Check out the new design

وه‌رگێڕانی ماناكانی قورئانی پیرۆز - وەرگێڕاوی ئۆردی - محمد جوناكری * - پێڕستی وه‌رگێڕاوه‌كان

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

وه‌رگێڕانی ماناكان سوره‌تی: فاطر   ئایه‌تی:
وَالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ بِعِبَادِهٖ لَخَبِیْرٌ بَصِیْرٌ ۟
اور یہ کتاب جو ہم نے آپ کے پاس وحی کے طور پر بھیجی ہے یہ بالکل ٹھیک(1) ہے جو کہ اپنے سے پہلی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے(2)۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی پوری خبر رکھنے واﻻ خوب دیکھنے واﻻ ہے.(3)
(1) یعنی جس پر تیرے لئے اور تیری امت کے لئے عمل کرنا ضروری ہے۔
(2) تورات اور انجیل وغیرہ کی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم اس اللہ کا نازل کردہ ہے جس نے پچھلی کتابیں نازل کی تھیں، جب ہی تو دونوں ایک دوسرے کی تائید وتصدیق کرتی ہیں۔
(3) یہ اس کے علم و خبر ہی کا نتیجہ ہے کہ اس نے نئی کتاب نازل فرما دی، کیونکہ وہ جانتا ہے، پچھلی کتابیں تحریف و تغیر کا شکار ہوگئی ہیں اور اب وہ ہدایت کے قابل نہیں رہی ہیں۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ— فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۚ— وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ۚ— وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ؕ— ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُ ۟ؕ
پھر ہم نے ان لوگوں کو (اس) کتاب(1) کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے پسند فرمایا۔ پھر بعضے تو ان میں اپنی جانوں پر ﻇلم کرنے والے ہیں(2) اور بعضے ان میں متوسط درجے کے ہیں(3) اور بعضے ان میں اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں ترقی کئے چلے جاتے ہیں(4)۔ یہ بڑا فضل ہے.(5)
(1) کتاب سے مراد قرآن اور چنے ہوئے بندوں سے مراد امت محمدیہ ہے۔ یعنی اس قرآن کا وارث ہم نے امت محمدیہ کو بنایا ہے جسے ہم نے دوسری امتوں کے مقابلے میں چن لیا اور اسے شرف وفضل سے نوازا۔ یہ تقریباً وہی مفہوم ہے جو آیت«وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ»(البقرة: 143) کا ہے۔
(2) امت محمدیہ کی تین قسمیں بیان فرمائیں۔ یہ پہلی قسم ہے، جس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو بعض فرائض میں کوتاہی اور بعض محرمات کا ارتکاب کرلیتے ہیں یا بعض کے نزدیک وہ ہیں جو صغائر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ انہیں اپنے نفس پر ظلم کرنے والا اس لئے کہا کہ وہ اپنی کچھ کوتاہیوں کی وجہ سے اپنے کو اس اعلیٰ درجے سے محروم کرلیں گے جو باقی دو قسموں کو حاصل ہوں گے۔
(3) یہ دوسری قسم ہے، یعنی ملے جلے عمل کرتے ہیں یا بعض کے نزدیک وہ ہیں جو فرائض کے پابند، محرمات کے تارک تو ہیں لیکن کبھی مستحبات کا ترک اور بعض محرمات کا ارتکاب بھی ان سے ہوجاتا ہے یا وہ ہیں جو نیک تو ہیں لیکن پیش پیش نہیں ہیں۔
(4) یہ وہ ہیں جو دین کے معاملے میں پچھلے دونوں سے سبقت کرنے والے ہیں۔
(5) یعنی کتاب کا وارث کرنا اور شرف وفضل میں ممتاز (مصطفیٰ) کرنا۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّلُؤْلُؤًا ۚ— وَلِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ ۟
وه باغات میں ہمیشہ رہنے کے جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے سونے(1) کے کنگن اور موتی پہنائے جاویں گے۔ اور پوشاک ان کی وہاں ریشم کی ہوگی.(2)
(1) بعض کہتے ہیں کہ جنت میں صرف سابقون جائیں گے، لیکن یہ صحیح نہیں۔ قرآن کا سیاق اس امر کا متقاضی ہے کہ تینوں قسمیں جنتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سابقین بغیر حساب کتاب کے اور مقتصدین آسان حساب کے بعد اور ظالمین شفاعت سے یا سزا بھگتنے کے بعد جنت میں جائیں گے۔ جیسا کہ احادیث سے واضح ہے۔ محمد بن حنفیہ کا قول ہے یہ امت مرحومہ ہے، ظالم یعنی گناہگار کی مغفرت ہوجائے گی، مقتصد، اللہ کے ہاں جنت میں ہوگا اور سباق بالخیرات درجات عالیہ پر فائز ہوگا۔ (ابن کثیر)۔
(2) حدیث میں آتا ہے کہ (ریشم اور دیباج دنیا میں مت پہنو، اس لئے کہ جو اسے دنیا میں پہنے گا، وہ اسے آخرت میں نہیں پہنے گا)۔ (صحيح بخاري، وصحيح مسلم، كتاب اللباس)۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ؕ— اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُ ۟ۙ
اور کہیں گے کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے ہم سے غم دور کیا۔ بےشک ہمارا پروردگار بڑا بخشنے واﻻ بڑا قدردان ہے.
تەفسیرە عەرەبیەکان:
١لَّذِیْۤ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهٖ ۚ— لَا یَمَسُّنَا فِیْهَا نَصَبٌ وَّلَا یَمَسُّنَا فِیْهَا لُغُوْبٌ ۟
جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ رہنے کے مقام میں ﻻ اتارا جہاں نہ ہم کو کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ ہم کو کوئی خستگی پہنچے گی.
تەفسیرە عەرەبیەکان:
وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ ۚ— لَا یُقْضٰی عَلَیْهِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ؕ— كَذٰلِكَ نَجْزِیْ كُلَّ كَفُوْرٍ ۟ۚ
اور جو لوگ کافر ہیں ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے نہ تو ان کی قضا ہی آئے گی کہ مر ہی جائیں اور نہ دوزخ کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا۔ ہم ہر کافر کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں.
تەفسیرە عەرەبیەکان:
وَهُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْهَا ۚ— رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ ؕ— اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا یَتَذَكَّرُ فِیْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَآءَكُمُ النَّذِیْرُ ؕ— فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ ۟۠
اور وه لوگ اس میں چلائیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو نکال لے ہم اچھے کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو کیا کرتے تھے(1) ، (اللہ کہے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا(2) وه سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے واﻻ بھی پہنچا تھا(3)، سو مزه چکھو کہ (ایسے) ﻇالموں کا کوئی مددگار نہیں.
(1) یعنی غیروں کی بجائے تیری عبادت اور معصیت کی بجائے اطاعت کریں گے۔
(2) اس سے مراد کتنی عمر ہے؟ مفسرین نے مختلف عمریں بیان کی ہیں۔ بعض نے احادیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ 60 سال کی عمر مراد ہے۔ (ابن کثیر) لیکن ہمارے خیال میں عمر کی تعیین صحیح نہیں، اس لئے کہ عمریں مختلف ہوتی ہیں، کوئی جوانی میں، کوئی کہولت میں اور کوئی بڑھاپے میں فوت ہوتا ہے، پھر یہ ادوار بھی لمحۂ گزراں کی طرح مختصر نہیں ہوتے، بلکہ ہر دور خاصا ممتد (لمبا) ہوتا ہے۔ مثلاً جوانی کا دور، بلوغت سے کہولت تک اور کہولت کا دور شیخوخت بڑھاپے تک اور بڑھاپے کا دور موت تک رہتا ہے۔ کسی کو سوچ بچار، نصیحت خیزی اور اثر پذیری کے لئے چند سال، کسی کو اس سے زیادہ اور کسی کو اس سے بھی زیادہ سال ملتے ہیں اور سب سے یہ سوال کرنا صحیح ہوگا کہ ہم نے تجھے اتنی عمر دی تھی کہ اگر تو حق کو سمجھنا چاہتا تو سمجھ سکتا تھا، پھر تونے حق کو سمجھنے اور اسے اختیار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
(3) اس سے مراد نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) ہیں۔ یعنی یاددہانی اور نصیحت کے لئے پیغمبر (صلى الله عليه وسلم) اور اس کے منبرومحراب کے وارث علما اور دعاۃ تیرے پاس آئے، لیکن تونے اپنی عقل وفہم سے کام لیا نہ داعیان حق کی باتوں کی طرف دھیان کیا۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ؕ— اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ۟
بےشک اللہ تعالیٰ جاننے واﻻ ہے آسمانوں اور زمین کی پوشیده چیزوں کا(1) ، بےشک وہی جاننے واﻻ ہے سینوں کی باتوں کا.(2)
(1) یہاں یہ بیان کرنے کا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم دوبارہ دنیا میں جانے کی آرزو کر رہے ہو اور دعویٰ کر رہے ہو کہ اب نافرمانی کی جگہ اطاعت اور شرک کی جگہ توحید اختیار کرو گے۔ لیکن ہمیں علم ہے کہ تم ایسا نہیں کرو گے۔ تمہیں اگر دنیا میں دوبارہ بھیج بھی دیا جائے، تو تم وہی کچھ کرو گے جو پہلے کرتے رہے ہو۔ جیسے دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا «وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ» (الأنعام: 28) ”اگر انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہی کام کریں گے جن سے انہیں منع کیا گیا تھا“۔
(2) یہ پچھلی بات کی تعلیل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو آسمان اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم کیوں نہ ہو، جب کہ وہ سینوں کی باتوں اور رازوں سے بھی واقف ہے جو سب سے زیادہ مخفی ہوتے ہیں۔
تەفسیرە عەرەبیەکان:
 
وه‌رگێڕانی ماناكان سوره‌تی: فاطر
پێڕستی سوره‌ته‌كان ژمارەی پەڕە
 
وه‌رگێڕانی ماناكانی قورئانی پیرۆز - وەرگێڕاوی ئۆردی - محمد جوناكری - پێڕستی وه‌رگێڕاوه‌كان

وەرگێڕاوی لە لایەن محەمەد ئیبراهیم جوناكری. پەرەیپێدراوە بە سەرپەرشتیاری ناوەندی ڕوواد بۆ وەرگێڕان، پیشاندانی وەرگێڕاوە سەرەکیەکە لەبەردەستە بۆ ڕا دەربڕین لەسەری وهەڵسەنگاندنی وپێشنیارکردنی پەرەپێدانی بەردەوام.

داخستن