Check out the new design

Prijevod značenja časnog Kur'ana - Prijevod na urdu jezik - Muhammed Gunakry * - Sadržaj prijevodā

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Prijevod značenja Sura: Jusuf   Ajet:
وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْ ۚ— اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ؕ— اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۟
میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا(1) ۔ بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے واﻻ ہی ہے(2)، مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے(3)، یقیناً میرا پالنے واﻻ بڑی بخشش کرنے واﻻ اور بہت مہربانی فرمانے واﻻ ہے.
(1) اسے اگر حضرت یوسف (عليه السلام) کا تسلیم کیا جائے تو بطور کسر نفسی کے ہے، ورنہ صاف ظاہر ہے کہ ان کی پاک دامنی ہر طرح سے ثابت ہو چکی تھی۔ اور اگر یہ عزیز مصر کا قول ہے (جیسا کہ امام ابن کثیر کا خیال ہے) تو یہ حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ اپنے گناہ کا اور یوسف (عليه السلام) کو بہلانے اور پھسلانے کا اعتراف کر لیا۔
(2) یہ اس نے اپنی غلطی کی یا اس کی علت بیان کی کہ انسان کا نفس ہی ایسا ہے کہ برائی پر ابھارتا ہے اور اس پر آمادہ کرتا ہے۔
(3) یعنی نفس کی شرارتوں سے وہی بچتا ہے جس پر اللہ تعالٰی کی رحمت ہو، جیسا کہ حضرت یوسف (عليه السلام) کو اللہ تعالٰی نے بچا لیا۔
Tefsiri na arapskom jeziku:
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِیْ بِهٖۤ اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِیْ ۚ— فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَكِیْنٌ اَمِیْنٌ ۟
بادشاه نے کہا اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے خاص کاموں کے لئے مقرر کر لوں(1) .، پھر جب اس سے بات چیت کی تو کہنے لگا کہ آپ ہمارے ہاں آج سے ذی عزت اور امانت دار ہیں.(2)
(1) جب بادشاہ ریان بن ولید یوسف (عليه السلام) کے علم و فضل کے ساتھ ان کے کردار کی رفعت اور پاک دامنی بھی واضح ہوگئی، تو اسے حکم دیا کہ انہیں میرے سامنے پیش کرو، میں انہیں اپنے لئے منتخب کرنا یعنی اپنا مصاحب اور مشیر خاص بنانا چاہتا ہوں۔ (2) مَکِیْنُ مرتبہ والا، آمِین رموز مملکت کا راز دان۔
Tefsiri na arapskom jeziku:
قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآىِٕنِ الْاَرْضِ ۚ— اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ ۟
(یوسف نے) کہا آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے(1) ، میں حفاﻇت کرنے واﻻ اور باخبر ہوں.(2)
(1) خزائن خزانۃ کی جمع ہے خزانہ ایسی جگہ کو کہتے ہیں جس میں چیزیں محفوظ کی جاتی ہیں زمین کے خزانوں سے مراد وہ گودام ہیں جہاں غلہ جمع کیا جاتا ہے۔ اس کا انتظام ہاتھ میں لینے کی خواہش اس لئے ظاہر کی کہ مستقبل قریب میں (خواب کی تعبیر کی رو سے) جو قحط سالی کے ایام آنے والے ہیں، اس سے نمٹنے کے لئے مناسب انتطامات کئے جاسکیں اور غلے کی معقول مقدار بچا کر رکھی جاسکے، عام حالات میں اگرچہ عہدہ و منصب کی طلب جائز نہیں ہے، لیکن حضرت یوسف (عليه السلام) کے اس اقدام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاص حالات میں اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ قوم اور ملک کو جو خطرات درپیش ہیں اور ان سے نمٹنے کی اچھی صلاحیت میرے اندر موجود ہیں جو دوسروں میں نہیں ہیں، تو وہ اپنی اہلیت کے مطابق اس مخصوص عہدے اور منصب کی طلب کر سکتا ہے علاوہ ازیں حضرت یوسف (عليه السلام) نے تو سرے سے عہدا و منصب طلب ہی نہیں کیا، البتہ جب بادشاہ مصر نے انہیں پیشکش کی تو پھر ایسے عہدے کی خواہش کی جس میں انہوں نے ملک اور قوم کی خدمت کا پہلو نمایاں دیکھا۔
