Check out the new design

Bản dịch ý nghĩa nội dung Qur'an - Bản dịch tiếng Urdu - Muhammad Jonakrihi * - Mục lục các bản dịch

XML CSV Excel API
Please review the Terms and Policies

Ý nghĩa nội dung Chương: Al-Anfal   Câu:
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۙ— وَاَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۟ۙ
یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے جب تک کہ وه خود اپنی اس حالت کو نہ بدل دیں جو کہ ان کی اپنی تھی(1) اور یہ کہ اللہ سننے واﻻ جاننے واﻻ ہے۔
(1) اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم کفران نعمت کا راستہ اختیار کرکے اور اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی سے اعراض کرکے اپنے احوال واخلاق کو نہیں بدل لیتی، اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں کا دروازہ بند نہیں فرماتا ۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ گناہوں کی وجہ سے اپنی نعمتیں سلب فرما لیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مستحق بننے کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔ گویا تبدیلی کا مطلب یہی ہے کہ قوم گناہوں کو چھوڑ کر اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کرے۔
Các Tafsir tiếng Ả-rập:
كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ ۙ— وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ؕ— كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ فَاَهْلَكْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ وَاَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ ۚ— وَكُلٌّ كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ ۟
مثل حالت فرعونیوں کے اور ان سے پہلے کے لوگوں کے کہ انہوں نے اپنے رب کی باتیں جھٹلائیں۔ پس ان کے گناہوں کے باعﺚ ہم نے انہیں برباد کیا اور فرعونیوں کو ڈبو دیا۔ یہ سارے ﻇالم تھے۔(1)
(1) یہ اسی بات کی تاکید ہے جو پہلے گزری، البتہ اس میں ہلاکت کی صورت کا اضافہ ہے کہ انہیں غرق کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں یہ واضح کر دیا کہ اللہ نے ان کو غرق کرکے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ یہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے۔ اللہ تو کسی پر ظلم نہیں کرتا ”وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّٰمٖ لِّلۡعَبِيدِ“ (فصلت: 46)
Các Tafsir tiếng Ả-rập:
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ۟ۖۚ
تمام جانداروں سے بدتر، اللہ کے نزدیک وه ہیں جو کفر کریں، پھر وه ایمان نہ ﻻئیں۔(1)
(1) ”شَرُّ النَّاسِ“ (لوگوں میں سب سے بدتر) کے بجائے انہیں ”شَرُّ الدَّوَابِّ“ کہا گیا ہے۔ جو لغوی معنی کے لحاظ سے تو انسانوں اور چوپایوں وغیرہ سب پر بولا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کا استعمال چوپایوں کے لئے ہوتا ہے۔ گویا کافروں کا تعلق انسانوں سے ہی نہیں۔ کفر کا ارتکاب کرکے وہ جانور بلکہ جانوروں میں بھی سب سے بدتر جانور بن گئے ہیں۔
Các Tafsir tiếng Ả-rập:
اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّهُمْ لَا یَتَّقُوْنَ ۟
جن سے آپ نے عہد وپیمان کر لیا پھر بھی وه اپنے عہد وپیمان کو ہر مرتبہ توڑ دیتے ہیں اور بالکل پرہیز نہیں کرتے۔(1)
(1) یہ کافروں ہی کی ایک عادت بیان کی گئی ہے کہ ہر بار نقض عہد کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس کے عواقب سے ذرا نہیں ڈرتے۔ بعض لوگوں نے اس سے یہودیوں کے قبیلے بنو قریظہ کو مراد لیا ہے، جن سے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کا یہ معاہدہ تھا کہ وہ کافروں کی مدد نہیں کریں گے لیکن انہوں نے اس کی پاسداری نہیں کی ۔
Các Tafsir tiếng Ả-rập:
فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ ۟
پس جب کبھی تو لڑائی میں ان پر غالب آجائے انہیں ایسی مار مار کہ ان کے پچھلے بھی بھاگ کھڑے ہوں(1) ، ہو سکتا ہے کہ وه عبرت حاصل کریں۔
(1) شَرِّدْ بِهِمْ کا مطلب ہے کہ ان کو ایسی مار مار کہ جس سے ان کے پیچھے، ان کے حمایتیوں اور ساتھیوں میں بھگدڑ مچ جائے، حتیٰ کہ وہ آپ کی طرف اس اندیشے سے رخ ہی نہ کریں کہ کہیں ان کا بھی وہی حشر نہ ہو جو ان کے پیش روؤں کا ہوا ہے۔
Các Tafsir tiếng Ả-rập:
وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَیْهِمْ عَلٰی سَوَآءٍ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآىِٕنِیْنَ ۟۠
اور اگر تجھے کسی قوم کی خیانت کا ڈر ہو تو برابری کی حالت میں ان کا عہدنامہ توڑ دے(1) ، اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔(2)
(1) خیانت سے مراد ہے معاہد قسم سے نقض عہد کا خطرہ - اور عَلَى سَوَاءٍ (برابری کی حالت میں) کا مطلب ہے کہ انہیں باقاعدہ مطلع کیا جائے کہ آئندہ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں۔ تاکہ دونوں فریق اپنے اپنے طور پر اپنی حفاظت کے ذمہ دار ہوں، کوئی ایک فریق لاعلمی اور مغالطے میں نہ مارا جائے۔
(2) یعنی یہ نقض عہد اگر مسلمانوں کی طرف سے بھی ہو تو یہ خیانت ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ حضرت معاویہ (رضي الله عنه) اور رومیوں کے درمیان معاہدہ تھا۔ جب معاہدے کی مدت ختم ہونے کے قریب آئی تو حضرت معاویہ (رضي الله عنه) نے روم کی سرزمین کے قریب اپنی فوجیں جمع کرنا شروع کر دیں۔ مقصد یہ تھا کہ معاہدے کی مدت ختم ہوتے ہی رومیوں پر حملہ کر دیا جائے۔ ایک صحابی حضرت عمرو بن عبسہ (رضي الله عنه) کے علم میں حضرت معاویہ (رضي الله عنه) کی یہ تیاری آئی تو انہوں نے اسے غدر سے تعبیر فرمایا اور ایک حدیث رسول بیان فرما کر اسے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا، جس پر حضرت معاویہ (رضي الله عنه) نے اپنی فوجیں واپس بلالیں۔ (مسند أحمد جلد 5، ص - 111، أبو داود كتاب الجهاد، باب في الإمام يكون بينه وبين العدو عهد فيسير نحوه (إليه)، ترمذي، أبواب السير، باب ما جاء في الغدر)
Các Tafsir tiếng Ả-rập:
وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا ؕ— اِنَّهُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ ۟
کافر یہ خیال نہ کریں کہ وه بھاگ نکلے۔ یقیناً وه عاجز نہیں کر سکتے۔
Các Tafsir tiếng Ả-rập:
وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ— لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ ۚ— اَللّٰهُ یَعْلَمُهُمْ ؕ— وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یُوَفَّ اِلَیْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ ۟
تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی(1) کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زده رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ انہیں خوب جان رہا ہے جو کچھ بھی اللہ کی راه میں صرف کرو گے وه تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا۔
(1) قُوَّةٍ کی تفسیر نبی (صلى الله عليه وسلم) سے ثابت ہے یعنی تیراندازی (صحيح مسلم- كتاب الإمارة- باب فضل الرمي والحث عليه- وديكر كتب حديث) کیونکہ اس دور میں یہ بہت بڑا جنگی ہتھیار اور نہایت اہم فن تھا، جس طرح گھوڑے جنگ کے لئے ناگزیر ضرورت تھے، جیسا کہ اس آیت سے بھی واضح ہے۔ لیکن اب تیر اندازی اور گھوڑوں کی یہ جنگی اہمیت وافادیت وضرورت باقی نہیں رہی۔ اس لئے ”وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ“ کے تحت آج کل کے جنگی ہتھیاروں (مثلاً میزائیل، ٹینک، بم اور جنگی جہاز اور بحری جنگ کے لئے آبدوزیں وغیرہ) کی تیاری ضروری ہے۔
Các Tafsir tiếng Ả-rập:
وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَی اللّٰهِ ؕ— اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۟
اگر وه صلح کی طرف جھکیں تو تو بھی صلح کی طرف جھک جا اور اللہ پر بھروسہ رکھ(1) ، یقیناً وه بہت سننے جاننے واﻻ ہے۔
(1) یعنی اگر حالت جنگ کے بجائے صلح کے متقاضی ہوں اور دشمن بھی مائل بہ صلح ہو تو صلح کر لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ اگر صلح سے دشمن کا مقصد دھوکہ اور فریب ہو، تب بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں، یقیناً اللہ دشمن کے فریب سے بھی محفوظ رکھے گا، اور وہ آپ کو کافی ہے ۔ لیکن صلح کی یہ اجازت ایسے حالات میں ہے جب مسلمان کمزور ہوں اور صلح میں اسلام اور مسلمانوں کا مفاد ہو ۔ لیکن جب معاملہ اس کے برعکس ہو، مسلمان قوت ووسائل میں ممتاز ہوں اور کافر کمزور اورہزیمت خوردہ تو اس صورت میں صلح کے بجائے کافروں کی قوت وشوکت کو توڑنا ضروری ہے ۔ (سورۂ محمد: 35) ”وَقَٰتِلُوهُمۡ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتۡنَةٞ“ (الأنفال: 39)
Các Tafsir tiếng Ả-rập:
 
Ý nghĩa nội dung Chương: Al-Anfal
Mục lục các chương Kinh Số trang
 
Bản dịch ý nghĩa nội dung Qur'an - Bản dịch tiếng Urdu - Muhammad Jonakrihi - Mục lục các bản dịch

Người dịch Muhammad Ibrahim Jonakri, được phát triển dưới sự giám sát của Trung tâm Dịch thuật Rowad, và có thể tham khảo bản dịch gốc để đưa ra ý kiến, đánh giá và phát triển liên tục.

Đóng lại