه جاننے والوں کے لئے بیان فرما رہا ہے۔
(1) اس طلاق سے تیسری طلاق مراد ہے۔ یعنی تیسری طلاق کے بعد خاوند اب نہ رجوع کرسکتا ہے اور نہ نکاح۔ البتہ یہ عورت کسی اور جگہ نکاح کرلے اور دوسرا خاوند اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے، یا فوت ہوجائے تو اس کے بعد زوج اول سے اس کا نکاح جائز ہوگا۔ لیکن اس کے لئے بعض ملکوں میں جو حلالہ کا طریقہ رائج ہے، یہ لعنتی فعل ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ حلالہ کی غرض سے کیا گیا نکاح، نکاح نہیں ہے، زناکاری ہے، اس نکاح سے عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی۔
Las Exégesis Árabes:
 
Traducción de significados Capítulo: Al-Baqara
Índice de Capítulos Número de página
 
Traducción de los significados del Sagrado Corán - Traducción al urdu - Muhammad Gunakry - Índice de traducciones

Traducida por Muhammad Ibrahim Jonakri. Desarrollada bajo la supervisión del Centro Rowad Al-Taryamah. Se permite acceder a la traducción original con el propósito de brindar opiniones, evaluación y desarrollo continuo.

Cerrar