Check out the new design

Traducción de los significados del Sagrado Corán - Traducción al urdu - Muhammad Gunakry * - Índice de traducciones

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Traducción de significados Capítulo: Al-Baqara   Versículo:
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً ؕ— قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَیَسْفِكُ الدِّمَآءَ ۚ— وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ؕ— قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ۟
اور جب تیرے رب نے فرشتوں(1) سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے واﻻ ہوں، تو انہوں(2) نے کہا ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے؟ اور ہم تیری تسبیح، حمد اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔(3)
(1) مَلائِكَةٌ (فرشتے) اللہ کی نوری مخلوق ہیں، جن کا مسکن آسمان ہے، جو اوامرالٰہی کے بجالانے اور اس کی تحمید وتقدیس میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے۔
(2) خَلِيفَةٌ سے مراد ایسی قوم ہے جو ایک دوسرے کے بعد آئے گی اور یہ کہنا کہ انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور نائب ہے غلط ہے۔
(3) فرشتوں کا یہ کہنا حسد یا اعتراض کے طور پر نہیں تھا، بلکہ اس کی حقیقت اور حکمت معلوم کرنے کی غرض سے تھا کہ اے رب اس مخلوق کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے، جب کہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو فساد پھیلائیں گے اور خون ریزی کریں گے؟ اگر مقصود یہ ہے کہ تیری عبادت ہو تو اس کام کے لئے ہم تو موجود ہیں، ہم سے وہ خطرات بھی نہیں جو نئی مخلوق سے متوقع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں وہ مصلحت راجحہ جانتا ہوں جس کی بنا پر ان ذکر کردہ مفاسد کے باوجود میں اسے پیدا کر رہا ہوں، جو تم نہیں جانتے۔“ کیوں کہ ان میں انبیا، شہدا، وصالحین اور زہاد بھی ہوں گے۔ (ابن کثیر)
ذریت آدم کی بابت فرشتوں کو کیسے علم ہوا کہ وہ فساد برپا کرے گی؟ اس کا اندازہ انہوں نے انسانی مخلوق سے پہلے کی مخلوق کے اعمال یا کسی اور طریقے سے کرلیا ہوگا۔ بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی بتلا دیا تھا کہ وہ ایسے ایسے کام بھی کرے گی۔ یوں وہ کلام میں حذف مانتے ہیں کہ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً يَفْعَلُ كَذَا وَكَذَا (فتح القدیر)
Las Exégesis Árabes:
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلٰٓىِٕكَةِ فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۟
اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔
Las Exégesis Árabes:
قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ؕ— اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ ۟
ان سب نے کہا اے اللہ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تونے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم وحکمت واﻻ تو تو ہی ہے۔
Las Exégesis Árabes:
قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآىِٕهِمْ ۚ— فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآىِٕهِمْ ۙ— قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۙ— وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ ۟
اللہ تعالیٰ نے (حضرت) آدم ﴿علیہ السلام﴾ سے فرمایا تم ان کے نام بتا دو۔ جب انہوں نے بتا دیئے تو فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں (پہلے ہی) نہ کہا تھا کہ زمین اور آسمانوں کا غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے علم میں ہے جو تم ﻇاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے تھے۔(1)
(1) اسماء سے مراد مسمیات (اشخاص واشیا) کے نام اور ان کے خواص وفوائد کا علم ہے، جو اللہ تعالیٰ نے القا والہام کے ذریعے حضرت آدم (عليه السلام) کو سکھلا دیا۔ پھر جب ان سے کہا گیا کہ آدم (عليه السلام) ان کے نام بتلاؤ تو انہوں نے فوراً سب کچھ بیان کردیا، جو فرشتے بیان نہ کرسکے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک تو فرشتوں پر حکمت تخلیق آدم واضح کردی۔ دوسرے دنیا کا نظام چلانے کے لئے علم کی اہمیت وفضیلت بیان فرما دی، جب یہ حکمت واہمیت علم فرشتوں پر واضح ہوئی، تو انہوں نے اپنے قصور علم و فہم کا اعتراف کرلیا۔ فرشتوں کے اس اعتراف سے یہ بھی واضح ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے، اللہ کے برگزیدہ بندوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے۔
Las Exégesis Árabes:
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ ؕ— اَبٰی وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ ۟
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجده کرو(1) تو ابلیس کے سوا سب نے سجده کیا۔ اس نے انکار کیا(2) اور تکبر کیا اور وه کافروں میں ہوگیا۔(3)
