Check out the new design

Prijevod značenja časnog Kur'ana - Prijevod na urdu jezik - Muhammed Gunakry * - Sadržaj prijevodā

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Prijevod značenja Sura: El-Ahkaf   Ajet:
وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًا ؕ— حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّوَضَعَتْهُ كُرْهًا ؕ— وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا ؕ— حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً ۙ— قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ؕۚ— اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْكَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۟
اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا(1) ۔ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے(2)۔ یہاں تک کہ جب وه پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا(3) تو کہنے لگا اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے(4) کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا ﻻؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اوﻻد بھی صالح بنا، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں.
(1) اس مشقت وتکلیف کا ذکر، والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حکم میں مزید تاکید کے لئے ہے۔ جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماں، اس حکم احسان میں، باپ سے مقدم ہے، کیونکہ نوماہ تک مسلسل حمل کی تکلیف اور پھر زچگی (وضح حمل) کی تکلیف، صرف تنہا ماں ہی اٹھاتی ہے، باپ کی اس میں شرکت نہیں، اسی لئے حدیث میں بھی ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اولیت دی گئی ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتلایا گیا ہے۔ ایک صحابی (رضي الله عنه) نے نبی (صلى الله عليه وسلم) سے پوچھا میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا تمہاری ماں، اس نے پھر یہی پوچھا، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہی جواب دیا، تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، پھر تمہارا باپ (صحيح مسلم، كتاب البر والصلة، باب أول)۔
(2) فِصَالٌ کے معنی، دودھ چھڑانا ہیں۔ اس سے بعض صحابہ (رضي الله عنهم) نے استدلال کیا ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ مہینے یعنی چھ مہینے کے بعد اگر کسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے تو وہ بچہ حلال ہی کا ہوگا، حرام کا نہیں۔ اس لئے کہ قرآن نے مدت رضاعت دو سال (24 مہینے) بتلائی ہے (سورۂ لقمان: 14، سورۂ بقرۃ: 233) اس حساب سے مدت حمل صرف چھ مہینے ہی باقی رہ جاتی ہے۔
(3) کمال قدرت (أَشُدَّهُ) کے زمانے سے مراد جوانی ہے، بعض نے اسے 18 سال سے تعبیر کیا ہے، حتیٰ کہ پھر بڑھتے بڑھتے چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا۔ یہ عمر قوائے عقلی کے مکمل بلوغ کی عمر ہے۔ اسی لئے مفسرین کی رائے ہے کہ ہر نبی کو چالیس سال کے بعد ہی نبوت سے سرفراز کیا گیا (فتح القدیر)۔
(4) أَوْزِعْنِي بمعنی أَلْهِمْنِي ہے ، مجھے توفیق دے، اس سے استدلال کرتے ہوئے علما نے کہا ہے کہ اس عمر کے بعد انسان کو یہ دعا کثرت سے پڑھتے رہنا چاہئے۔ یعنی رَبِّ أَوْزِعْنِي سے مِنَ الْمُسْلِمِينَ تک۔
Tefsiri na arapskom jeziku:
اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَیِّاٰتِهِمْ فِیْۤ اَصْحٰبِ الْجَنَّةِ ؕ— وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ كَانُوْا یُوْعَدُوْنَ ۟
یہی وه لوگ ہیں جن کے نیک اعمال تو ہم قبول فرما لیتے ہیں اور جن کے بداعمال سے درگزر کر لیتے ہیں، (یہ) جنتی لوگوں میں ہیں۔ اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا تھا.
Tefsiri na arapskom jeziku:
وَالَّذِیْ قَالَ لِوَالِدَیْهِ اُفٍّ لَّكُمَاۤ اَتَعِدٰنِنِیْۤ اَنْ اُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُوْنُ مِنْ قَبْلِیْ ۚ— وَهُمَا یَسْتَغِیْثٰنِ اللّٰهَ وَیْلَكَ اٰمِنْ ۖۗ— اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ۚ— فَیَقُوْلُ مَا هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ۟
اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم سے میں تنگ آگیا(1) ، تم مجھ سے یہی کہتے رہو گے کہ میں مرنے کے بعد پھر زنده کیا جاؤں گا مجھ سے پہلے بھی امتیں گزر چکی ہیں(2)، وه دونوں جناب باری میں فریادیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں تجھے خرابی ہو تو ایمان لے آ، بیشک اللہ کا وعده حق ہے، وه جواب دیتا ہے کہ یہ تو صرف اگلوں کے افسانے ہیں.(3)
(1) مذکورہ آیت میں سعادت مند اولاد کا تذکرہ تھا، جو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک بھی کرتی ہے اور ان کے حق میں دعائے خیر بھی۔ اب اس کے مقابلے میں بدبخت اور نافرمان او لاد کا ذکر کیا جا رہا ہے جو ماں باپ کے ساتھ گستاخی سے پیش آتی ہے۔ أُفٍّ لَكُمَا افسوس ہے تم پر ، اف کا کلمہ، ناگواری کے اظہار کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی نافرمان اولاد، باپ کی ناصحانہ باتوں پر یا دعوت ایمان وعمل صالح پر ناگواری اور شدت غیظ کا اظہار کرتی ہے جس کی اولاد کو قطعاً اجازت نہیں ہے۔ یہ آیت عام ہے، ہر نافرمان اولاد اس کی مصداق ہے۔
