Check out the new design

《古兰经》译解 - 乌尔都语翻译 - 穆罕默德·古纳克里。 * - 译解目录

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

含义的翻译 章: 奴尔   段:
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ ؕ— لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ ؕ— بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ ؕ— لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ ۚ— وَالَّذِیْ تَوَلّٰی كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۟
جو لوگ یہ بہت بڑا بہتان باندھ ﻻئے ہیں(1) یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروه(2) ہے۔ تم اسے اپنے لئے برا نہ سمجھو، بلکہ یہ تو تمہارے حق میں بہتر ہے(3)۔ ہاں ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناه ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصے کو سرانجام دیا ہے اس کے لئے عذاب بھی بہت ہی بڑا ہے.(4)
(1) إِفْكٌ سے مراد وہ واقعہ إِفْكٌ ہے جس میں منافقین نے حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کے دامن عفت وعزت کو داغ دار کرنا چاہا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کی برائت نازل فرما کر ان کی پاک دامنی اور عفت کو واضح تر کردیا۔ مختصراً یہ واقعہ ہے کہ حکم حجاب کے بعد غزوۂ بنی المصطلق (مریسیع) سے واپسی پر نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) اور صحابہ کرام (رضي الله عنهم) نے مدینہ کے قریب ایک جگہ قیام فرمایا، صبح کو جب وہاں سے روانہ ہوئے تو حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کا ہودج بھی، جو خالی تھا، اہل قافلہ نے یہ سمجھ کر اونٹ پر رکھ دیا کہ ام المومنین (رضی الله عنها) اس کے اندر ہی ہوں گی۔ اور وہاں سے روانہ ہوگئے، در آں حالیکہ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) اپنے ہار کی تلاش میں باہر گئی ہوئی تھیں، جب واپس آئیں تو دیکھا کہ قافلہ چلا گیا۔ تو یہ سوچ کر وہیں لیٹ رہیں کہ جب ان کو میری غیر موجودگی کا علم ہوگا تو تلاش کے لئے واپس آئیں گے۔ تھوڑی دیر بعد صفوان بن معطل سلمی (رضي الله عنه) آگئے، جن کی ذمہ داری یہی تھی کہ قافلے کی رہ جانے والی چیزیں سنبھال لیں۔ انہوں نے حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کو حکم حجاب سے پہلے دیکھا ہوا تھا۔ انہیں دیکھتے ہی انا للہ الخ پڑھا اور سمجھ گئے قافلہ غلطی سے یا بےعلمی میں حضرت ام المومنین (رضی الله عنها) کو یہیں چھوڑ کر آگے چلا گیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے انہیں اپنے اونٹ پر بٹھایا اور خود نکیل تھامے پیدل چلتے قافلے کو جاملے۔ منافقین نے جب حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کو اس طرح بعد میں اکیلے حضرت صفوان (رضي الله عنه) کےساتھ آتے دیکھا تو اس موقع کو بہت غنیمت جانا اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے کہا کہ یہ تنہائی اور علیحدگی بے سبب نہیں اور یوں انہوں نے حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کو حضرت صفوان (رضي الله عنه) کے ساتھ مطعون کردیا، دراں حالیکہ دونوں ان باتوں سے یکسر بےخبر تھے۔ بعض مخلص مسلمان بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے، مثلاً حضرت حسان (رضي الله عنه) ، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش (رضي الله عنهم) (اس واقعہ کی پوری تفصیل صحیح احادیث میں موجود ہے) نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے پورے ایک مہینے تک، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرﻑ سے براءت نازل نہیں ہوئی، سخت پریشان رہے اور حضرت عائشہ (رضي الله عنه) ا لاعلمی میں اپنی جگہ بےقرار ومضطرب۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اسی واقعے کو اختصار وجامعیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ إِفْكٌ کے معنی ہیں کسی چیز کو الٹا دینا۔ اس واقعے میں بھی چونکہ منافقین نے معاملے کو الٹا دیا تھا یعنی حضرت عائشہ (رضی الله عنها) تو ثنا وتعریف کی مستحق تھیں، عالی نسب اور رفعت کردار کی مالک تھیں نہ کہ قذف کی۔ لیکن ظالموں نے اس پیکر عفت کو اس کے برعکس طعن اور بہتان تراشی کا ہدف بنا لیا۔
