Check out the new design

قرآن کریم کے معانی کا ترجمہ - اردو ترجمہ - محمد جوناگڑھی * - ترجمے کی لسٹ

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

معانی کا ترجمہ سورت: فرقان   آیت:
وَقَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْلَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَوْ نَرٰی رَبَّنَا ؕ— لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا كَبِیْرًا ۟
اور جنہیں ہماری ملاقات کی توقع نہیں انہوں نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے(1) ؟ یا ہم اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھ لیتے(2)؟ ان لوگوں نے اپنے آپ کو ہی بہت بڑا سمجھ رکھا ہے اور سخت سرکشی کرلی ہے.(3)
(1) یعنی کسی انسان کو رسول بنا کر بھیجنے کے بجائے ، کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجا جاتا۔ یا یہ مطلب ہے کہ پیغمبر کے ساتھ فرشتے بھی نازل ہوتے، جنہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور وہ اس بشر رسول کی تصدیق کرتے۔
(2) یعنی رب آکر ہمیں کہتا کہ محمد (صلى الله عليه وسلم) میرا رسول ہے اور اس پر ایمان لانا تمارے لیے ضروری ہے۔
(3) اسی استکبار اور سرکشی کا نتیجہ ہے کہ وہ اس قسم کے مطالبے کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے خلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو ایمان بالغیب کے ذریعے سے انسانوں کو آزماتا ہے۔ اگر وہ فرشتوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے اتار دے یا آپ خود زمین پر نزول فرمالے تو اس کے بعد ان کی آزمائش کا پہلو ہی ختم ہو جائے اس لیے اللہ تعالیٰ ایسا کام کیوں کر کر سکتا ہے جو اس کی حکمت تخلیق اور مشیت تکوینی کے خلاف ہے؟
عربی تفاسیر:
یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلٰٓىِٕكَةَ لَا بُشْرٰی یَوْمَىِٕذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ وَیَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا ۟
جس دن یہ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن ان گناه گاروں کو کوئی خوشی نہ ہوگی(1) اور کہیں گے یہ محروم ہی محروم کیے گئے.(2)
(1) اس دن سے مراد موت کا دن ہے یعنی یہ کافر فرشتوں کو دیکھنے کی آرزو تو کرتے ہیں لیکن موت کے وقت جب یہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان کے لیے کوئی خوشی اور مسرت نہیں ہوگی، اس لیے کہ فرشتے انہیں اس موقع پر عذاب جہنم کی وعید سناتے ہیں اورکہتے ہیں اے خبیث روح خبیث جسم سےنکل، جسم سے روح دوڑتی اور بھاگتی ہے، جس پر فرشتے اسے مارتے اور کوٹتے ہیں جیسا کہ سورۃ الانفال: 50 سورۃ الانعام:93 میں ہے۔ اس کے برعکس مومن کا حال وقت احتضار (جان کنی کے وقت) یہ ہوتا ہے کہ فرشتے اسے جنت اور اس کی نعمتوں کو نوید جاں فزا سناتے ہیں۔ جیسا کہ سورۂ حم السجدۃ:30۔ 32 میں ہے اور حدیث میں بھی آتا ہے کہ (فرشتے مومن کی روح سے کہتے ہیں، اے پاک روح، جو پاک جسم میں تھی، نکل! اور ایسی جگہ چل جہاں اللہ کی نعمتیں ہیں اور وہ رب ہے جو تجھ سے راضی ہے)۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے مسند احمد2 / 364۔ 365 ابن ماجه، كتاب الزهد، باب ذكر الموت) بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد قیامت کاﺩن ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دونوں ہی قول صحیح ہیں۔ اس لیے کہ دونوں ہی دن ایسے ہیں کہ فرشتے مومن اور کافر دونوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں۔ مومنوں کو رحمت و رضوان الٰہی کی خوش خبری اور کافروں کو ہلاکت و خسران کی خبر دیتے ہیں۔