(2) مطلب ہے کہ وہ تودوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں نہیں آئے۔ حالانکہ دوبارہ زندہ ہونے کا مطلب قیامت والے دن زندہ ہونا ہے جس کے بعد حساب ہوگا۔
(3) ماں باپ مسلمان ہوں اور اولاد کافر، تو وہاں اولاد اور والدین کے درمیان اسی طرح تکرار اور بحث ہوتی ہے جس کا ایک نمونہ اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔
Tefsiri na arapskom jeziku:
اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ؕ— اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِیْنَ ۟
وه لوگ ہیں جن پر (اللہ کے عذاب کا) وعده صادق آگیا(1) ، ان جنات اور انسانوں کے گروہوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں(2)، یقیناً یہ نقصان پانے والے .تھے.
(1) جو پہلے ہی اللہ کے علم میں تھا، یا شیطان کے جواب میں جو اللہ نے فرمایا تھا «لأَمْلأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ» (سورۃ ص:85)
(2) یعنی یہ بھی ان کافروں میں شامل ہوگئے جو انسانوں اور جنوں میں سے قیامت والے دن نقصان اٹھانے والے ہوں گے۔
Tefsiri na arapskom jeziku:
وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا ۚ— وَلِیُوَفِّیَهُمْ اَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ۟
اور ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجے ملیں گے(1) تاکہ انہیں ان کے اعمال کے پورے بدلے دے اور ان پر ﻇلم نہ کیا جائے گا.(2)
(1) مومن اور کافر، دونوں کا، ان کے عملوں کے مطابق اللہ کے ہاں مرتبہ ہوگا۔ مومن مراتب عالیہ سے سرفراز ہوں گے اور کافر جہنم کےپست ترین درجوں میں ہوں گے۔
(2) گناہ گار کو اس کے جرم سےزیادہ سزا دی جائے گی اور نیکو کار کے صلے میں کمی نہیں ہوگی۔ بلکہ ہر ایک کو خیر یا شر میں سے وہی کچھ ملے گا جس کا وہ مستحق ہوگا۔
Tefsiri na arapskom jeziku:
وَیَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا عَلَی النَّارِ ؕ— اَذْهَبْتُمْ طَیِّبٰتِكُمْ فِیْ حَیَاتِكُمُ الدُّنْیَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا ۚ— فَالْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ ۟۠
اور جس دن کافر جہنم کے سرے پر ﻻئے جائیں گے(1) (کہا جائے گا) تم نے اپنی نیکیاں دنیا کی زندگی میں ہی برباد کر دیں اور ان سے فائدے اٹھا چکے، پس آج تمہیں ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی(2)، اس باعﺚ کہ تم زمین میں ناحق تکبر کیا کرتے تھے اور اس باعﺚ بھی کہ تم حکم عدولی کیا کرتے تھے.(3)
(1) یعنی اس وقت کو یاد کرو، جب کافروں کی آنکھوں سے پردے ہٹا دیئے جائیں گے اور وہ جہنم کی آگ دیکھ رہے یا اس کے قریب ہوں گے۔ بعض نے يُعْرَضُونَ کے معنی يُعَذَّبُونَ کے کیے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کلام میں قلب ہے۔ مطلب ہے جب آگ ان پر پیش کی جائے گی تُعْرَضُ النَّارُ عَلَيْهِمْ (فتح القدير)۔
(2) طَيِّبَاتٌ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان ذوق وشوق سے کھاتے پیتے اور استعمال کرتے اور لذت وفرحت محسوس کرتے ہیں۔ لیکن آخرت کی فکر کے ساتھ ان کا استعمال ہو تو بات اور ہے، جیسے مومن کرتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ احکام الٰہی کی اطاعت کرکے شکر الٰہی کا بھی اہتمام کرتا رہتا ہے۔ لیکن فکر آخرت سے بے نیازی کےساتھ ان کا استعمال انسان کو سرکش اور باغی بنا دیتا ہے جیسے کافر کرتا ہے اور یوں وہ اللہ کی ناشکری کرتا ہے۔ چنانچہ مومن کو تو اس کے شکر واطاعت کی وجہ سے یہ نعمتیں بلکہ اس سے بدر جہا بہتر نعمتیں آخرت میں پھر مل جائیں گی۔ جب کہ کافروں کو وہی کچھ کہا جائے گا جو یہاں آیت میں مذکور ہے۔ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ . . . . کا دوسرا ترجمہ ہے دنیا کی زندگی میں تم نے اپنے مزے اڑا لیے اور خوب فائدہ اٹھا لیا۔
(3) ان کے عذاب کے دو سبب بیان فرمائے، ناحق تکبر، جس کی بنیاد پر انسان حق کا اتباع کرنے سے گریز کرتا ہے اور دوسرا فسق۔ بے خوفی کے ساتھ معاصی کا ارتکاب۔ یہ دونوں باتیں تمام کافروں میں مشترکہ ہوتی ہیں۔ اہل ایمان کو ان دونوں باتوں سے اپنا دامن بچانا چاہئے۔ ملحوظة۔ بعض صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کےبارے میں آتا ہے کہ ان کے سامنے عمدہ وغیرہ آتی تو یہ آیت انہیں یاد آجاتی اور وہ اسے ڈر سےاسے ترک کر دیتے کہ کہیں آخرت میں ہمیں بھی یہ نہ کہہ دیا جائے کہ تم نے اپنے مزے دنیا میں لوٹ لیے۔ تو یہ ا ن کی وہ کیفیت ہے جو غایت ورع اور زہد وتقویٰ کی مظہر ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اچھی نعمتوں کا استعمال وہ جائز نہیں سمجھتے تھے۔
Tefsiri na arapskom jeziku:
 
Prijevod značenja Sura: El-Ahkaf
Indeks sura Broj stranice
 
Prijevod značenja časnog Kur'ana - Prijevod na urdu jezik - Muhammed Gunakry - Sadržaj prijevodā

Preveo Muhamed Ibrahim Đonakri. Pregledano od strane Prevodilačkog centra Ruvvad. Dopušta se uvid u originalni prijevod radi sugestije, ocjene i stalnog unapređivanja.

Zatvaranje