(2) ایک گروہ اور جماعت کو عصبہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کی تقویت اور عصبیت کا باعث ہوتے ہیں۔
(3) کیونکہ اس سے ایک تو تمہیں کرب اور صدمے کے سبب ثواب عظیم ملے گا، دوسرے آسمانوں سے حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کی براءت سے ان کی عظمت شان اور ان کے خاندان کا شرف وفضل نمایاں تر ہوگیا، علاوہ ازیں اہل ایمان کے لئے اس میں عبرت و موعظت کے اور کئی پہلو ہیں۔
(4) اس سے مراد عبداللہ بن ابی منافق ہے جو اس سازش کا سرغنہ تھا۔
阿拉伯语经注:
لَوْلَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا ۙ— وَّقَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ ۟
اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے.(1)
(1) یہاں سے تربیت کے ان پہلوؤں کو نمایاں کیا جارہا ہے جو اس واقعے میں مضمر ہے۔ ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اہل ایمان ایک جان کی طرح ہیں، جب حضرت عائشہ (رضی الله عنها) پر اتہام طرازی کی گئی تو تم نے اپنے پر قیاس کرتے ہوئے فوراً اس کی تردید کیوں نہ کی اور اسے بہتان صریح کیوں قرار نہیں دیا؟
阿拉伯语经注:
لَوْلَا جَآءُوْ عَلَیْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ ۚ— فَاِذْ لَمْ یَاْتُوْا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰٓىِٕكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ۟
وه اس پر چار گواه کیوں نہ ﻻئے؟ اور جب گواه نہیں ﻻئے تو یہ بہتان باز لوگ یقیناً اللہ کے نزدیک محض جھوٹے ہیں.
阿拉伯语经注:
وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِیْ مَاۤ اَفَضْتُمْ فِیْهِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۟ۚ
اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر دنیا اور آخرت میں نہ ہوتا تو یقیناً تم نے جس بات کے چرچے شروع کر رکھے تھے اس بارے میں تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتا.
阿拉伯语经注:
اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَهٗ هَیِّنًا ۖۗ— وَّهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمٌ ۟
جب کہ تم اسے اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرنے لگے اور اپنے منھ سے وه بات نکالنے لگے جس کی تمہیں مطلق خبر نہ تھی، گو تم اسے ہلکی بات سمجھتے رہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وه بہت بڑی بات تھی.
阿拉伯语经注:
وَلَوْلَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا ۖۗ— سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ ۟
تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منھ سے نکالنی بھی ﻻئق نہیں۔ یا اللہ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے اور تہمت ہے.(1)
(1) دوسری بات اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ بتلائی کہ اس بہتان پر انہوں نے ایک گواہ بھی پیش نہیں کیا۔ جب کہ اس کے لئے چار گواہ ضروری تھے، اس کے باوجود تم نے ان بہتان تراشوں کو جھوٹا نہیں کہا۔ یہی وجہ ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد حضرت حسان، مسطح اور حمنہ بنت حجش (رضي الله عنهم) کو حد قذف لگائی گئی۔ (مسند أحمد جلد۔ 6 ، ص 30، ترمذي نمبر 3181 ،ابوداود نمبر 4744 ابن ماجه، نمبر 2567 ) عبداللہ بن ابی کو سزا اس لئے نہیں دی گئی کہ اس کے لئے آخرت کے عذاب عظیم کو ہی کافی سمجھ لیا گیا اور مومنوں کو سزا دے کر دنیا میں ہی پاک کردیا گیا۔ دوسرے، اس کے پیچھے ایک پورا جتھہ تھا، اس کو سزا دینے کی صورت میں کچھ ایسے خطرات تھے کہ جن سے نمٹنا اس وقت مسلمانوں کے لئے مشکل تھا، اس لئے مصلحتاً اسے سزا دینے سے گریز کیا گیا۔ (فتح القدیر)۔
تیسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ کا فضل واحسان تم پر نہ ہوتا تو تمہارا یہ رویہ کہ تم نے بلا تحقیق اس افواہ کو آگے پھیلانا شروع کردیا۔ عذاب عظیم کا باعث تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افواہ سازی اور اس کی نشرواشاعت بھی جرم عظیم ہے۔ جس پر انسان عذاب عظیم کا مستحق قرار پا سکتا ہے۔