(1) علمی فضیلت کے بعد حضرت آدم (عليه السلام) کی یہ دوسری تکریم ہوئی۔ سجدہ کے معنی ہیں خضوع اور تذلل کے، اس کی انتہا ہے (زمین پر پیشانی کا ٹکا دینا) (قرطبی) یہ سجدہ شریعت اسلامیہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کا مشہور فرمان ہے کہ اگر سجدہ کسی اور کے لئے جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (سنن ترمذی) تاہم فرشتوں نے اللہ کے حکم پر حضرت آدم (عليه السلام) کو سجدہ کیا، جس سے ان کی تکریم وفضیلت فرشتوں پر واضح کردی گئی۔ کیوں کہ یہ سجدہ اکرام و تعظیم کے طور پر ہی تھا، نہ کہ عبادت کے طور پر۔ اب تعظیماً بھی کسی کو سجدہ نہیں کیا جاسکتا۔
(2) ابلیس نے سجدے سے انکار کیا اور راندۂ درگاہ ہوگیا۔ ابلیس حسب صراحت قرآن جنات میں سے تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اعزازاً فرشتوں میں شامل کر رکھا تھا، اس لئےبحکم الٰہی اس کے لئے بھی سجدہ کرنا ضروری تھا، لیکن اس نے حسد اور تکبر کی بنا پر سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ گویا حسد اور تکبر وہ گناہ ہیں جن کا ارتکاب دنیائے انسانیت میں سب سے پہلے کیا گیا اور اس کا مرتکب ابلیس تھا۔
(3) یعنی اللہ تعالیٰ کے علم و تقدیر میں۔
Las Exégesis Árabes:
وَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا ۪— وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۟
اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو(1) اور جہاں کہیں سے چاہو بافراغت کھاؤ پیو، لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا(2) ورنہ ﻇالم ہوجاؤ گے
(1) یہ حضرت آدم (عليه السلام) کی تیسری بڑی فضیلت ہے جو جنت کو ان کا مسکن بنا کر عطا کی گئی۔
(2) یہ درخت کس چیز کا تھا؟ اس کی بابت قرآن وحدیث میں کوئی صراحت نہیں ہے۔ اس کو گندم کا درخت مشہور کردیا گیا ہے جو بےاصل بات ہے، ہمیں اس کا نام معلوم کرنے کی ضرورت ہے، نہ اس کا کوئی فائدہ ہی ہے۔
Las Exégesis Árabes:
فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ ۪— وَقُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۚ— وَلَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ ۟
لیکن شیطان نے ان کو بہکا کر وہاں سے نکلوا ہی دیا(1) اور ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ! تم ایک دوسرے کے دشمن ہو(2) اور ایک وقت مقرر تک تمہارے لئے زمین میں ٹھہرنا اور فائده اٹھانا ہے
(1) شیطان نے جنت میں داخل ہو کر روبرو انہیں بہکایا، یا وسوسہ اندازی کے ذریعے سے، اس کی بابت کوئی صراحت نہیں۔ تاہم یہ واضح ہے کہ جس طرح سجدے کے حکم کے وقت اس نے حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس سے کام لے کر (کہ میں آدم سے بہتر ہوں) سجدے سے انکار کیا، اسی طرح اس موقعے پر اللہ تعالیٰ کے حکم «وَلا تَقْرَبَا» کی تاویل کرکے حضرت آدم (عليه السلام) کو پھسلانے میں کامیاب ہوگیا، جس کی تفصیل سورۂ اعراف میں آئے گی۔ گویا حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس اور نص کی دورازکار تاویل کا ارتکاب بھی سب سے پہلے شیطان نے کیا۔ فَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذَا
(2) مراد آدم (عليه السلام) اور شیطان ہیں، یا یہ مطلب ہے کہ بنی آدم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔
Las Exégesis Árabes:
فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ ؕ— اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ۟
آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں(1) اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بےشک وہی توبہ قبول کرنے واﻻ اور رحم کرنے واﻻ ہے۔
(1) حضرت آدم (عليه السلام) جب پشیمانی میں ڈوبے دنیا میں تشریف لائے تو توبہ واستغفار میں مصروف ہوگئے۔ اس موقعے پر بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی ودست گیری فرمائی اور وہ کلمات معافی سکھا دیئے جو (الاعراف) میں بیان کئے گئے ہیں «رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا» الآية بعض حضرات یہاں ایک موضوع روایت کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم نے عرش الٰہی پر ”لا إِلهَ إِلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ“ لکھا ہوا دیکھا اور محمد رسول اللہ کے وسیلے سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔ یہ روایت بےسند ہے اور قرآن کے بھی معارض ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقے کے بھی خلاف ہے۔ تمام انبیا (عليهم السلام) نے ہمیشہ براہ راست اللہ سے دعائیں کی ہیں، کسی نبی، ولی، بزرگ کا واسطہ اور وسیلہ نہیں پکڑا، اس لئے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) سمیت تمام انبیا کا طریقہ دعا یہی رہا ہے کہ بغیر کسی واسطے اور وسیلے کے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی جائے۔
Las Exégesis Árabes:
 
Traducción de significados Capítulo: Al-Baqara
Índice de Capítulos Número de página
 
Traducción de los significados del Sagrado Corán - Traducción al urdu - Muhammad Gunakry - Índice de traducciones

Traducida por Muhammad Ibrahim Jonakri. Desarrollada bajo la supervisión del Centro Rowad Al-Taryamah. Se permite acceder a la traducción original con el propósito de brindar opiniones, evaluación y desarrollo continuo.

Cerrar