Check out the new design

وه‌رگێڕانی ماناكانی قورئانی پیرۆز - وەرگێڕاوی ئۆردی - محمد جوناكری * - پێڕستی وه‌رگێڕاوه‌كان

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

وه‌رگێڕانی ماناكان سوره‌تی: البقرة   ئایه‌تی:
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ؕ— ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ— وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ— فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰی فَلَهٗ مَا سَلَفَ ؕ— وَاَمْرُهٗۤ اِلَی اللّٰهِ ؕ— وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ— هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ ۟
سود خور(1) لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے(2) یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے(3)، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام، جو شخص اپنے پاس آئی ہوئی اللہ تعالیٰ کی نصیحت سن کر رک گیا اس کے لئے وہ ہے جو گزرا(4) اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے(5)، اور جو پھر دوبارہ ﴿حرام کی طرف﴾ لوٹا، وہ جہنمی ہے، ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے۔
(1) رِبَا کے لغوی معنی زیادتی اور اضافے کے ہیں۔ اور شریعت میں اس کا اطلاق "رِبَا الْفَضْلِاوررِبَا النَّسِيئَةِ" پر ہوتا ہے۔ "رِبَا الْفَضْلِ"، اس سود کو کہتے ہیں جو چھ اشیا میں کمی بیشی یا نقد وادھار کی وجہ سے ہوتا ہے (جس کی تفصیل حدیث میں ہے، مثلاً گندم کا تبادلہ گندم سے کرنا ہے تو فرمایا گیا ہے کہ ایک تو برابر برابر ہو۔ دوسرے يَدًا بِيَدٍ( ہاتھوں ہاتھ) ہو۔ اس میں کمی بیشی ہوگی تب بھی اور ہاتھوں ہاتھ ہونے کی بجائے، ایک نقد اور دوسرا ادھار یا دونوں ہی ادھار ہوں، تب بھی سود ہے) "رِبَا النَّسِيئَةِ" کا مطلب ہے کسی کو (مثلاً) 6 مہینے کے لئے اس شرط پر سو روپے دینا، کہ واپسی 125 روپے ہوگی۔ 25روپے 6 مہینے کی مہلت کے لئے جائیں حضرت علی (رضي الله عنه) کی طرف منسوب قول میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ "كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ رِبًا" (فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج 5، ص 28 ) ”قرض پر لیا گیا نفع سود ہے“، یہ قرضہ ذاتی ضرورت کے لئے لیا گیا ہو یا کاروبار کے لئے دونوں قسم کے قرضوں پر لیا گیا سود حرام ہے اور زمانۂ جاہلیت میں بھی دونوں قسم کے قرضوں کا رواج تھا۔ شریعت نے بغیر کسی قسم کی تفریق کے دونوں کو مطلقاً حرام قرار دیا ہے۔ اس لئے بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ تجارتی قرضہ (جو عام طور پر بنک سے لیا جاتا ہے) اس پر اضافہ، سود نہیں ہے۔ اس لئے کہ قرض لینے والا اس سے فائدہ اٹھاتا ہے جس کا کچھ حصہ وہ بنک کو یا قرض دہندہ کو لوٹا دیتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ اس کی قباحت ان متجددین کو نظر نہیں آتی جو اس کو جائز قرار دینا چاہتے ہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں تو اس میں بڑی قباحتیں ہیں۔ مثلاً قرض لے کر کاروبار کرنے والے کا منافع تو یقینی نہیں ہے۔ بلکہ، منافع تو کجا اصل رقم کی حفاظت کی بھی ضمانت نہیں ہے۔ بعض دفعہ کاروبار میں ساری رقم ہی ڈوب جاتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس قرض دہندہ (چاہے وہ بنک ہو یا کوئی ساہوکار) کا منافع متعین ہے جس کی ادائیگی ہر صورت میں لازمی ہے۔ یہ ظلم کی ایک واضح صورت ہے جسے شریعت اسلامیہ کس طرح جائز قرار دے سکتی ہے؟ علاوہ ازیں شریعت تو اہل ایمان کو معاشرے کے ضرورت مندوں پر بغیر کسی دنیوی غرض ومنفعت کے خرچ کرنے کی ترغیب دیتی ہے، جس سے معاشرے میں اخوت، بھائی چارے، ہمدردی، تعاون اور شفقت و محبت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ اس کے برعکس سودی نظام سے سنگ دلی اور خود غرضی کو فروغ ملتا ہے۔ ایک سرمائے دار کو اپنے سرمائے کے نفع سے غرض ہوتی ہے چاہے معاشرے میں ضرورت مند، بیماری، بھوک، افلاس سے کراہ رہے ہوں یا بےروزگار اپنی زندگی سے بیزار ہوں۔ شریعت اس شقاوت سنگ دلی کو کس طرح پسند کرسکتی ہے؟ اس کے اور بہت سے نقصانات ہیں، تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ بہرحال سود مطلقاً حرام ہے چاہے ذاتی ضرورت کے لئے لئے گئے قرضے کا سود ہو یا تجارتی قرضے پر۔
(2) سود خور کی یہ کیفیت قبر سے اٹھتے وقت یا میدان محشر میں ہوگی۔
(3) حالانکہ تجارت میں تو نقد رقم اور کسی چیز کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے۔ دوسرے اس میں نفع نقصان کا امکان رہتا ہے، جب کہ سود میں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں، علاوہ ازیں بیع کو اللہ نے حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ پھر یہ دونوں ایک کس طرح قبول ہوسکتے ہیں؟