چوتھی بات، کہ یہ معاملہ براہ راست حرم رسول (صلى الله عليه وسلم) اور ان کی عزت وآبرو کا تھا لیکن تم نے اسے قرار واقعی اہمیت نہیں دی، اور اسے ہلکا سمجھا۔ اس سے بھی یہ سمجھانا مقصود ہے کہ محض آبروریزی ہی بڑا جرم نہیں ہے کہ جس کی حد سو کوڑے یا رجم ہے بلکہ کسی کی عزت وآبرو پر اس طرح حملہ کرنا اور کسی عفت مآب خاندان کی تذلیل واہانت کا سروسامان کرنا بھی اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے، اسے ہلکا مت سمجھو۔ اسی لئے آگے پھر مزید تاکید کرتے ہوئے کہا کہ تم نے سنتے ہی یہ کیوں نہیں کہا کہ ہمیں ایسی بات منہ سےنکالنی بھی لائق نہیں۔ یہ یقیناً بہتان عظیم ہے۔ اسی لئے امام مالک فرماتے ہیں کہ جو نام نہاد مسلمان حضرت عائشہ (رضی الله عنها) پر بےحیائی کا الزام عائد کرے وہ کافر ہے کیوں کہ وہ اللہ کی اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے۔ (ایسرالتفاسیر)۔
阿拉伯语经注:
یَعِظُكُمُ اللّٰهُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِهٖۤ اَبَدًا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۟ۚ
اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی بھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مومن ہو.
阿拉伯语经注:
وَیُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ ؕ— وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ۟
اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنی آیتیں بیان فرما رہا ہے، اور اللہ تعالیٰ علم و حکمت واﻻ ہے.
阿拉伯语经注:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۙ— فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ ؕ— وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ۟
جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزومند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں(1) ، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے.
(1) فَاحِشَةٌ کے معنی بےحیائی کے ہیں اور قرآن نے بدکاری کو بھی فاحشہ قرار دیا ہے، (بنی اسرائیل) اور یہاں بدکاری کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے بےحیائی سے تعبیر فرمایا ہے اور اسے دنیا وآخرت میں عذاب الیم کا باعث قرار دیا ہے، جس سے بےحیائی کے بارے میں اسلام کے مزاج کا اور اللہ تعالیٰ کی منشا کا اندازہ ہوتا ہے کہ محض بےحیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت عند اللہ اتنا بڑا جرم ہے تو جو لوگ رات دن ایک مسلمان معاشرے میں اخبارات، ریڈیو، ٹی وی اور فلموں ڈراموں کے ذریعے سے بےحیائی پھیلا رہے ہیں اور گھر گھر اسے پہنچا رہے ہیں، اللہ کے ہاں یہ لوگ کتنے بڑے مجرم ہوں گے؟ اور ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کیوں کر اشاعت فاحشہ کے جرم سے بری الذمہ قرار پائیں گے؟ اسی طرح اپنے گھروں میں ٹی وی لا کر رکھنے والے، جس سے ان کی آئندہ نسلوں میں بےحیائی پھیل رہی ہے، وہ بھی اشاعت فاحشہ کے مجرم کیوں نہیں ہوں گے؟ اور یہی معاملہ فواحش اور منکرات سے بھرپور روزنامہ اخبارات کا ہے کہ ان کا بھی گھروں کے اندر آنا، اشاعت فاحشہ کا ہی سبب ہے، یہ بھی عنداللہ جرم ہوسکتا ہے۔ کاش مسلمان اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اس بےحیائی کے طوفان کو روکنے کے لئے اپنی مقدور بھر سعی کریں۔
阿拉伯语经注:
وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ وَاَنَّ اللّٰهَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ۟۠
اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ بڑی شفقت رکھنے واﻻ مہربان ہے(1) ۔ (تو تم پر عذاب اتر جاتا).
(1) جواب محذوف ہے، تو پھر اللہ کا عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لے لیتا۔ یہ محض اس کا فضل اور اس کی شفقت ورحمت ہے کہ اس نے تمہارے اس جرم عظیم کو معاف فرمادیا۔
阿拉伯语经注:
 
含义的翻译 章: 奴尔
章节目录 页码
 
《古兰经》译解 - 乌尔都语翻译 - 穆罕默德·古纳克里。 - 译解目录

由穆罕默德·易卜拉欣·乔纳克里翻译。在立瓦德翻译中心的监督之下已完成开发,原始翻译可供阅读,以便获取建议、评估和持续发展。

关闭