(2) حَفِیْظ میں اس کی اس طرح حفاظت کروں گا کہ اسے کسی بھی غیر ضروری مصرف میں خرچ نہیں کروں گا عَلِیْم اس کو جمع کرنے اور خرچ کرنے اور اس کے رکھنے اور نکالنے کا بخوبی علم رکھتا ہے۔
Tefsiri na arapskom jeziku:
وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ۚ— یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُ ؕ— نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَلَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ ۟
اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک کا قبضہ دے دیا۔ کہ وه جہاں کہیں چاہے رہے سہے(1) ، ہم جسے چاہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے ہیں۔ ہم نیکو کاروں کا ﺛواب ضائع نہیں کرتے.(2)
(1) یعنی ہم نے یوسف (عليه السلام) کو زمین میں ایسی قدرت و طاقت عطا کی کہ بادشاہ وہی کچھ کرتا جس کا حکم حضرت یوسف (عليه السلام) کرتے، اور سرزمین مصر میں اس طرح تصرف کرتے جس طرح انسان اپنے گھر میں کرتا ہے اور جہاں چاہتے، وہ رہتے، پورا مصر ان کے زیرنگین تھا۔
(2) یہ گویا اجر تھا ان کے صبر کا جو بھائیوں کے ظلم و ستم پر انہوں نے کیا اور ثابت قدمی کا زلیخا کی دعوت گناہ کے مقابلے میں اختیار کی اور اس کی اولو العزمی کا جو قید خانے کی زندگی میں اپنا رکھی۔ حضرت یوسف (عليه السلام) کو ورغلانے کی مذموم سعی کی تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بادشاہ حضرت یوسف (عليه السلام) کی دعوت و تبلیغ سے مسلمان ہوگیا تھا بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ عزیز مصر، جس کا نام اطفیر تھا، فوت ہوگیا تو اس کے بعد زلیخا کا نکاح حضرت یوسف (عليه السلام) سے ہوگیا اور دو بچے بھی ہوئے، ایک نام افرأیم اور دوسرے کا نام میشا تھا، افرأیم ہی یوشع بن نون اور حضرت ایوب (عليه السلام) کے والد تھے (تفسیر ابن کثیر) لیکن یہ بات مستند روایت سے ثابت نہیں اس لئے نکاح والی بات صحیح معلوم نہیں ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اس عورت سے جس کردار کا مظاہرہ ہوا، اس کے ہوتے ہوئے ایک نبی کے حرم سے اس کی وابستگی، نہایت نامناسب بات لگتی ہے۔
Tefsiri na arapskom jeziku:
وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا یَتَّقُوْنَ ۟۠
یقیناً ایمان داروں اور پرہیز گاروں کا اخروی اجر بہت ہی بہتر ہے.
Tefsiri na arapskom jeziku:
وَجَآءَ اِخْوَةُ یُوْسُفَ فَدَخَلُوْا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ ۟
یوسف کے بھائی آئے اور یوسف کے پاس گئے تو اس نے انہیں پہچان لیا اور انہوں نے اسے نہ پہچانا.(1)
(1) یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب خوش حالی کے سات سال گزرنے کے بعد قحط سالی شروع ہوگئی جس نے ملک مصر کے تمام علاقوں اور شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، حتیٰ کہ کنعان تک بھی اس کے اثرات جا پہنچے جہاں حضرت یعقوب (عليه السلام) اور حضرت یوسف (عليه السلام) کے بھائی رہائش پذیر تھے۔ حضرت یوسف (عليه السلام) نے اپنے حسن تدبیر سے اس قحط سالی سے نمٹنے کے لئے جو انتظامات کئے تھے وہ کام آئے اور ہر طرف سے لوگ حضرت یوسف (عليه السلام) کے پاس غلہ لینے کے لئے آرہے تھے حضرت یوسف (عليه السلام) کی یہ شہرت کنعان تک بھی جا پہنچی کہ مصر کا بادشاہ اس طرح غلہ فروخت کر رہا ہے۔ چنانچہ باپ کے حکم پر یہ بردران یوسف (عليه السلام) بھی گھر کی پونجی لے کر غلے کے حصول کے لئے دربار شاہی میں پہنچ گئے جہاں حضرت یوسف (عليه السلام) تشریف فرما تھے، جنہیں یہ بھائی تو نہ پہچان سکے لیکن یوسف (عليه السلام) نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا۔
Tefsiri na arapskom jeziku:
وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُوْنِیْ بِاَخٍ لَّكُمْ مِّنْ اَبِیْكُمْ ۚ— اَلَا تَرَوْنَ اَنِّیْۤ اُوْفِی الْكَیْلَ وَاَنَا خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ ۟
