Check out the new design

ශුද්ධවූ අල් කුර්ආන් අර්ථ කථනය - උර්දු පරිවර්තනය - මුහම්මද් ජුනාකර්හි * - පරිවර්තන පටුන

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

අර්ථ කථනය පරිච්ඡේදය: අන් නූර්   වාක්‍යය:
قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ۚ— فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ ؕ— وَاِنْ تُطِیْعُوْهُ تَهْتَدُوْا ؕ— وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ ۟
کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم مانو، رسول اللہ کی اطاعت کرو، پھر بھی اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمے تو صرف وہی ہے جو اس پر ﻻزم کردیا گیا ہے(1) اور تم پر اس کی جوابدہی ہے جو تم پر رکھا گیا ہے(2) ہدایت تو تمہیں اسی وقت ملے گی جب رسول کی ماتحتی کرو(3)۔ سنو رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے.(4)
(1) یعنی تبلیغ ودعوت، جو وہ ادا کر رہا ہے۔
(2) یعنی اس کی دعوت کو قبول کرکے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا۔
(3) اس لئے کہ وہ صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے۔
(4) کوئی اس کی دعوت کو مانے یا نہ مانے جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا، «فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ» (الرعد: 40) ”اے پیغمبر ! تیرا کام صرف (ہمارے احکام) کو پہنچا دینا ہے (کوئی مانتا ہے یا نہیں) یہ حساب ہماری ذمہ داری ہے“۔
අල්කුර්ආන් අරාබි අර්ථ විවරණ:
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۪— وَلَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَهُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ؕ— یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْـًٔا ؕ— وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ۟
تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان ﻻئے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وه پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف وخطر کو وه امن وامان سے بدل دے گا(1) ، وه میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے(2)۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وه یقیناً فاسق ہیں.(3)
(1) بعض نے اس وعدۂ الٰہی کو صحابہ کرام کے ساتھ یا خلفائے راشدین کے ساتھ خاص قرار دیا ہے لیکن اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن کے الفاظ عام ہیں اور ایمان وعمل صالح کے ساتھ مشروط ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ عہد خلافت راشدہ اور عہد خیرالقرون میں، اس وعدۂ الٰہی کا ظہور ہوا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو زمین پر غلبہ عطا فرمایا، اپنے پسندیدہ دین اسلام کو عروج دیا اور مسلمانوں کے خوف کو، امن سے بدل دیا۔ پہلے مسلمان کفار عرب سے ڈرتے تھے، پھر اس کے برعکس معاملہ ہوگیا۔ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے بھی جو پیش گوئیاں فرمائی تھیں، وہ بھی اس عہد میں پوری ہوئیں۔ مثلاً آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا تھا کہ حیرہ سے ایک عورت تن تنہا اکیلی چلے گی اور بیت اللہ کا آکر طواف کرے گی، اسے کوئی خوف اور خطرہ نہیں ہوگا۔ کسریٰ کے خزانے تمہارے قدموں میں ڈھیر ہوجائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا (صحيح بخاري، كتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام) نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے یہ بھی فرمایا تھا «إِنَّ اللهَ زَوَى لِيَ الأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا»(صحيح مسلم كتاب الفتن وأشراط الساعة- باب هلاك هذه الأمة بعضهم ببعض) ”اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لئے سکیڑ دیا، پس میں نے اس کے مشرقی اور مغربی حصے دیکھے، عنقریب میری امت کا دائرہ اقتدار وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک میرے لئے زمین سکیڑ دی گئی“۔ حکمرانی کی یہ وسعت بھی مسلمانوں کے حصے میں آئی، اور فارس وشام اور مصروافریقہ اور دیگر دوردراز کے ممالک فتح ہوئے اور کفر وشرک کی جگہ توحید وسنت کی مشعلیں ہر جگہ روشن ہوگئیں اور اسلامی تہذیب وتمدن کا پھریرا چار دانگ عالم میں لہرا گیا۔ لیکن یہ وعدہ چونکہ مشروط تھا، جب مسلمان ایمان میں کمزور اور عمل صالح میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے تو اللہ نے ان کی عزت کو ذلت میں، ان کے اقتدار اور غلبے کو غلامی میں اور ان کے امن و استحکام کو خوف اور دہشت میں بدل دیا۔
(2) یہ بھی ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ایک اور بنیادی شرط ہے جس کی وجہ سے مسلمان اللہ کی مدد کے مستحق، اور اس وصف توحید سے عاری ہونے کے بعد وہ اللہ کی مدد سے محروم ہوجائیں گے۔
(3) اس کفر سے مراد، وہی ایمان، عمل صالح اور توحید سے محرومی ہے، جس کے بعد ایک انسان اللہ کی اطاعت سے نکل جاتا اور کفر وفسق کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔
