Check out the new design

Salin ng mga Kahulugan ng Marangal na Qur'an - Salin sa Wikang Urdu ni Muhammad Junagadhri * - Indise ng mga Salin

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Salin ng mga Kahulugan Surah: Al-Baqarah   Ayah:
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ كَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی ؕ— قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ؕ— قَالَ بَلٰی وَلٰكِنْ لِّیَطْمَىِٕنَّ قَلْبِیْ ؕ— قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْهُنَّ اِلَیْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ یَاْتِیْنَكَ سَعْیًا ؕ— وَاعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ۟۠
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے پروردگار! مجھے دکھا تو مُردوں کو کس طرح زنده کرے گا؟(1) (جناب باری تعالیٰ نے) فرمایا، کیا تمہیں ایمان نہیں؟ جواب دیا ایمان تو ہے لیکن میرے دل کی تسکین ہو جائے گی، فرمایا چار پرند لو، ان کے ٹکڑے کر ڈالو، پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو پھر انہیں پکارو، تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمتوں واﻻ ہے۔
(1) یہ احیائے موتی کا دوسرا واقعہ ہے جو ایک نہایت جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی خواہش اور ان کے اطمینان قلب کے لئے دکھایا گیا۔ یہ چار پرندے کون کون سے تھے؟ مفسرین نے مختلف نام ذکر کئے ہیں لیکن ناموں کی تعیین کا کوئی فائدہ نہیں، اس لئے اللہ نے بھی ان کے نام ذکر نہیں کئے۔ بس یہ چار مختلف پرندے تھے۔ فَصُرْهُنَّ کے ایک معنی أَمِلْهُنَّ کئے گئے ہیں یعنی ان کو ”ہلالے“ (مانوس کرلے) تاکہ زندہ ہونے کے بعد ان کو آسانی سے پہچان لے کہ یہ وہی پرندے ہیں اور کسی قسم کا شک باقی نہ رہے۔ اس معنی کے اعتبار سے پھر اس کے بعد ثم قَطِّعْهُنَّ(پھر ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرلے) محذوف ماننا پڑے گا۔ دوسرے معنی قطعھن (ٹکڑے ٹکڑے کرلے) کئے گئے ہیں۔ اس صورت میں کچھ محذوف مانے بغیر معنی ہوجاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے مختلف پہاڑوں پر ان کے اجزا باہم ملا کر رکھ دے، پھر تو آواز دے تو وہ زندہ ہو کر تیرے پاس آجائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بعض جدید وقدیم مفسرین نے (جو صحابہ وتابعین کی تفسیر اور سلف کے منہج ومسلک کو اہمیت نہیں دیتے) فَصُرْهُنَّ کا ترجمہ صرف (ہلالے) کا کیا ہے۔ اور ان کے ٹکڑے کرنے اور پہاڑوں پر ان کے اجزا بکھیر نے اور پھر اللہ کی قدرت سے ان کے جڑنے کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن یہ تفسیر صحیح نہیں، اس سے واقعے کی ساری اعجازی حیثیت ختم ہوجاتی ہے اور مردے کو زندہ کر دکھانے کا سوال جوں کا توں قائم رہتا ہے۔ حالانکہ اس واقعہ کے ذکر سے مقصود اللہ تعالیٰ کی صفت احیائے موتی اور اس کی قدرت کاملہ کا اثبات ہے۔ ایک حدیث میں ہےنبی (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے اس واقعے کا تذکرہ کرکے فرمایا: «نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ»، (صحيح بخاري، كتاب التفسير) ”ہم ابراہیم (عليه السلام) سے زیادہ شک کرنے کے حق دار ہیں“۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ابراہیم (عليه السلام) نے شک کیا، لہذا ہمیں ان سے زیادہ شک کرنے کا حق پہنچتا ہے۔ بلکہ مطلب حضرت ابراہیم (عليه السلام) سے شک کی نفی ہے۔ یعنی ابراہیم (عليه السلام) نے احیائے موتی کے مسئلے میں شک نہیں کیا اگر انہوں نے شک کا اظہار کیا ہوتا تو ہم یقیناً شک کرنے میں ان سے زیادہ حق دار ہوتے (مزید وضاحت کے لئے دیکھیے فتح القدیر۔ للشوکانی )
Ang mga Tafsir na Arabe:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ؕ— وَاللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ؕ— وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۟
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے(1) اور اللہ تعالیٰ کشادگی واﻻ اور علم واﻻ ہے۔
(1) یہ انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت ہے۔ اس سے مراد اگر جہاد ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جہاد میں خرچ کی گئی رقم کا یہ ثواب ہوگا اور اگر اس سے مراد تمام مصارف خیر ہیں تو یہ فضیلت نفقات وصدقات نافلہ کی ہوگی اور دیگر نیکیاں «الحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا»، ”ایک نیکی کا اجر دس گنا“، کی ذیل میں آئیں گی۔ (فتح القدیر) گویا نفقات وصدقات کا عام اجر وثواب، دیگر امور خیر سے زیادہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اس اہمیت وفضیلت کی وجہ بھی واضح ہے کہ جب تک سامان واسلحہ جنگ کا انتظام نہیں ہوگا، فوج کی کارکردگی بھی صفر ہوگی اور سامان اور اسلحہ رقم کے بغیر مہیا نہیں کئے جاسکتے۔
