Check out the new design

ការបកប្រែអត្ថន័យគួរអាន - ការបកប្រែជាភាសាអ៊ូរឌូ - ម៉ូហាំម៉ាត់ ជូណាគ្រី * - សន្ទស្សន៍នៃការបកប្រែ

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

ការបកប្រែអត្ថន័យ ជំពូក​: មូហាំម៉ាត់   អាយ៉ាត់:
اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ؕ— وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَتَمَتَّعُوْنَ وَیَاْكُلُوْنَ كَمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًی لَّهُمْ ۟
جو لوگ ایمان ﻻئے اور انہوں نے نیک اعمال کیے انہیں اللہ تعالیٰ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور جو لوگ کافر ہوئے وه (دنیا ہی کا) فائده اٹھا رہے ہیں اور مثل چوپایوں کے کھا رہے ہیں(1) ، ان کا (اصل) ٹھکانہ جہنم ہے.
(1) یعنی جس طرح جانوروں کو پیٹ اور جنس کے تقاضے پورے کرنےکے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا۔ یہی حال کافروں کا ہے، ان کا مقصد زندگی بھی کھانے پینے کےعلاوہ کچھ نہیں، آخرت سے وہ بالکل غافل ہیں۔ اس سے ضمناً کھڑےکھڑے کھانے کی ممانعت کا بھی اثبات ہوتا ہے، جس کا آج کل دعوتوں میں عام رواج ہے کیوں کہ اس میں بھی جانوروں سے مشابہت ہے جسے کافروں کا شیوہ بتلایا گیا ہے۔ احادیث میں کھڑے کھڑے پانی پینے سے نہایت سختی سے منع کیا گیا ہے، جس سے کھڑے کھڑے کھانے کی ممانعت بطریق اولیٰ ثابت ہوتی ہے۔ اس لئے جانوروں کی طرح کھڑے ہو کر کھانے سے اجتناب کرنا نہایت ضروری ہے۔ دیکھئے زاد المعاد۔
តាហ្វសៀរជាភាសា​អារ៉ាប់ជាច្រេីន:
وَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ هِیَ اَشَدُّ قُوَّةً مِّنْ قَرْیَتِكَ الَّتِیْۤ اَخْرَجَتْكَ ۚ— اَهْلَكْنٰهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ ۟
ہم نے کتنی بستیوں کو جو طاقت میں تیری اس بستی سے زیاده تھیں جس سے تجھے نکالا ہم نے انہیں ہلاک کر دیا ہے، جن کا مددگار کوئی نہ اٹھا.
តាហ្វសៀរជាភាសា​អារ៉ាប់ជាច្រេីន:
اَفَمَنْ كَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ كَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ وَاتَّبَعُوْۤا اَهْوَآءَهُمْ ۟
کیا پس وه شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل پر ہو اس شخص جیسا ہو سکتا ہے؟ جس کے لئے اس کا برا کام مزین کر دیا گیا ہو اور وه اپنی نفسانی خواہشوں کا پیرو ہو؟(1)
(1) برے کام سے مراد، شرک ومعصیت ہیں، مطلب وہی ہےجو پہلے بھی متعدد جگہ گزر چکا ہے کہ مومن وکافر، مشرک وموحد اور نیکو کار وبدکار برابر نہیں ہو سکتے۔ ایک کے لئے اللہ کےہاں اجر وثواب اور جنت کی نعمتیں ہیں، جب کہ دوسرے کے لئے جہنم کا ہولناک عذاب۔ اگلی آیت میں دونوں کا انجام بیان کیا جا رہا ہے۔ پہلے اس جنت کی خوبیاں اور محاسن، جن کا وعدہ متقین سے ہے۔
តាហ្វសៀរជាភាសា​អារ៉ាប់ជាច្រេីន:
مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ ؕ— فِیْهَاۤ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ ۚ— وَاَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهٗ ۚ— وَاَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ ۚ۬— وَاَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی ؕ— وَلَهُمْ فِیْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ ؕ— كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِی النَّارِ وَسُقُوْا مَآءً حَمِیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَآءَهُمْ ۟
اس جنت کی صفت جس کا پرہیزگاروں سے وعده کیا گیا ہے، یہ ہے کہ اس میں پانی کی نہریں ہیں جو بدبو کرنے واﻻ نہیں(1) ، اور دودھ کی نہریں ہیں جن کا مزه نہیں بدﻻ(2) اور شراب کی نہریں ہیں جن میں پینے والوں کے لئے بڑی لذت ہے(3) اور نہریں ہیں شہد کی جو بہت صاف ہیں(4) اور ان کے لئے وہاں ہر قسم کے میوے ہیں اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے، کیا یہ مثل اس کے ہیں جو ہمیشہ آگ میں رہنے واﻻ ہے؟ اور جنہیں گرم کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا.(5)