අල්කුර්ආන් අරාබි අර්ථ විවරණ:
وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ۟
نماز کی پابندی کرو، زکوٰة ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی فرمانبرداری میں لگے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے.(1)
(1) یہ گویا مسلمانوں کو تاکید کی گئی کہ اللہ کی رحمت اور مدد حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے جس پر چل کر صحابہ کرام کو یہ رحمت اور مدد حاصل ہوئی۔
අල්කුර්ආන් අරාබි අර්ථ විවරණ:
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ ۚ— وَمَاْوٰىهُمُ النَّارُ ؕ— وَلَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ۟۠
یہ خیال آپ کبھی بھی نہ کرنا کہ منکر لوگ زمین میں (ادھر ادھر بھاگ کر) ہمیں ہرا دینے والے ہیں(1) ، ان کا اصلی ٹھکانا تو جہنم ہے جو یقیناً بہت ہی برا ٹھکانا ہے.
(1) یعنی آپ کے مخالفین اور مکذبین اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی گرفت کرنے پر ہر طرح قادر ہے۔
අල්කුර්ආන් අරාබි අර්ථ විවරණ:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِیْنَ مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ وَالَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ؕ— مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَحِیْنَ تَضَعُوْنَ ثِیَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِیْرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَآءِ ۫ؕ— ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْ ؕ— لَیْسَ عَلَیْكُمْ وَلَا عَلَیْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ؕ— طَوّٰفُوْنَ عَلَیْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰی بَعْضٍ ؕ— كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ ؕ— وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ۟
ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں (اپنے آنے کی) تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔ نماز فجر سے پہلے اور ﻇہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشا کی نماز کے بعد(1) ، یہ تینوں وقت تمہاری (خلوت) اور پرده کے ہیں(2)۔ ان وقتوں کے ماسوا نہ تو تم پر کوئی گناه ہے نہ ان پر(3)۔ تم سب آپس میں ایک دوسرے کے پاس بکثرت آنے جانے والے ہو(4) (ہی)، اللہ اسی طرح کھول کھول کر اپنے احکام تم سے بیان فرما رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمت واﻻ ہے.
(1) غلاموں سے مراد، باندیاں اور غلام دونوں ہیں ثَلاثَ مَرَّاتٍ کا مطلب اوقات، تین وقت ہیں، یہ تینوں اوقات ایسے ہیں کہ انسان گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ بہ کار خاص مصروف، یا ایسے لباس میں ہوسکتا ہے کہ جس میں کسی کا ان کو دیکھنا جائز اور مناسب نہیں۔ اس لئے ان اوقات ثلاثہ میں گھر کے ان خدمت گزاروں کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ بغیر اجازت طلب کئے گھر کے اندر داخل ہوں۔
(2) عَوْرَاتٍ، عَوْرَةٌ کی جمع ہے، جس کے اصل معنی خلل اور نقص کے ہیں۔ پھر اس کا اطلاق ایسی چیز پر کیا جانے لگا جس کا ظاہر کرنا اوراس کو دیکھنا پسندیدہ نہ ہو۔ خاتون کو بھی اسی لئے عورت کہا جاتا ہے کہ اس کا ظاہر اور عریاں ہونا اور دیکھنا شرعاً ناپسندیدہ ہے۔ یہاں مذکورہ تین اوقات میں عورات کہا گیا ہے یعنی یہ تمہارے پردے اور خلوت کے اوقات ہیں جن میں تم اپنے مخصوص لباس اور ہیئت کو ظاہر کرنا پسند نہیں کرتے۔
(3) یعنی ان اوقات ثلاثہ کے علاوہ گھر کے مذکورہ خدمت گزاروں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اجازت طلب کئے بغیر گھر کے اندر آجاسکتے ہیں۔
(4) یہ وہی وجہ ہے جو حدیث میں بلی کے پاک ہونے کی بیان کی گئی ہے۔ «إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ؛ إِنَّهَا مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَاتِ»، ”بلی ناپاک نہیں ہے اس لئے کہ وہ بکثرت تمہارے پاس (گھر کے اندر) آنے جانے والی ہے“۔ (أبو داود، كتاب الطهارة باب سؤر الهرة، ترمذي، كتاب وباب مذكور وغيره) خادم اور مالک، ان کو بھی آپس میں ہر وقت ایک دوسرے سے ملنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اسی ضرورت عامہ کے پیش نظر اللہ نے یہ اجازت مرحمت فرما دی، کیونکہ وہ علیم ہے، لوگوں کی ضروریات اور حاجات کو جانتا ہے اور حکیم ہے، اس کے ہر حکم میں بندوں کے مفادات اور حکمتیں ہیں۔
අල්කුර්ආන් අරාබි අර්ථ විවරණ:
 
අර්ථ කථනය පරිච්ඡේදය: අන් නූර්
සූරා පටුන පිටු අංක
 
ශුද්ධවූ අල් කුර්ආන් අර්ථ කථනය - උර්දු පරිවර්තනය - මුහම්මද් ජුනාකර්හි - පරිවර්තන පටුන

මොහොමඩ් ඉබ්‍රාහිම් ජුනාක්‍රි විසින් පරිවර්තනය කරන ලදී. රුව්වාද් පරිවර්තන මධ්‍යස්ථානයේ අධීක්ෂණය යටතේ එය වැඩි දියුණු කර ඇත. අදහස් ප්‍රකාශ කිරීමට ඇගයීමට හා තවදුරටත් වැඩි දියුණු කිරීමට මුල් පරිවර්තනය දෙස යොමු විය හැක.

වසන්න