جب انہیں ان کا اسباب مہیا کر دیا تو کہا کہ تم میرے پاس اپنے اس بھائی کو بھی ﻻنا جو تمہارے باپ سے ہے، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میں پورا ناپ کر دیتا ہوں اور میں ہوں بھی بہترین میزبانی کرنے والوں میں.(1)
(1) حضرت یوسف (عليه السلام) نے انجان بن کر جب اپنے بھائیوں سے باتیں پوچھیں تو انہوں نے جہاں اور سب کچھ بتایا، یہ بھی بتا دیا کہ ہم دس بھائی اس وقت یہاں موجود ہیں۔ لیکن ہمارے دو بھائی (یعنی دوسری ماں سے) اور بھی ہیں۔ ان میں سے ایک تو جنگل میں ہلاک ہوگیا اور اس کے دوسرے بھائی کو والد نے اپنی تسلی کے لئے اپنے پاس رکھا ہے، اسے ہمارے ساتھ نہیں بھیجا۔ جس پر حضرت یوسف (عليه السلام) نے کہا کہ آئندہ اسے بھی ساتھ لے کر آنا، دیکھتے نہیں کہ میں ناپ بھی پورا دیتا ہوں اور مہمان نوازی اور خاطر مدارت بھی خوب کرتا ہوں۔
Tefsiri na arapskom jeziku:
فَاِنْ لَّمْ تَاْتُوْنِیْ بِهٖ فَلَا كَیْلَ لَكُمْ عِنْدِیْ وَلَا تَقْرَبُوْنِ ۟
پس اگر تم اسے لے کر پاس نہ آئے تو میری طرف سے تمہیں کوئی ناپ بھی نہ ملے گا بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا.(1)
(1) ترغیب کے ساتھ یہ دھمکی ہے کہ اگر گیارہویں بھائی کو ساتھ نہ لائے تو نہ تمہیں غلہ ملے گا نہ میری طرف سے اس خاطر مدارت کا اہتمام ہوگا۔
Tefsiri na arapskom jeziku:
قَالُوْا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ اَبَاهُ وَاِنَّا لَفٰعِلُوْنَ ۟
انہوں نے کہا اچھا ہم اس کے باپ کو اس کی بابت پھسلائیں گے اور پوری کوشش کریں گے.(1)
(1) یعنی ہم اپنے باپ کو اس بھائی کو لانے کے لئے پھسلائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہوجائیں گے۔
Tefsiri na arapskom jeziku:
وَقَالَ لِفِتْیٰنِهِ اجْعَلُوْا بِضَاعَتَهُمْ فِیْ رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُوْنَهَاۤ اِذَا انْقَلَبُوْۤا اِلٰۤی اَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ ۟
اپنے خدمت گاروں سے کہا کہ(1) ان کی پونجی انہی کی بوریوں میں رکھ دو(2) کہ جب لوٹ کر اپنے اہل وعیال میں جائیں اور پونجیوں کو پہچان لیں تو بہت ممکن ہے کہ یہ پھر لوٹ کر آئیں.
(1) فِتْیَان (نوجوانوں) سے مراد یہاں وہ نوکر چاکر اور خادم و غلام ہیں جو دربار شاہی میں مامور تھے۔
(2) اس سے مراد وہ پونجی ہے جو غلہ خریدنے کے لئے برادران یوسف (عليه السلام) ساتھ لائے تھے، پونجی چپکے سے ان کے سامانوں میں اس لئے رکھوا دی کہ ممکن ہے دوبارہ آنے کے لئے ان کے پاس مزید پونجی نہ ہو تو یہی پونجی لے کر آجائیں۔
Tefsiri na arapskom jeziku:
فَلَمَّا رَجَعُوْۤا اِلٰۤی اَبِیْهِمْ قَالُوْا یٰۤاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَیْلُ فَاَرْسِلْ مَعَنَاۤ اَخَانَا نَكْتَلْ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ۟
جب یہ لوگ لوٹ کر اپنے والد کے پاس گئے تو کہنے لگے کہ ہم سے تو غلہ کا ناپ روک لیا گیا(1) ۔ اب آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی کو بھیجئے کہ ہم پیمانہ بھر کر ﻻئیں ہم اس کی نگہبانی کے ذمہ دار ہیں.
(1) مطلب یہ ہے کہ آئندہ کے لئے غلہ بنیامین کے بھیجنے کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر یہ ساتھ نہیں جائے گا تو غلہ نہیں ملے گا۔ اس لئے اسے ضرور ساتھ بھجیں تاکہ ہم دوبارہ بھی اسی طرح غلہ مل سکے، جس طرح اس دفعہ ملا ہے، اور اس طرح کا اندیشہ نہ کریں جو یوسف (عليه السلام) کو بھیجتے ہوئے کیا تھا، ہم اس کی حفاظت کریں گے۔
Tefsiri na arapskom jeziku:
 
Prijevod značenja Sura: Jusuf
Indeks sura Broj stranice
 
Prijevod značenja časnog Kur'ana - Prijevod na urdu jezik - Muhammed Gunakry - Sadržaj prijevodā

Preveo Muhamed Ibrahim Đonakri. Pregledano od strane Prevodilačkog centra Ruvvad. Dopušta se uvid u originalni prijevod radi sugestije, ocjene i stalnog unapređivanja.

Zatvaranje