(2) حِجْرٌ کے اصل معنی ہیں منع کرنا، روک دینا۔ جس طرح قاضی کسی کو اس کیے بے وقوفی یا صغر سنی کی وجہ سے اس کے اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک دےتو کہتے ہیں حَجَرَ الْقَاضِي عَلَى فُلانٍ کو تصرف کرنے سے روک دیا ہے۔ اسی مفہوم میں خانہ کعبہ کے اس حصے (حطیم) کو حجر کہا جاتا ہے جسے قریش مکہ نے خانہ کعبہ میں شامل نہیں کیا تھا۔ اس لیے طواف کرنے والوں کے لیے اس کے اندر سے طواف کرنا منع ہے۔ طواف کرتے وقت، اس کے بیرونی حصے سے گزرنا چاہیے جسے دیوار سےممتاز کردیاگیا ہے۔ اور عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے، اس لیے کہ عقل بھی انسانوں کو ایسے کاموں سے روکتی ہے جو انسانوں کے لائق نہیں ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ فرشتے کافروں کو کہتے ہیں کہ تم ان چیزوں سے محروم ہو جن کی خوش خبری متقین کو دی جاتی ہے۔ یعنی یہ حَرَامًا مُحَرَّمًا عَلَيْكُمْ کے معنی میں ہے۔ آج جنت الفردوس اور اس کی نعمتیں تم پرحرام ہیں، اس کے مستحق صرف اہل ایمان و تقویٰ ہوں گے۔
عربی تفاسیر:
وَقَدِمْنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا ۟
اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نےان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگنده ذروں کی طرح کردیا.(1)
(1) هَبَاءً ان باریک ذروں کو کہتے ہیں جو کسی سوراخ سے گھر کےاندر داخل ہونےوالی سورج کی کرن میں محسوس ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی انہیں ہاتھ میں پکڑنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ کافروں کے عمل بھی قیامت والے دن ان ہی ذروں کی طرح بے حیثیت ہوں گے۔ کیوں کہ وہ ایمان و اخلاص سے بھی خالی ہوں گے اور موافقت شریعت سے بھی عاری۔ جب کہ عنداللہ قبولیت کےلیے دونوں شرطیں ضروری ہیں۔ ایمان و اخلاص بھی اور شریعت اسلامیہ کی مطابقت بھی۔ یہاں کافروں کے اعمال کو جس طرح بے حیثیت ذروں کی مثل کہا گیا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقامات پر کہیں راکھ سے، کہیں سراب سے اور کہیں صاف چکنے پتھر سے تعبیر کیاگیا ہے۔ یہ ساری تمثیلات پہلے گزر چکی ہیں ملاحظہ ہو سورۃ البقرۃ: 264، سورۃ ابراہیم: 18 اور سورۃ النور:29۔
عربی تفاسیر:
اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ یَوْمَىِٕذٍ خَیْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِیْلًا ۟
البتہ اس دن جنتیوں کا ٹھکانا بہتر ہوگا اور خواب گاه بھی عمده ہوگی.(1)
(1) بعض نے اس سے یہ استدلال بھی کیا ہےکہ اہل ایمان کے لیے قیامت کا یہ ہولناک دن اتنا مختصر اوران کا حساب اتنا آسان ہوگا کہ قیلولے کے وقت تک یہ فارغ ہوجائیں گے اورجنت میں یہ اپنے اہل خاندان اور حورعین کےساتھ دوپہر کو استراحت فرما ہوں گے، جس طرح حدیث میں ہے کہ مومن کے لیے یہ دن اتنا ہلکا ہوگا کہ جتنے میں دنیا میں ایک فرض نماز ادا کرلینا۔ (مسند احمد 4 / 75)
عربی تفاسیر:
وَیَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ تَنْزِیْلًا ۟
اور جس دن آسمان بادل سمیت پھٹ جائے گا(1) اور فرشتے لگاتار اتارے جائیں گے.
(1) اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان پھٹ جائے گا اور بادل سایہ فگن ہوجائیں گے، اللہ تعالیٰ فرشتوں کےجلو میں، میدان محشرمیں ، جہاں ساری مخلوق جمع ہوگی، حساب کتاب کے لیے جلوہ فرما ہوگا، جیسا کہ سورۂ بقرۃ آیت، 210 سے بھی واضح ہے۔
عربی تفاسیر:
اَلْمُلْكُ یَوْمَىِٕذِ ١لْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ ؕ— وَكَانَ یَوْمًا عَلَی الْكٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا ۟
اس دن صحیح طور پر ملک صرف رحمٰن کا ہی ہوگا اور یہ دن کافروں پر بڑا بھاری ہوگا.
عربی تفاسیر:
وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا ۟
اور اس دن ﻇالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی راه اختیار کی ہوتی.
عربی تفاسیر:
یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا ۟
ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا.(1)