(4) قبول ایمان یا توبہ کے بعد پچھلے سود پر گرفت نہیں ہوگی۔
(5) کہ وہ توبہ پر ثابت قدم رکھتا ہو یا سؤ عمل اور فسادنیت کی وجہ سے اسے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ اسی لئے اس کے بعد دوبارہ سود لینے والے کے لئے وعید ہے۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ ؕ— وَاللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ ۟
اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے(1) اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے اور گنہگار سے محبت نہیں کرتا۔
(1) یہ سود کی معنوی اور روحانی مضرتوں اور صدقے کی برکتوں کا بیان ہے۔ سود میں بظاہر بڑھوتری نظر آتی ہے لیکن معنوی حساب سے یا مال (انجام) کے اعتبار سے سودی رقم ہلاکت و بربادی ہی کا باعث بنتی ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف اب یورپی ماہرین معیشت بھی کرنے لگے ہیں۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ— وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ ۟
بے شک جو لوگ ایمان کے ساتھ ﴿سنت کے مطابق﴾ نیک کام کرتے ہیں، نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب تعالیٰ کے پاس ہے، ان پر نہ تو کوئی خوف ہے، نہ اداسی اور غم۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۟
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ— وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ— لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ۟
اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ(1) ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا(2)۔
(1) یہ ایسی سخت وعید ہے جو اور کسی معصیت کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ اس لئے حضرت عبداللہ بن عباس (رضي الله عنه) نے کہا ہے کہ اسلامی مملکت میں جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو، تو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑا دے۔ (ابن کثیر )
(2) تم اگر اصل زر سے زیادہ وصول کرو گے تو یہ تمہاری طرف سے ظلم ہوگا اور اگر تمہیں اصل زر بھی نہ دیا جائے تو یہ تم پر ظلم ہوگا۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰی مَیْسَرَةٍ ؕ— وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۟
اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے اور صدقہ کرو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے(1) ، اگر تم میں علم ہو۔
(1) زمانۂ جاہلیت میں قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں سود در سود، اصل رقم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا تھا، جس سے وہ تھوڑی سی رقم ایک پہاڑ بن جاتی اور اس کی ادائیگی ناممکن ہوجاتی۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ کوئی تنگ دست ہو تو (سود لینا تو درکنار اصل مال لینے میں بھی) آسانی تک اسے مہلت دے دو اور اگر قرض بالکل ہی معاف کر دو تو زیادہ بہتر ہے، احادیث میں بھی اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ کتنا فرق ہے ان دونوں نظاموں میں ؟ ایک سراسر ظلم، سنگ دلی اور خود غرضی پر مبنی نظام اور دوسرا ہمدردی، تعاون اور ایک دوسرے کو سہارا دینے والا نظام۔ مسلمان خود ہی اس بابرکت اور پررحمت نظام الٰہی کو نہ اپنائیں تو اس میں اسلام کا کیا قصور اور اللہ پر کیا الزام ؟ کاش مسلمان اپنے دین کی اہمیت و افادیت کو سمجھ سکیں اور اس پر اپنے نظام زندگی کو استوار کرسکیں۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَی اللّٰهِ ۫— ثُمَّ تُوَفّٰی كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ۟۠
اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤگے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔(1)
(1) بعض آثار میں ہے کہ یہ قرآن کریم کی آخری آیت ہے جو نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) پر نازل ہوئی، اس کے چند دن بعد ہی آپ (صلى الله عليه وسلم) دنیا سے رحلت فرما گئے۔ (ابن کثیر )
تەفسیرە عەرەبیەکان:
 
وه‌رگێڕانی ماناكان سوره‌تی: البقرة
پێڕستی سوره‌ته‌كان ژمارەی پەڕە
 
وه‌رگێڕانی ماناكانی قورئانی پیرۆز - وەرگێڕاوی ئۆردی - محمد جوناكری - پێڕستی وه‌رگێڕاوه‌كان

وەرگێڕاوی لە لایەن محەمەد ئیبراهیم جوناكری. پەرەیپێدراوە بە سەرپەرشتیاری ناوەندی ڕوواد بۆ وەرگێڕان، پیشاندانی وەرگێڕاوە سەرەکیەکە لەبەردەستە بۆ ڕا دەربڕین لەسەری وهەڵسەنگاندنی وپێشنیارکردنی پەرەپێدانی بەردەوام.

داخستن