Check out the new design

وه‌رگێڕانی ماناكانی قورئانی پیرۆز - وەرگێڕاوی ئۆردی - محمد جوناكری * - پێڕستی وه‌رگێڕاوه‌كان

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

وه‌رگێڕانی ماناكان سوره‌تی: البقرة   ئایه‌تی:
وَقَالُوْا كُوْنُوْا هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی تَهْتَدُوْا ؕ— قُلْ بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰهٖمَ حَنِیْفًا ؕ— وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ ۟
یہ کہتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے۔ تم کہو بلکہ صحیح راه پر ملت ابراہیمی والے ہیں، اور ابراہیم خالص اللہ کے پرستار تھے اور مشرک نہ تھے۔(1)
(1) یہودی، مسلمانوں کو یہودیت کی اور عیسائی، عیسائیت کی دعوت دیتے اور کہتے کہ ہدایت اسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہو ہدایت ملت ابراہیم کی پیروی میں ہے جو حنیف تھا (یعنی الٰہ واحد کا پرستار اور سب سے کٹ کر اسی کی عبادت کرنے والا) اور وہ مشرک نہیں تھا۔ جب کہ یہودیت اور عیسائیت دونوں میں شرک کی آمیزش موجود ہے۔ اور اب بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی شرک کے مظاہر عام ہیں، اسلام کی تعلیمات اگرچہ بحمداللہ قرآن وحدیث میں محفوظ ہیں، جن میں توحید کا تصور بالکل بےغبار اور نہایت واضح ہے، جس سے یہودیت، عیسائیت اور ثنویت (دو خداؤں کے قائل مذاہب) سے اسلام کا امتیاز نمایاں ہے لیکن مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے اعمال وعقائد مین جو مشرکانہ اقدار وتصورات در آئے ہیں، اس نے اسلام کے امتیاز کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا ہے۔ کیوں کہ غیر مذاہب والوں کی دسترس براہ راست قرآن وحدیث تک تو نہیں ہوسکتی، وہ تو مسلمانوں کے عمل کو دیکھ کر ہی یہ اندازہ کریں گے کہ اسلام میں اور دیگر مشرکانہ تصورات سے آلودہ مذاہب کے مابین تو کوئی امتیاز ہی نظر نہیں آتا۔ اگلی آیت میں ایمان کا معیار بتلایا جارہا ہے۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَمَاۤ اُنْزِلَ اِلٰۤی اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی وَمَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ— لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ ؗ— وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ ۟
اے مسلمانو! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان ﻻئے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی اور جو چیز ابراہیم اسماعیل اسحاق یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اوﻻد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) اور دوسرے انبیا (علیہم السلام) دیئے گئے۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے، ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں۔(1)
(1) یعنی ایمان یہ ہے کہ تمام انبیا (عليهم السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو جو کچھ بھی ملا،یا نازل ہوا سب پر ایمان لایا جائے، کسی بھی کتاب یا رسول کا انکار نہ کیا جائے۔ کسی ایک کتاب یا نبی کا ماننا، کسی کو نہ ماننا، یہ انبیا کے درمیان تفریق ہے جس کو اسلام نے جائز نہیں رکھا ہے۔ البتہ عمل اب صرف قرآن کریم کے ہی احکام پر ہوگا۔ پچھلی کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں پر نہیں کیوں کہ ایک تووہ اصلی حالت میں نہیں رہیں، تحریف شدہ ہیں، دوسرے قرآن نے ان سب کو منسوخ کردیا ہے۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا ۚ— وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍ ۚ— فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُ ۚ— وَهُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۟ؕ
اگر وه تم جیسا ایمان ﻻئیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منھ موڑیں تو وه صریح اختلاف میں ہیں، اللہ تعالی ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے گا(1) اور وه خوب سننے اور جاننے واﻻ ہے۔
(1) صحابہ کرام (رضي الله عنهم) بھی اسی مذکورہ طریقے پر ایمان لائے تھے، اس لئے صحابہ (رضي الله عنهم) کی مثال دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ اسی طرح ایمان لائیں جس طرح اے صحابہ (رضي الله عنهم) ! تم ایمان لائے ہو تو پھر یقیناً وہ ہدایت یافتہ ہوجائیں گے۔ اگر وہ ضد اور اختلاف میں منہ موڑیں گے، تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ان کی سازشیں آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی کیوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی کفایت کرنے والا ہے۔ چنانچہ چند سالوں میں ہی یہ وعدہ پورا ہوا اور بنوقینقاع اور بنونضیر کو جلاوطن کردیا گیا اور بنوقریظہ قتل کئے گئے۔ تاریخی روایات میں ہے کہ حضرت عثمان (رضي الله عنه) کی شہادت کے وقت ایک مصحف عثمان ان کی اپنی گود میں تھا اور اس آیت کے جملہ «فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ» پر ان کے خون کے چھینٹے گرے بلکہ دھار بھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مصحف آج بھی ترکی میں موجود ہے۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