(1) آسِنٍ کے معنی، متغیر۔ یعنی بدل جانے والا، غیر آسن نہ بدلنے والا۔ یعنی دنیا میں تو پانی کسی ایک جگہ کچھ دیر پڑا رہے تو اس کا رنگ متغیر ہو جاتا ہے اور اس کی بو اور ذائقے میں تبدیلی آجاتی ہے جس سے وہ مضر صحت ہو جاتا ہے۔ جنت کے پانی کی یہ خوبی ہوگی کہ اس میں کوئی تغیر نہیں ہوگا۔ یعنی اس کی بو اور ذائقے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ جب پیو، تازہ، مفرح اور صحت افزا جب دنیا کا پانی خراب ہو سکتا ہے تو شریعت نے اسی لئے پانی کی بابت کہا ہے کہ یہ پانی اس وقت تک پاک ہے، جب تک اس کا رنگ یا بو نہ بدلے، کیونکہ رنگ یا بو متغیر ہونے کی صورت میں پانی ناپاک ہو جائے گا۔
(2) جس طرح دنیا میں وہ دودھ بعض دفعہ خراب ہو جاتا ہے جو گایوں، بھینسوں اور بکریوں وغیرہ کے تھنوں سے نکلتا ہے۔ جنت کا دودھ چونکہ اس طرح جانوروں کے تھنوں سے نہیں نکلے گا، بلکہ اس کی نہریں ہوں گی، اس لئے، جس طرح وہ نہایت لذیذ ہوگا، خراب ہونے سے بھی محفوظ ہوگا۔
(3) دنیا میں جو شراب ملتی ہے، وہ عام طور پر تلخ، بدمزہ اور بدبو دار ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں پی کر انسان بالعموم حواس باختہ ہو جاتا ہے، اول فول بکتا ہے اور اپنے جسم تک کا ہوش اسے نہیں رہتا۔ جنت کی شراب دیکھنے میں حسین، ذائقے میں اعلیٰ اور نہایت خوشبودار ہوگی اور اسے پی کر کوئی انسان بہکے گا، نہ کوئی گرانی محسوس کرے گا۔ بلکہ ایسی لذت وفرحت محسوس کرے گا جس کا تصور اس دنیا میں ممکن نہیں جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: «لا فِيهَا غَوْلٌ وَلا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُونَ» (سورة الصافات: 47) نہ اسے چکر آئے گا نہ عقل جائے گی۔ مزید دیکھئے (سورة الواقعة: 19)۔
(4) یعنی شہد میں بالعموم جن چیزوں کی آمیزش کا امکان رہتا ہے، جس کا مشاہدہ دنیا میں عام ہے جنت میں ایسا کوئی اندیشہ نہیں ہوگا۔ بالکل صاف شفاف ہوگا، کیونکہ یہ دنیا کی طرح مکھیوں سے حاصل کردہ نہیں ہوگا، بلکہ اس کی بھی نہریں ہوں گی۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے۔ نبی ﹲ نے فرمایا۔ جب بھی تم سوال کرو تو جنت الفردوس کی دعا کرو، اس لئے کہ وہ جنت کا درمیانہ اور اعلیٰ درجہ ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں اور اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے (صحيح بخاري ، كتاب الجهاد، باب درجات المجاهدين في سبيل الله)۔
(5) یعنی جن کو جنت میں وہ اعلیٰ درجے نصیب ہوں گے جو مذکور ہوئے کیا وہ ایسے جہنمیوں کے برابر ہیں جن کا یہ حال ہوگا؟ ظاہر بات ہے ایسا نہیں ہوگا۔ بلکہ ایک درجات میں ہوگا اور دوسرا درکات (جہنم) میں۔ ایک نعمتوں میں داد طرب وعیش دے رہاہوگا، دوسرا عذاب جہنم کی سختیاں جھیل رہا ہوگا۔ ایک اللہ کا مہمان ہوگا جہاں انواع واقسام کی چیزیں اس کی تواضع اور اکرام کے لئے ہوں گی اور دوسرا اللہ کا قیدی، جہاں اس کوکھانے کے زقوم جیسا تلخ وکسیلا کھانا اور پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی ملے گا۔
ببی تفاوت ره
از کجا است تابه کجا
តាហ្វសៀរជាភាសា​អារ៉ាប់ជាច្រេីន:
وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْكَ ۚ— حَتّٰۤی اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِكَ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا ۫— اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ وَاتَّبَعُوْۤا اَهْوَآءَهُمْ ۟
اور ان میں بعض (ایسے بھی ہیں کہ) تیری طرف کان لگاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب تیرے پاس سے جاتے ہیں تو اہل علم سے (بوجہ کند ذہنی وﻻپرواہی کے) پوچھتے ہیں کہ اس نے ابھی کیا کہا تھا(1) ؟ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر کر دی ہے اور وه اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں.