(1) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نافرمانوں سے دوستی اور وابستگی نہیں رکھنی چاہیے،اس لیے کہ صحبت صالح سے انسان اچھا اور صحبت طالح سے انسان برا بنتا ہے۔ اکثر لوگوں کی گمراہی کی وجہ غلط دوستوں کاانتﺨاب اور صحبت بد کا اختیار کرنا ہی ہے۔ اسی لیے حدیث میں بھی صالحین کی صحبت کی تاکید اوربری صحبت سےاجتناب کو ایک بہترین مثال سے واضح کیاگیا ہے۔ (ملاحظہ ہو مسلم، كتاب البر والصلة، باب استحباب مجالسة الصالحين ...)۔
عربی تفاسیر:
لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْ ؕ— وَكَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا ۟
اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراه کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے واﻻ ہے.
عربی تفاسیر:
وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا ۟
اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا.(1)
(1) مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جاسکے، یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا اور عمل نہ کرنا بھی ہجران ہے، اس پر غوروفکر نہ کرنا اور اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے۔ اسی طرح اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا، یہ بھی ہجران ہے یعنی قرآن کاﺗرﻙ اور اس کا چھوڑ دینا ہے، جس کےخلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے۔
عربی تفاسیر:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ ؕ— وَكَفٰی بِرَبِّكَ هَادِیًا وَّنَصِیْرًا ۟
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بعض گناه گاروں کو بنادیا ہے(1) اور تیرا رب ہی ہدایت کرنے واﻻ اور مدد کرنے واﻻ کافی ہے.(2)
(1) یعنی جس طرح اے محمد! (صلى الله عليه وسلم) تیری قوم میں سے وہ لوگ تیرے دشمن ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا، اسی طرح گزشتہ امتوں میں بھی تھا، یعنی ہر نبی کے دشمن وہ لوگ ہوتے تھے جو گناہ گار تھے، وہ لوگوں کو گمراہی کی طرف بلاتے تھے سورۃ الانعام آیت 112 میں بھی یہ مضمون بیان کیاگیا ہے۔
(2) یعنی یہ کافر گو لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں لیکن تیرا رب جس کو ہدایت دے، اس کو ہدایت سے کون روک سکتا ہے؟ اصل ہادی اور مددگار تو تیرا رب ہی ہے۔
عربی تفاسیر:
وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً ۛۚ— كَذٰلِكَ ۛۚ— لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا ۟
اور کافروں نے کہا کہ اس پر قرآن سارا کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا(1) اسی طرح ہم نے (تھوڑا تھوڑا کرکے) اتارا تاکہ اس سے ہم آپ کا دل قوی رکھیں، ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے.(2)
(1) جس طرح تورات، انجیل اور زبور وغیرہ کتابیں بیک مرتبہ نازل ہوئیں۔
(2) اللہ نے جواب میں فرمایا کہ ہم نے حالات و ضروریات کے مطابق اس قرآن کو 23 سال میں تھوڑ تھوڑا کرکے اتارا تاکہ اے پیغمبر ! تیرا اور اہل ایمان کاﺩل مضبوط ہو اور ان کے خوب ذہن نشین ہوجائے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: «وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَـزَّلْنَاهُ تَنْـزِيلا» (سورة بني إسرائيل: 106) ”اور قرآن، اس کو ہم نےجدا جداکیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر رک رک کر پڑھے اور ہم نے اس کو وقفے وقفے سے اتارا“ اس قرآن کی مثال بارش کی طرح ہے۔ بارش جب بھی نازل ہوتی ہے،مردہ زمین میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور یہ فائدہ بالعموم اسی وقت ہوتا ہے جب بارش وقتاً فوقتاً نازل ہو، نہ کہ ایک ہی مرتبہ ساری بارش کے نزول سے۔
عربی تفاسیر:
 
معانی کا ترجمہ سورت: فرقان
سورتوں کی لسٹ صفحہ نمبر
 
قرآن کریم کے معانی کا ترجمہ - اردو ترجمہ - محمد جوناگڑھی - ترجمے کی لسٹ

محمد ابراہیم جوناگڑھی نے ترجمہ کیا۔ مرکز رواد الترجمہ کے زیر اشراف اسے اپڈیٹ کیا گیا ہے اور اصلی ترجمہ مطالعہ کے لیے فراہم کیا جا رہا ہے تاکہ قارئین کی رائے لی جائے اور مسلسل اپڈیٹ اور اصلاح کا کام جاری رہے۔

بند کریں