Check out the new design

Tradução dos significados do Nobre Qur’an. - Tradução em Urdu - Muhammad Gunakry * - Índice de tradução

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Tradução dos significados Surah: Al-Baqarah   Versículo:
وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَاَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ ۟
اورجب ہم نے تم سے وعده لیا کہ آپس میں خون نہ بہانا (قتل نہ کرنا) اور آپس والوں کو جلا وطن نہ کرنا، تم نے اقرار کیا اور تم اس کے شاہد بنے۔(1)
(1) ان آیات میں پھر وہ عہد بیان کیا جارہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا، لیکن اس سے بھی انہوں نے اعراض ہی کیا۔ اس عہد میں اولاً صرف ایک اللہ کی عبادت کی تاکید ہے جو ہر نبی کی بنیادی اور اولین دعوت رہی ہے (جیسا کہ سورۂ الانبیاء آیت اور دیگر آیات سے واضح ہے) اس کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے اللہ کی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کی اطاعت وفرماں برداری اور ان کےساتھ حسن سلوک کی تاکید سے واضح کردیا گیا کہ جس طرح اللہ کی عبادت بہت ضروری ہے، اسی طرح اس کے بعد والدین کی اطاعت بھی بہت ضروری ہے اور اس میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کی اطاعت کا ذکر کرکے اس کی اہمیت کو واضح کردیا ہے، اس کے بعد رشتے داروں، یتیموں اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور حسن گفتار کا حکم ہے، اسلام میں بھی ان باتوں کی بڑی تاکید ہے، جیسا کہ احادیث رسول (صلى الله عليه وسلم) سے واضح ہے۔ اس عہد میں اقامت صلٰوۃ اور ایتائے زکٰوۃ کا بھی حکم ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں عبادتیں پچھلی شریعتوں میں بھی موجود رہی ہیں جن سے ان کی اہمیت واضح ہے۔ اسلام میں بھی یہ دونوں عبادتیں نہایت اہم ہیں، حتیٰ کہ ان میں سے کسی ایک کے ا نکار، یا اس سے اعراض کو کفر کے مترادف سمجھا گیا ہے، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضي الله عنه) کے عہد خلافت میں مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے سے واضح ہے۔
Os Tafssir em língua árabe:
ثُمَّ اَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْكُمْ مِّنْ دِیَارِهِمْ ؗ— تَظٰهَرُوْنَ عَلَیْهِمْ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ؕ— وَاِنْ یَّاْتُوْكُمْ اُسٰرٰی تُفٰدُوْهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْكُمْ اِخْرَاجُهُمْ ؕ— اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ۚ— فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۚ— وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُرَدُّوْنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الْعَذَابِ ؕ— وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ۟
لیکن پھر بھی تم نے آپس میں قتل کیا اورآپس کے ایک فرقے کو جلا وطن بھی کیا اور گناه اور زیادتی کے کاموں میں ان کے خلاف دوسرے کی طرفداری کی، ہاں جب وه قیدی ہو کر تمہارے پاس آئے تو تم نے ان کے فدیے دیئے، لیکن ان کا نکالنا جو تم پر حرام تھا (اس کا کچھ خیال نہ کیا) کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟(1) تم میں سے جو بھی ایسا کرے، اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی اور قیامت کے دن سخت عذاب کی مار، اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بےخبر نہیں
(1) نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے زمانے میں انصار (جو اسلام سے قبل مشرک تھے) کے دو قبیلے تھے اوس اور خزرج، ان کی آپس میں آئے دن جنگ رہتی تھی۔ اسی طرح یہود مدینہ کے تین قبیلے تھے، بنو قینقاع، بنونضیر اور بنوقریظہ۔ یہ بھی آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ بنو قریظہ اوس کے حلیف (ساتھی) اور بنوقینقاع اور بنونضیر، خزرج کے حلیف تھے۔ جنگ میں یہ اپنے اپنے حلیفوں (ساتھیوں) کی مدد کرتے اور اپنے ہی ہم مذہب یہودیوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں کولوٹتے، اور انہیں جلا وطن کردیتے۔ دراں حالیکہ تورات کے مطابق ایسا کرنا ان کے لئے حرام تھا۔ لیکن پھر ان ہی یہودیوں کو جب وہ مغلوب ہونے کی وجہ سے قیدی بن جاتے تو فدیہ دے کر چھڑاتے اور کہتے کہ ہمیں تورات میں یہی حکم دیا گیا ہے۔ ان آیات میں یہودیوں کے اسی کردار کو بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے شریعت کو موم کی ناک بنالیا تھا، بعض چیزوں پر ایمان لاتے اور بعض کو ترک کردیتے، کسی حکم پر عمل کرلیتے اور کسی وقت شریعت کے حکم کوکوئی اہمیت ہی نہ دیتے۔ قتل، اخراج اور ایک دوسرے کے خلاف مددکرنا، ان کی شریعت میں بھی حرام تھا، ان امور کا تو انہوں نے بےمحابا ارتکاب کیا اور فدیہ دے کر چھڑا لینے کا جو حکم تھا، اس پر عمل کرلیا۔ حالانکہ اگر پہلے تین امور کا وہ لحاظ رکھتے تو فدیہ دے کر چھڑانے کی نوبت ہی نہ آتی۔
Os Tafssir em língua árabe:
اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ ؗ— فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ ۟۠