صِبْغَةَ اللّٰهِ ۚ— وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً ؗ— وَّنَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ ۟
اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ سے اچھا رنگ کس کا ہوگا؟(1) ہم تو اسی کی عبادت کرنے والے ہیں۔
(1) یسائیوں نے ایک زرد رنگ کا پانی مقرر کر رکھا ہے جو ہر عیسائی بچے کو بھی اور ہر اس شخص کو بھی دیا جاتا ہے جس کو عیسائی بنانا مقصود ہوتا ہے، اس رسم کا نام ان کے ہاں (بپتسمہ) ہے۔ یہ ان کے نزدیک بہت ضروری ہے، اس کے بغیر وہ کسی کو پاک تصور نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی اور کہا کہ اصل رنگ تو اللہ کا رنگ ہے، اس سے بہتر کوئی رنگ نہیں اور اللہ کے رنگ سے مراد وہ دین فطرت یعنی دین اسلام ہے، جس کی طرف ہر نبی نے اپنے اپنے دور میں اپنی اپنی امتوں کو دعوت دی۔ یعنی دعوت توحید۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
قُلْ اَتُحَآجُّوْنَنَا فِی اللّٰهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۚ— وَلَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ۚ— وَنَحْنُ لَهٗ مُخْلِصُوْنَ ۟ۙ
آپ کہہ دیجیئے کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو جو ہمارا اور تمہارا رب ہے، ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، ہم تو اسی کے لئے مخلص ہیں۔(1)
(1) کیا تم ہم سے اس بارے میں جھگڑتے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اسی کے لئے اخلاص ونیاز مندی کے جذبات رکھتے ہیں اور اس کے اوامر کا اتباع اور زواجر سے اجتناب کرتے ہیں، حالانکہ وہ ہمارا رب ہی نہیں، تمہارا بھی ہے اور تمہیں بھی اس کے ساتھ یہی معاملہ کرنا چاہیے جو ہم کرتے ہیں اور اگر تم ایسا نہیں کرتے توتمہارا عمل تمہارے ساتھ، ہمارا عمل ہمارے ساتھ۔ ہم تو اسی کے لئے اخلاص عمل کا اہتمام کرنے والے ہیں۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ كَانُوْا هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی ؕ— قُلْ ءَاَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰهُ ؕ— وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٗ مِنَ اللّٰهِ ؕ— وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ۟
کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اوﻻد یہودی یا نصرانی تھے؟ کہہ دو کہ کیا تم زیاده جانتے ہو، یا اللہ تعالیٰ؟(1) اللہ کے پاس شہادت چھپانے والے سے زیاده ﻇالم اور کون ہے؟ اور اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں۔(2)
(1) تم کہتے ہو کہ یہ انبیا اور ان کی اولاد یہودی یا عیسائی تھی، جب کہ اللہ تعالیٰ اس کی نفی فرماتا ہے۔ اب تم ہی بتلاؤ کہ زیادہ علم اللہ کو ہے یا تمہیں؟
(2) تمہیں معلوم ہے کہ یہ انبیا یہودی یا عیسائی نہیں تھے، اسی طرح تمہاری کتابوں میں آنحضرت (صلى الله عليه وسلم) کی نشانیاں بھی موجود ہیں، لیکن تم ان شہادتوں کو لوگوں سے چھپا کر ایک بڑے ظلم کا ارتکاب کر رہے ہو جو اللہ تعالیٰ سےمخفی نہیں۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۚ— لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ ۚ— وَلَا تُسْـَٔلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۟۠
یہ امت ہے جو گزرچکی، جو انہوں نے کیا ان کے لئے ہے اور جو تم نے کیا تمہارے لئے، تم ان کےاعمال کے بارے میں سوال نہ کئے جاؤ گے۔(1)
(1) اس آیت میں پھر کسب وعمل کی اہمیت بیان فرما کر بزرگوں کی طرف انتساب یا ان پر اعتماد کو بےفائدہ قرار دیا گیا۔ کیوں کہ «مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه» (صحيح مسلم كتاب الذكر والدعاء باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن) ”جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا، اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھائے گا۔“ مطلب ہے کہ اسلاف کی نیکیوں سے تمہیں کوئی فائدہ اور ان کے گناہوں پر تم سے مواخذہ نہیں ہوگا، بلکہ ان کے عملوں کی بابت تم سے یا تمہارے عملوں کی بابت ان سے نہیں پوچھا جائے گا۔ «وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى» (فاطر۔ 18) «وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى»(النجم۔39) ”کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی سعی اس نے کی۔“
تەفسیرە عەرەبیەکان:
 
وه‌رگێڕانی ماناكان سوره‌تی: البقرة
پێڕستی سوره‌ته‌كان ژمارەی پەڕە
 
وه‌رگێڕانی ماناكانی قورئانی پیرۆز - وەرگێڕاوی ئۆردی - محمد جوناكری - پێڕستی وه‌رگێڕاوه‌كان

وەرگێڕاوی لە لایەن محەمەد ئیبراهیم جوناكری. پەرەیپێدراوە بە سەرپەرشتیاری ناوەندی ڕوواد بۆ وەرگێڕان، پیشاندانی وەرگێڕاوە سەرەکیەکە لەبەردەستە بۆ ڕا دەربڕین لەسەری وهەڵسەنگاندنی وپێشنیارکردنی پەرەپێدانی بەردەوام.

داخستن