Ang mga Tafsir na Arabe:
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَاۤ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَاۤ اَذًی ۙ— لَّهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ— وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ ۟
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں(1) ، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وه اداس ہوں گے۔
(1) انفاق فی سبیل اللہ کی مذکورہ فضیلت صرف اس شخص کو حاصل ہوگی جو مال خرچ کرکے احسان نہیں جتلاتا نہ زبان سے ایسا کلمہ تحقیر ادا کرتا ہے جس سے کسی غریب، محتاج کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ تکلیف محسوس کرے۔ کیونکہ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ہے: ”قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا، ان میں ایک احسان جتلانے والا ہے۔“ (مسلم، كتاب الإيمان، باب غلظ تحريم إسبال الإزار والمنّ بالعطية)۔
Ang mga Tafsir na Arabe:
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًی ؕ— وَاللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ ۟
نرم بات کہنا اور معاف کردینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو(1) اور اللہ تعالیٰ بےنیاز اور بردبار ہے۔
(1) سائل سے نرمی اور شفقت سے بولنا یا دعائیہ کلمات (اللہ تعالیٰ تجھے بھی اور ہمیں بھی اپنے فضل وکرم سے نوازے وغیرہ) سے اس کو جواب دینا قول معروف ہے اور مَغْفِرَةٌ کا مطلب سائل کے فقر اور اس کی حاجت کا لوگوں کے سامنے عدم اظہار اور اس کی پردہ پوشی ہے اور اگر سائل کے منہ سے کوئی نازیبا بات نکل جائے تو اس سے چشم پوشی بھی اس میں شامل ہے۔ یعنی سائل سے نرمی وشفقت اور چشم پوشی، پردہ پوشی، اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد اس کو لوگوں میں ذلیل ورسوا کرکے اسے تکلیف پہنچائی جائے۔ اسی لئے حدیث میں کیا گیا ہے «الْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ»، (صحيح مسلم كتاب الزكاة، باب بيان أن اسم الصدقة يقع على نوع من المعروف) ”پاکیزہ کلمہ بھی صدقہ ہے“، نیز نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”تم کسی بھی معروف (نیکی) کو حقیر مت سمجھو، اگرچہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی ہو۔“ «لا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلِقٍ»۔ (مسلم، كتاب البرّ، باب استحباب طلاقة الوجه عند اللقاء)۔
Ang mga Tafsir na Arabe:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی ۙ— كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ؕ— فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا ؕ— لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا ؕ— وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ ۟
اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو! جس طرح وه شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زوردار مینہ برسے اور وه اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے(1) ، ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو (سیدھی) راه نہیں دکھاتا۔
(1) اس میں ایک تو یہ کہا گیا ہے کہ صدقہ وخیرات کرکے احسان جتلانا اور تکلیف دہ باتیں کرنا، اہل ایمان کا شیوہ نہیں، بلکہ ان لوگوں کا وطیرہ ہے جو منافق ہیں اور ریاکاری کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ دوسرے، ایسے خرچ کی مثال صاف چٹان کی سی ہے جس پر کچھ مٹی ہو ، کوئی شخص پیداوار حاصل کرنے کے لئے اس میں بیج بو دے لیکن بارش کا ایک جھٹکا پڑتے ہی وہ ساری مٹی اس سے اتر جائے اور وہ پتھر مٹی سے بالکل صاف ہوجائے۔ یعنی جس طرح بارش اس پتھر کے لئے نفع بخش ثابت نہیں ہوئی، اسی طرح ریاکار کو بھی اس کے صدقہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
Ang mga Tafsir na Arabe:
 
Salin ng mga Kahulugan Surah: Al-Baqarah
Indise ng mga Surah Numero ng Pahina
 
Salin ng mga Kahulugan ng Marangal na Qur'an - Salin sa Wikang Urdu ni Muhammad Junagadhri - Indise ng mga Salin

Isinalin ito ni Muhammad Ibrahim Jonakri. Isinagawa ang pagpapaunlad nito sa pangangasiwa ng Sentro ng Rowad sa Pagsasalin. Pinapayagan ang pagtingin sa orihinal na salin sa layuning magpahayag ng pananaw at pagsusuri at nagpapatuloy na palilinang.

Isara