(1) یہ منافقین کا ذکر ہے، ان کی نیت چونکہ صحیح نہیں ہوتی تھی، اس لئے نبی (صلى الله عليه وسلم) کی باتیں بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں وہ مجلس سے باہر آکر صحابہ (رضي الله عنهم) سے پوچھتے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم)نے کیا فرمایا؟
តាហ្វសៀរជាភាសា​អារ៉ាប់ជាច្រេីន:
وَالَّذِیْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًی وَّاٰتٰىهُمْ تَقْوٰىهُمْ ۟
اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ نے انہیں ہدایت میں اور بڑھا دیا ہے اور انہیں ان کی پرہیزگاری عطا فرمائی ہے.(1)
(1) یعنی جن کی نیت ہدایت حاصل کرنے کی ہوتی ہے تو اللہ ان کو ہدایت کی توفیق بھی دے دیتا ہے اور ان کو اس پر ثابت قدمی بھی عطا فرماتا ہے۔
តាហ្វសៀរជាភាសា​អារ៉ាប់ជាច្រេីន:
فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً ۚ— فَقَدْ جَآءَ اَشْرَاطُهَا ۚ— فَاَنّٰی لَهُمْ اِذَا جَآءَتْهُمْ ذِكْرٰىهُمْ ۟
تو کیا یہ قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وه ان کے پاس اچانک آجائے یقیناً اس کی علامتیں تو آچکی ہیں(1) ، پھر جبکہ ان کے پاس قیامت آجائے انہیں نصیحت کرنا کہاں ہوگا؟(2)
(1) یعنی نبی (صلى الله عليه وسلم)کی بعثت بجائے خود قرب قیامت کی ایک علامت ہے، جیسا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے بھی فرمایا بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ (صحيح بخاري تفسير سورة النازعات”میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہے“۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے اشارہ کرکے واضح فرمایا کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں باہم ملی ہوئی ہیں، اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان فاصلہ نہیں ہے یا یہ کہ جس طرح ایک انگلی دوسری انگلی سے ذرا سا آگے ہے اسی طرح قیامت میرے ذرا سا بعد ہے۔ (2) یعنی جب قیامت اچانک آجائے گی تو کافر کس طرح نصیحت حاصل کر سکیں گے؟ مطلب ہے کہ اس وقت اگر وہ توبہ کریں گے بھی تو وہ مقبول نہیں ہوگی۔ اس لئے اگر توبہ کرنی ہے تو یہی وقت ہے۔ ورنہ وہ وقت بھی آسکتا ہے کہ ان کی توبہ بھی غیر مفید ہوگی۔
តាហ្វសៀរជាភាសា​អារ៉ាប់ជាច្រេីន:
فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ؕ— وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوٰىكُمْ ۟۠
سو (اے نبی!) آپ یقین کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں(1) اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی(2)، اللہ تم لوگوں کی آمد ورفت کی اور رہنے سہنے کی جگہ کو خوب جانتا ہے.(3)
(1) یعنی اس عقیدےپر ثابت اور قائم رہیں، کیونکہ یہی توحید اور اطاعت الٰہی، مدار خیر ہے اور اس سے انحراف یعنی شرک اور معصیت، مدار شر ہے۔
(2) اس میں نبی (صلى الله عليه وسلم) کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے، اپنے لئے بھی اور مومنین کے لئے بھی۔ استغفار کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔ احادیث میں بھی اس پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں نبی ﹲ نے فرمایا «يَا أَيُّهَا النَّاسُ! تُوبُوا إِلَى رَبِّكُمْ فَإِنِّي أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً»(صحيح بخاري، كتاب الدعوات ، باب استغفار النبي في اليوم والليلة) ”لوگو ! بارگاہ الٰہی میں توبہ واستغفار کیا کرو، میں بھی اللہ کے حضور روزانہ ستر مرتبہ سے زیادہ توبہ واستغفار کرتا ہوں“۔
(3) یعنی دن کو تم جہاں پھرتے اورجو کچھ کرتے ہو اور رات کو جہاں آرام کرتے اور استقرار پکڑتے ہو، اللہ تعالیٰ جانتاہے۔ مطلب ہے شب وروز کی کوئی سرگرمی اللہ سے مخفی نہیں ہے۔
តាហ្វសៀរជាភាសា​អារ៉ាប់ជាច្រេីន:
 
ការបកប្រែអត្ថន័យ ជំពូក​: មូហាំម៉ាត់
សន្ទស្សន៍នៃជំពូក លេខ​ទំព័រ
 
ការបកប្រែអត្ថន័យគួរអាន - ការបកប្រែជាភាសាអ៊ូរឌូ - ម៉ូហាំម៉ាត់ ជូណាគ្រី - សន្ទស្សន៍នៃការបកប្រែ

បានបកប្រែដោយលោកម៉ូហាំម៉ាត់ អុីព្រហុីម ជូណាគ្រី។ ត្រូវបានអភិវឌ្ឍន៍ដោយការត្រួតពិនិត្យនៃមជ្ឍមណ្ឌលបកប្រែរ៉ូវ៉ាទ ការបកប្រែដើមអាចចូលមើលបានក្នុងគោលបំណងផ្តល់យោបល់ វាយតម្លៃ និងអភិវឌ្ឍន៍បន្ត។

បិទ