یہ وه لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے خرید لیا ہے، ان کے نہ تو عذاب ہلکے ہوں گے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔(1)
(1) یہ شریعت کے کسی حکم کے مان لینے اور کسی کو نظرانداز کردینے کی سزا بیان کی جارہی ہے۔ اس کی سزا دنیا میں عزت وسرفرازی کی جگہ (جو مکمل شریعت پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے) ذلت ورسوائی اور آخرت میں ابدی نعمتوں کے بجائے سخت عذاب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں وہ اطاعت مقبول ہے جو مکمل ہو، بعض بعض باتوں کا مان لینا، یا ان پر عمل کرلینا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ آیت ہم مسلمانوں کو بھی دعوت غوروفکر دے رہی ہے کہ کہیں مسلمانوں کی ذلت ورسوائی کی وجہ بھی مسلمانوں کا وہی کردار تو نہیں جو مذکورہ آیات میں یہودیوں کا بیان کیا گیا ہے؟
Os Tafssir em língua árabe:
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْكِتٰبَ وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ ؗ— وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ؕ— اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤی اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ ۚ— فَفَرِیْقًا كَذَّبْتُمْ ؗ— وَفَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ ۟
ہم نے (حضرت) موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے پیچھے اور رسول بھیجے اور ہم نے (حضرت) عیسیٰ ابن مریم کو روشن دلیلیں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کروائی(1) ۔ لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وه چیز ﻻئے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی، تم نے جھٹ سے تکبر کیا، پس بعض کو تو جھٹلادیا اور بعض کو قتل بھی کرڈاﻻ۔(2)
(1) «وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ» کے معنی ہیں کہ موسیٰ (عليه السلام) کے بعد مسلسل پیغمبر آتے رہے، حتیٰ کہ بنی اسرائیل میں انبیاکا یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) پر ختم ہوگیا۔ «بَيِّنَاتٌ» سے معجزات مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو دیئے گئے۔ جیسے مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھی اور اندھے کو صحت یاب کرنا وغیرہ، جن کا ذکر سورۂ آل عمران (آیت 49) میں ہے۔ "رُوحُ الْقُدُسِ" سے مراد حضرت جبریل (عليه السلام) ہیں، ان کو (روح القدس)اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ امرتکوینی سے ظہور میں آئے تھے، جیسا کہ خود حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو رُوحٌ کہا گیا ہے اور الْقُدُس سے ذات الٰہی مراد ہے اور اس کی طرف روح کی اضافت تشریفی ہے۔ ابن جریر نے اسی کو صحیح تر قرار دیا ہے، کیونکہ المائدۂ (آیت 10) میں (روح القدس) اور انجیل دونوں الگ الگ مذکور ہیں اس لئے (روح القدس) سے انجیل مراد نہیں ہوسکتی ایک اور آیت میں حضرت جبریل (عليه السلام) کو «الرُّوحُ الأَمِينُ» فرمایا گیا ہے اور آنحضرت (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت حسان! کے متعلق فرمایا :«اللَّهُمَّ! أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ»۔ ”اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما۔“ ایک دوسری حدیث میں ہے «وَجِبْريلُ مَعَكَ»۔ ”جبریل (عليه السلام) تمہارے ساتھ ہیں۔“ معلوم ہوا کہ روح القدس سے مراد حضرت جبریل (عليه السلام) ہی ہیں، (فتح البیان، ابن کثیر بحوالہ اشرف الحواشی)
(2) جیسے حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) اور حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو جھٹلایا اورحضرت زکریا ویحییٰ علیھماالسلام کو قتل کیا۔
Os Tafssir em língua árabe:
وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ؕ— بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ ۟
یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف والے ہیں(1) نہیں نہیں بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے انہیں اللہ تعالیٰ نے ملعون کردیا ہے، ان کا ایمان بہت ہی تھوڑا ہے۔(2)
(1) یعنی ہم پر اے محمد ( (صلى الله عليه وسلم) ) تیری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، جس طرح دوسرے مقام پر ہے: «وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ» (حٰم السجدۂ: 5) ”ہمارے دل اس دعوت سے پردے میں ہیں، جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے۔“
(2) دلوں پر حق بات کا اثر نہ کرنا، کوئی فخر کی بات نہیں۔ بلکہ یہ تو ملعون ہونے کی علامت ہے، پس ان کا ایمان بھی تھوڑا ہے (جو عنداللہ نامقبول ہے) یا ان میں ایمان لانے والے کم ہی لوگ ہوں گے۔
Os Tafssir em língua árabe:
 
Tradução dos significados Surah: Al-Baqarah
Índice de capítulos Número de página
 
Tradução dos significados do Nobre Qur’an. - Tradução em Urdu - Muhammad Gunakry - Índice de tradução

Tradução por Muhammad Ibrahim Gunakry. Desenvolvido sob a supervisão do Centro de Mestres em Tradução. A tradução original está disponível para sugestões e avaliação contínua.

Fechar